counter easy hit

جعلی خبروں کا ہتھیار

مقابل کو زیر کرنے کے لیے دروغ گوئی اور پراپیگنڈے کے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔کوٹلیہ ارتھ شاستر میں تقریباً 320قبل مسیح میں اسے ریاستی حکمت عملی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ دورحاضر میں پاک فوج اور آئی ایس آئی افترا پردازی کی ایسی ہی مہمات کے نشانے پر رہی ہیں۔ جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کے معاشی، نظریاتی یا سیاسی مقاصد ہوتے ہیں۔

روسی اداروں نے 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں، بین الاقوامی سیاسی خطرات کو سوشل میڈیا کے ذریعے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر صدر ٹرمپ کو کامیابی حاصل ہوئی۔ ٹیکنیکل یونیورسٹی میونخ میں سیاسیات کے پروفیسر سائمن ہیگلچ یاد کرتے ہیں کہ کس طرح نومبر 2016ء میں جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے کہا تھا ’’آخر ہو کیا رہا ہے؟‘‘

کلنٹن کی شکست کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو اس میں مبہم اطلاعات، ووٹر کے جذبات کو اکسانے، انٹرنیٹ پر صارفین کے سرچ کی نگرانی کے لیے بنائے گئے مختلف حربے، افواہوں اور غلط بیانی جیسے کئی عوامل نظر آتے ہیں۔ آٹومیٹڈ الگورتھم ’’بوٹس‘‘ کے ذریعے من گھڑت خبریں اس قدر تیزی سے پھیلائی جاتی ہیں کہ اس رفتار سے سیاست داں یا تحقیق کار ان کی تردید کرنا بھی چاہیں تو نہیں کرسکتے۔ سینٹ پیٹرزبرگ میں قائم ایک مشکوک روسی فورم نے امریکا کے نسل پرستی اور گن کنٹرول جیسے حساس سماجی مسائل کو ہوا دینے کے لیے 3000  فیس بک اشتہارات خریدے۔ اسی سبب یہ دعوے سامنے آئے کہ روس نے امریکی انتخابات ہائی جیک کیے۔

یہ ’’پوسٹ ٹرتُھ‘‘ (مابعد سچ) کا دور ہے جس میں  ’’معروضی حقائق کے بجائے احساسات اور ذاتی خیالات کو ہوا دے کر رائے عامہ کی تشکیل میں انھیں زیادہ مؤثر بنایا جاتا ہے۔‘‘ معروضی رپورٹنگ اب اس نظریے سے لگاّ نہیں کھاتی، اب محض مختلف نکتہ ہائے نظر اور تناظرات کا مقابلہ ہوتا ہے۔ حریف کے خلاف ’’افواہوں‘‘ کے ذریعے ’’متبادل حقائق‘‘سامنے لانا ’’نفسیاتی مہمات‘‘ کی صورت اختیار کرچکا ہے اور یہ مہمات باقاعدہ مہارت سے انجام دی جاتی ہیں۔ کمپیوٹر جنیریٹڈ امیجری (سی جی آئی) اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس نے چہرے کے تاثرات کی آمیزش سے جعلی ویڈیوز پھیلانا ممکن بنا دیا ہے۔

فرانزک تجزیے یا اصل ماخذ سے تردید کی نوبت ہی کہاں آتی ہے، اس سے قبل ہی یہ فریب کاری وسیع پیمانے پھیل چکی ہوتی ہے۔ بظاہر حقیقی نظر آنے والی ان جعلی ویڈیوز کی حقیقت ثابت کرنے کے لیے فرانزک تجزیہ میں اگر دن نہیں تو کم از کم گھنٹے درکار ہیں۔ یہ وقت گزر جانے کے بعدان کے اثرات زائل کرنا قریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہیگلیچ کے مطابق ہر بات پر سوال اٹھانے سے جمہوریت کمزور ہوتی ہے اور ایسے مبہم مقاصد حاصل ہوجاتے ہیں۔

نامعلوم ہیکرز کسی بھی سیاست دان کے راز بہ آسانی چوری کرسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا ڈرامائی انداز میں ماضی کی میڈیا تکنیکوں کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ انٹرنیٹ کی مدد سے کروڑوں افراد تک رسائی ممکن ہے۔ سوشل میڈیا پر آنے والی اکثر معلومات پر کوئی نگرانی (گیٹ کیپر) نہیں، جس طرح کسی قابل اعتبار صحافتی ادارے میں ہوتی ہے، اس لیے متن میں بیان کردہ حقائق کی کوئی جانچ پرکھ نہیں ہوتی یا صحافتی ضابطوں کا اطلاق ہی ہوتا ہے۔ فیس بُک کے بانی مارک زکر برگ نے جعلی خبروں کے امریکی صدارتی انتخابات پر اثرانداز ہونے میں اپنی کمپنی کے کردار کا اعتراف بھی کیا۔

اس کے لیے کچھ انسدادی اقدامات بھی کیے گئے لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کردی گئی کہ ’’سچ‘‘ کی ’’نشاندہی‘‘پیچیدہ کام ہے۔ انٹرنیٹ کے پھیلاؤسے سیاسی مداخلت کے ذرایع اس قدر جدید ہوچکے ہیں کہ انھیں دنیا کی جمہوریتوں کے لیے ایک سر اٹھاتا خطرہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں نیوز مارکیٹ نسبتا مندی رہتی ہے، جعلی خبریں سماجی میڈیا کے صارفین جب ایسے معلومات کی اصل ویب سائٹ پر جاتے ہیں تو ان کے ان کلک سے اشتہارات کی مد میں خاصی آمدنی بھی ان ویب سائٹس چلانے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ سماجی میڈیا جعلی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا، ایسے عناصر کو افواہیں پھیلانے اور خود سماجی رابطے کی ویب سائٹس کی ساکھ خراب کرنے کی صورت میں کسی قسم کے نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

مابعد سچ ’’متبادل حقائق‘‘ اور دروغ گوئی میں علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کو غیر مستحکم کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔فیس بک اور واٹس ایپ پر پھیلائی جانے والی جعلی اطلاعات کے اصل مآخذ کا سراغ لگانا یا مؤثر انداز میں اس کی تردید کرنا انتہائی دشوار ہے۔ مشال خان کے سفاکانہ قتل کے بعد فیس بک پر مقتول کی ایک جعلی پروفائل بنائی گئی جس پر توہین آمیز مواد دکھاکر اس عمل کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسکولوں کے نصاب میں حقائق کی تصدیق اور معلومات کے ماخذ سے متعلق آگاہی کے لیے نصاب میں طریقے متعارف کروانے کی ضرورت ہے، لیکن اس اثرات مرتب ہونے میں برسوں لگیں گے، اس دوران جعلی خبروں کی ٹیکنالوجی مزید ترقی یافتہ ہوجائے گی اور پھل پھول چکی ہو گی۔

جعلی خبریں پھیلانے والے معاشرے کو عدم استحکام کا شکار کرتے ہیں۔ گورننس، ملکی اور بین الاقوامی سیاست اور جمہوریتوں کو فریب دہی کے ذریعے تشکیل کردہ رائے عامہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ پست صحافتی معیارات کی وجہ سے میڈیا جمہوریت کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہتا اور احتساب کے لیے فضا ہموار کرنے میں بھی اپنا حصہ نہیں ملاپاتا۔ ان نقصانات کے انسداد  اور غلط خبریں پھیلانے کے اس ہتھیار کا مقابلہ کرنے کے لیے  سائبر سیکیورٹی کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ حقائق کی تصدیق کے لیے جدید ٹیکنالوجی ذرایع، حکومت اور تعلیم یافتہ افراد کی جانب سے سخت اقدام کی ضرورت ہے۔

غیر مصدقہ مواد کو محدود کرنے اور فریب کاری کو طشت ازبام کرنے کے لیے نئے طریقوں سے جعلی اکاؤنٹس کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے، حقائق پر مبنی بیانیے کے فروغ میں حکومت کو متحرک کردار ادا کرنا ہوگا اور حکومتوں کو کسی ایسی منفی میڈیا مہم کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہیے۔

افراد یا اداروں کے خلاف جھوٹی خبریں پلانٹ کرنا خفیہ ایجینسیوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں، یہ ’’ہائبرڈ وارفیئر‘‘ کی شکل ہے، جعلی خبروں کے انسداد کے لیے باقاعدہ مہارت درکار ہوتی ہے۔ جرمن انٹیلی جینس ایجینسیوں کی مدد سے یورپی یونین سائبر سسٹم کو ہیکرز کے حملے سے محفوظ بنانے کے لیے سائبر سیکیورٹی کی صلاحیتوں کو بہتر بنارہی ہے۔ اس سلسلے میں غیر قانونی اور باغیانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یورپی یونین نے باقاعدہ ’’ایسٹ اسٹارٹ کوم‘‘ کو مختص کردیا ہے۔ ان ہائبرڈ جنگی حربوں سے مقابلے کے لیے برطانیہ نے ’’بریگیڈ 77‘‘ تشکیل دیا ہے۔ امید ہے کہ آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی اس سلسلے میں مصروف کار ہوں گی۔

اس مؤقف کے ساتھ کہ ’’جھوٹی خبریں گفت وشنید کے ہمارے کلچر کے لیے خطرہ ہیں‘‘ وزیر انصاف ہیکو ماس نے جرمن پارلیمنٹ سے ایک قانون منظور کروایا جس میں فیس بک اور دیگر سماجی میڈیا کی کمپنیوں پر ’’غیر قانونی مواد‘‘ فوری طور پر حذف نہ کرنے کی پاداش میں  پچاس ملین ڈالر جرمانہ کیا گیا۔ نفرت انگیز، فحش اور بدنیتی پر مبنی مواد کے خاتمے کے لیے اس پر قانون میں ’’غیر قانونی مواد‘‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ ’’نیٹ ورک انفورسمنٹ ایکٹ‘‘ کے عنوان سے بننے والا یہ قانون سوشل میڈیا کو قواعد کا پابند بنانے کے لیے ان کڑے ضابطوں پرمبنی ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔

ماس نے اس قانون کے بارے میں کہا ’’سڑک پر آنے والے باغیوں کی طرح سوشل میڈیا پر مجرمانہ بغاوت  کرنے والوں کو رعایت نہیں دی جا سکتی۔ انتشار پھیلانے کے ذرایع اس قدر ترقی یافتہ ہوچکے کہ انھیں جمہوریتوں کے لیے خطرہ قرار دیا جانا چاہیے۔رائے عامہ کو فریب کاری سے اپنے حق میں موڑنے کے ذرایع موجود ہیں تو ہم جمہوریت کی نئی شکل دیکھیں گے۔ درحقیقت ہمارے لیے یہ زیادہ اہم ہے کہ انتخابی امور میں ہمارے فیصلے جھوٹ کے بجائے حقائق پر مبنی ہونے چاہئیں۔‘‘ اداروں اور افراد دونوں کی ذمے داری ہے کہ وہ جھوٹی اطلاعات پر اعتبار نہ کریں، انھیں پھیلانے کا ذریعہ نہ بنیں اور ان کے اصل ماخذ کی نشان دہی کریں۔