counter easy hit

ہم اپنے والدین کو بچپن سے اپنی ہر ضرورت کا خیال رکھتے دیکھتے ہیں

ہم اپنے والدین کو بچپن سے اپنی ہر ضرورت کا خیال رکھتے دیکھتے ہیں۔ تعلیم اور خوراک سے لے کر ہمارے گھر بسانے اور دکھ، درد میں ڈھارس بندھانے تک وہ ہر وقت ہماری ہی فکر میں گھرے نظر آتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے لئے وہ جتنے بظاہر فکر مند نظر آتے ہیں حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ فکر مند ہوتے ہیں۔ والدین کی اس ناقابل بیان محبت کا ایک واقعہ برطانوی خاتون نکی پنگٹن نے بیان کیا ہے، جنہیں اپنی والدہ کی وفات کے بعد پتا چلا کہ انہوں نے ایک خاص راز ان سے چھپا کر رکھا ہوا تھا۔

نکی پینگٹن لکھتی ہیں کہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ذہنی پریشانی ہمیشہ سے میری زندگی کا حصہ رہی ہے۔ اگر آپ ذہنی پریشانی کے مرض میں مبتلا ہوں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی میں کوئی ایک ایسا شخص ہے جو شدید پریشانی کی حالت میں آپ کا سہارا بن سکتا ہے اور آپ کی ڈھارس بندھاسکتا ہے۔ میرے لئے وہ شخص میری والدہ تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ ایسی حالت میں انہوں نے کیسے مجھے سہارا دینا ہے اور کیسے واپس مجھے زندگی کی جانب لانا ہے۔

میری شادی کے چند ہفتے بعد ایک بار پھر مجھے ذہنی پریشانی کا دورہ پڑا اور میں نے اپنے خاوند سے کہا کہ مجھے فوری طور پر اپنی والدہ سے بات کرنی ہے۔ انہوں نے کچھ سوچا اور کہنے لگے کیوں نہ ایسا کریں کہ تم اس کے متعلق مجھ سے بات کرو۔ تم ذرا کوشش کرو اور دیکھتے ہیں کہ میں تمہاری مدد کرپاتا ہوں کہ نہیں۔ میں نے سوچا چلو ایک بار کوشش کرتے ہیں لیکن جب میں نے اپنی پریشانی کا اظہار اس سے کیا اور اس نے مجھ سے گفتگو کا آغاز کیا تو ایسے محسوس ہوا کہ جیسے میں اپنی والدہ سے ہی بات کررہی تھی۔ اس کے بعد بھی جب بھی مجھے ضرورت پڑی تو میرا خاوند ہی میری مدد کیلئے موجود ہوتا تھا۔ آہستہ آہستہ مجھے اپنی ذہنی پریشانی کیلئے اپنی والدہ سے بات کرنے کی ضرورت بہت کم محسوس ہونے لگی۔

پھر ایک دن ایسا آیا کہ وہ دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ میں نے اس موقع پر اپنے خاوند سے کہا ”میری زندگی کا سب سے بڑا سہارا دنیا سے چلا گیا ہے۔، وہ جو مجھے جانتی تھیں اور میری پریشانیوں اور خامیوں کو سمجھتی تھیں۔ صرف وہی اس دنیا میں تھیں جو مجھے زندگی کے خوف سے نجات دلاسکتی تھیں۔ اب وہ بھی دنیا سے چلی گئی ہیں۔“

میرے خاوند نے یہ سنا تو کہنے لگا آج تمہیں ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ پھر اس نے مجھے ایک ایسی کہانی بتائی جو میری والدہ سے متعلق تھی اور جو میں اس دن پہلی بار سن رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ ”ہماری شادی کے دن تمہاری والدہ نے مجھے ایک کاغذ دیا تھا جس پر لکھی تحریرکا عنوان تھا ’نکی کا خیال کیسے رکھنا ہے‘ اس تحریر میں انہوں نے مجھے بڑی تفصیل سے سمجھایا تھا کہ جب تمہیں ذہنی پریشانی لاحق ہو تو کیسے تمہاری مدد کرنی ہے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ اس کیفیت میں تم کس طرح کی باتیں کرتی ہو او ران کا کیا جواب ہونا چاہیے۔ وہ چاہتی تھیں کہ میں بالکل اسی طرح تمہارا خیال رکھ سکوں جس طرح وہ خود رکھتی تھیں تا کہ تمہیں کبھی ان کی کمی محسوس نا ہو۔ اس ضمن میں انہوں نے یہ پانچ خاص باتیں بھی بتائی تھیں:

پہلی بات: خاموشی سے اس کی بات سنتے رہو

دوسری بات: کچھ دیر مزید سنو

تیسری بات: فوری طورپر مسئلے کے حل کی کوشش مت کرو

چوتھی بات: اسے بتاﺅ کہ تم اس کی بات کو سمجھ رہے ہو

پانچویں بات: اس کی بات سنتے رہو حتیٰ کہ وہ خود ہی اپنے مسئلے کے حل تک پہنچ جائے۔

انہوں نے لکھا تھا کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے، وہ ہمیشہ اپنے مسائل کا حل خود ڈھونڈ لیتی ہے، اگرچہ اسے یہ بات معلوم نہیں ہے۔“

یہ باتیں سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ میری والدہ نے میری شادی کے وقت اپنی ذمہ داری میرے خاوند کو سونپ دی تھی، اس لئے نہیں کہ وہ ایسا چاہتی تھیں بلکہ اس لئے کہ انہیں معلوم تھا کہ ایک دن مجھے سہارا دینے کیلئے وہ اس دنیا میں نہیں ہوں گی۔ ماں، میں جانتی تھی کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو،لیکن میں نے اب جانا ہے کہ تمہاری محبت لامحدود تھی، جو تمہارے جانے کے بعد بھی میرا سہارا ہے۔