counter easy hit

مغرب کا آزادی اظہار رائے کا دوہرا معیار

Charlie Hebdo Office

Charlie Hebdo Office

تحریر : محمد شاہد محمود
گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے فرانسیسی میگزین ”چارلی ہیبڈو” کے دفتر پر حملے کے بعد پوری دنیا میں مسلمانوں پر تنقید کا ایک طوفان برپا ہے۔ ان حملہ آوروں کے اقدام کو کئی مغربی دانشوروں کو اسلام کی بدنامی کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اور ان خاکوں کا دفاع آزادی اظہار کے نام پر کیا جارہا ہے۔ 2011ء میں اس میگزین نے پہلی مرتبہ گستاخانہ خاکے شائع کئے تو پوری دنیا کے مسلمانوں نے احتجاج کیا لیکن میگزین کی جانب سے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کا سلسلہ رکا نہیں۔ تاہم اس جریدے کی تاریخ کا ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آزادی اظہار کا حق صرف مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس بات کا ثبوت ”مورث سنے” نامی فرانسیسی صحافی کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ میں موجود ہے۔ 2008ء میں فرانس کے ساتھ صدر نکولس سارکوزی کے بیٹے کی شادی ایک انتہائی امیر یہودی خاندان میں ہوئی تو ”سنے” نے اس کو اپنے خاکوں میں طنز کا نشانہ بنایا۔ان کارٹونوں اور مضامین پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا کہ یہ یہودیوں کے خلاف ہیں اور ”سنے” نے ان کے ذریعے یہودیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اس پر جریدے کے ایڈیٹر نے ”سنے” سے مطالبہ کیا کہ وہ معافی نامہ لکھے یا نوکری سے فرغت کیلئے تیار ہوجائے۔ ”سنے” نے معافی مانگنے سے انکار کردیا اور اسے نوکری سے برطرف کردیا گیا۔

بعد ازاں ”سنے” جریدے کے خلاف عدالت گیا، فیصلہ اس کے حق میں آیا اور اسے بھاری معاوضہ ادا کیا گیا۔ تاہم دوسری جانب اسے مسلسل مختلف یہودی تنظیموں کی جانب سے قتل کی دھمکیاں ملتی رہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی آزادی اظہار ہے جو ایک کاروباری یہودی کا مذاق اڑانے کی اجازت تو نہیں دیتی لیکن اس کے سائے میں اربوں افراد کی ہر دل عزیز شخصیت کا مذاق اڑانا جائز ہے؟ یقیناً یہ مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کی ایک اور سازش ہے۔ اس کا مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ ان خاکوں کے ذریعے مسلمانوں کو طیش دلایا جائے اور پھر ان کے ردعمل کو ثبوت بنا کر ان پر دہشت گرد کا لیبل لگادیا جائے۔گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی صدر مملکت ممنون حسین نے سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آزادی اظہار کا مطلب یہ نہیں کہ کسی مذہب کے مقدس شعائر کی توہین کی جائے۔ آزادی اظہار کی حدود وہاں ختم ہوجاتی ہیں جہاں کسی دوسرے کی آزادی متاثر ہو اور جذبات کو ٹھیس پہنچے۔فرانسیسی جریدہ مسلمانوں کی دل آزاری کا مرتکب ہوا، اسے معافی مانگنی چاہئے۔ مسلمان تمام آسمانی مذاہب کا کھلے دل سے احترام کرتے ہیں اور کسی پیغمبر ہی نہیں کسی بھی مذہب کے رہنما کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتے اسلئے وہ چاہتے ہیں

دنیا کا کوئی بھی فرد خواہ کوئی عقیدہ بھی رکھے، اسے گستاخی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اقوام متحدہ کے یورپین آفس میں پاکستان کے مستقل نمائندے سفیر ضمیر اکرم نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کسی کو بھی دوسروں کے مذہب کی توہین کی اجازت نہیں دیتی۔ یو این کنونشنز کے تحت آزادی اظہار کے حق کو بالخصوص کسی بھی قسم کی پرتشدد کارروائیوں پر اشتعال کو روکنے کیلئے محدود کیا گیا ہے۔ فرانسیسی جریدے چارلی ایبڈو کی جانب سے گستاخانہ واضح طور پر اس ضمن میں آتے ہیں۔مخصوص مغربی ممالک نے واضح طور پر دوغلے معیار اپنا رکھے ہیں۔ ایک طرف انہوں نے آسمانی مذاہب یا یہودیت کیخلاف یا ہولوکاسٹ کی نفی کرنے کے بیانات کو ”نفرت انگیز بیان” قرار دیکر پابندی لگا رکھی ہے تو دوسری طرف اسلام فوبیا پر مشتمل یا اسلام اور مسلمانوں کی توہین کو ”آزادی اظہار رائے” کے نام سے تحفظ دیا جاتا ہے۔ اس طرح کا دوغلا معیار اور منافقت ناقابل قبول ہے۔

یہ مسلمان اقلیت رکھنے والے ممالک کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ مسلمانوں سے امتیازی ی سلوک کو ختم کر دیں۔ تحریک حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جماعةالدعوة کی اپیل پر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے خلاف جمعہ کو ملک گیر یوم احتجاج منایا گیا۔ لاہور، اسلام آباد، ملتان، کراچی، حیدرآباد، سکھر اور پشاور سمیت پانچوں صوبوں و آزاد کشمیر میں زبردست احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں۔حافظ محمد سعید نے اتوار18جنوری کوناصر باغ سے مسجد شہداء مال روڈتک بڑے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مارچ اور جلدملک گیر علماء کنونشن کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مارچ میں ملک بھر کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کو شریک کیاجائے گا۔توہین آمیز خاکوں کے خلاف لاہور میں سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ چوبرجی چوک میں کیا گیا جس میں طلبائ، وکلائ، تاجروں، سول سوسائٹی اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔نماز جمعہ کے بعد ملک بھر میں ہونیو الے احتجاجی مظاہروں اور ریلیوںمیں گستاخانہ خاکوں کے خلاف شدیدغم و غصہ دیکھنے میں آیا اور شرکاء کی جانب سے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جان بھی قربان ہے’ کے فلگ شگاف نعرے لگائے جاتے رہے۔ المحمدیہ سٹوڈنٹس کے ہزاروں طلباء بھی ملک بھر میں کئے جانے والے مظاہروںمیں شریک ہوئے۔ شرکاء نے ہاتھوں میں کتبے اور بینرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اسلام و مسلمانوں کے خلاف کھلا اعلان جنگ ہے

‘ گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت پناہی کرنے والے تہذیبوں کی جنگ بھڑکا رہے ہیں اور گستاخانوں خاکوں کی اشاعت صلیبی و یہودی دہشت گردی ہے’ جیسی تحریریں درج تھیں۔ چوبرجی چوک میں ہونے والے احتجاجی مظاہرہ سے جماعةالدعوة پاکستان کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید، علامہ ابتسام الہٰی ظہیر، مولانا امیر حمزہ،علامہ احمد علی قصوری، شیخ نعیم بادشاہ، نعمان یحییٰ ایڈووکیٹ، حافظ مسعو واوردیگر نے خطاب کیا۔حافظ محمد سعید کا کہنا تھاکہ حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت ہمارے دین کا حصہ ہے۔ہم سب کچھ قربان کریں گے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔اتوار 18جنوری کو ناصر باغ سے مسجد شہداء مال روڈ تک بہت بڑا حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مارچ ہو گاجس میں ملک بھر کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کو شریک کیا جائے گا۔ اسی طرح جلد ملک گیر علماء کنونشن کا بھی انعقاد کیا جائے گا۔ حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مارچ حکمرانوں کو احساس دلائے گا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحفظ کسی ایک جماعت کا مسئلہ نہیں۔

ملک بھر کی تمام دینی، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، وکلاء سمیت تمام تنظیموں کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ کے لئے اتوار کو مال روڈ پر ہونے والے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مارچ میں شرکت کریں۔دشمنوں کی کوشش ہے کہ وہ ہماری زبانوں کو بند کر دے اور ہمارے لئے مشکلات کھڑی کر دے لیکن انکی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ قومی اسمبلی میں گستاخانہ خاکوں کے حوالہ سے مذمتی قرارداد پاس ہونا اور اسمبلی کے باہر مارچ خوش آئند ہے مگر یہ کافی نہیں ۔دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے ملک میں قانون سازی ہو رہی ہے اس پر سنجیدگی سے عمل انتہائی ضروری ہے مگر اس کے ساتھ دہشت گردی کے راستے ہموار کرنے والوں کو بھی روکنا ہو گا۔ اگر حکمران چاہتے ہیں کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو ۔قتل و غارت کا سلسلہ رکے اور مسلمانوں کے دل آپس میں جڑیںتو اللہ کی مدد کے حصول کے لئے پاکستان کی طرف سے توہین آمیز خاکوں کے خلاف عالمی سطح پر قانون سازی کے لئے تحریک کھڑی کریں۔اسلامی ممالک کا اجلاس بلائیں اور حرمت رسولۖ کے حوالہ سے قانون سازی کروا کے سب سے بڑی اور عالمی دہشت گردی کا راستے بند کریں۔

Shahid Mehmmod

Shahid Mehmmod

تحریر : محمد شاہد محمود