counter easy hit

واپڈا کی نجکاری نہیں۔۔۔۔۔۔

Protest

Protest

تحریر : محمود احمد خان لودھی
بحرانوں کے موسم میں حکومت اک نئے اور طویل بحران میں قوم کو ڈالنے کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہے انتخابی مہمات میں ملکی تعمیر وترقی کے وعدے کرنے والوں ، اداروں کو نجکاریوں سے بچا کرمضبوط بنانے کے وعدے کرنے والوں سے اب کوئی پوچھے کہ کیا اداروں کی نجکاریاں حکومتی کامیابیوں کا ثبوت ہوا کرتی ہیں۔۔۔ ؟کسی عام بندے سے پوچھیں تو جواب آپ کو نہیں میں ہی ملے گا مگر ملک کی تجربہ کارٹیم پر مشتملحکومت کو کون سمجھائے اور ان حکمرانوںسے اداروں کو کون بچائے کہ جن کی تجربہ کاری حالیہ پٹرول بحران میں نمایاں اور ابھر کر سامنے آگئی ہے۔ اور اب تو (ن) لیگی سپورٹرز کو بھی ”شیر بنو شیر بنو” کے طنزیہ جملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے(ن) لیگی حکومت کے ڈیڑھ سال سے زائد اقتدار میںجو بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں ان سے یہ اچھی طرح ثابت ہوگیا ہے کہ وزیرِاعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محترم نواز شریف کی تجربہ کار ٹیم کو پریشان حال پاکستانی عوام کی مشکلات کا کوئی ادراک نہیں۔ اسی لئے پاکستانی غریب عوام کو کہیں کوئی حقیقی ریلیف نہیں دیا گیا بجلی،گیس کی عدم دستیابی کے باوجود قیمتوں میںاضافہ کیا گیا ،

عام استعمال کی اشیاء پر پر بھی بھاری ٹیکس عائد کئے گئے۔ امیر طبقہ کے لیے ٹیکسز میں چھوٹ اور عام آدمی کیلئے ترقی کا واحد حل ”یوتھ لون سکیم” کو بتایا گیا، عام آدمی کو اس سے کتنا ریلیف ملا اور حقیقی فوائد کسے حاصل ہیں سب کے سامنے ہے۔ قرضوں کی بھرمار میںتو موجودہ حکومت نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انتخابات میں آنے سے قبل اسٹیل مل کو اپنی تجربہ کاری سے بہتر بنانے کے دعوے کرنے والے آج خود اسٹیل مل کو غیروں کے ہاتھ دینے کی باتیں کررہے ہیں۔تجربہ کار ٹیم کا اس وقت بڑاہدف نجکاری ہے اور نجکاری کو ہی ملکی معیشت کا کرشماتی حل گردانا جارہا ہے اور نجکاری کی اس زد میں بڑے بڑے قومی ادارے آنے والے ہیںتجربہ کار ٹیم کی زیادہ توجہ قومی ادارے ”واپڈا”پر ہے جسے پہلے ہی کمپنیوں اور نجکاریوں کے عمل سے گزار کر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جاچکا ہے۔ عام فہم بات ہے کہ کسی اناڑی کو اگر کہا جائے کہ وہ بوئنگ777 جہاز کو اڑا کر پاکستان سے امریکہ لے جائے تو اس کا مطلب ان سینکڑوں مسافروں کا قتل عام ہی ہوسکتا ہے جو اس میں سوار ہوں کہ جہاز کو اڑانے کیلئے پائلٹ کا تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے۔

اسی طرح حکمرانوں نے واپڈا کو کمپنیوں میں تقسیم کرکے تجربہ کار سی اوز کی جگہ اپنے ذاتی اور من پسند افراد کا تقرر کیا جس سے ادار ے کا وقار خاک میں مل گیا اوررہے سہے وقار کو مزید روندا جائے گا۔ بار بار اقتدار پر عوامی خدمت کا عزم لئے براجمان ہونے والے حکمرانوں نے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کا کوئی ٹھوس منصوبہ نہ بنایا جبکہ ہمسایہ ملک میں چھوٹے بڑے سینکڑوں ڈیم بنا لئے گئے اور اس نااہلی کا تمام تر بوجھ ادارہ پر ڈال کر اسے ناکام قرار دے دیا حالانکہ دیکھا جائے تو واپڈا کے زیر انتظام ہی ملک میں ہائیڈل پاور سسٹم کو فروغ ملا جب سے واپڈا کو تقسیم کیا گیاا ور اس کے اختیارات سلب کئے گئے ہیں ملک میں بجلی کی پیداوار کا کوئی اہم منصوبہ سامنے نہیں آسکا۔سیاسی مداخلت در مداخلت نے ہی حقیقت میں قومی اداروں کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔واپڈا کی مجوزہ نجکاری کیخلاف گزشتہ ادوار سے لاکھوں پاکستانی/ملازمین احتجاج کرتے چلے آرہے ہیں مگر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی مبینہ شرائط کے آگے سرتسلیم خم کرنے والے حکمرانYes Sir ،Yes Sir کے راگ الاپ کر اہم ترین ملکی اداروں کے وقار کو خاک میں ملانے پر تلے ہوئے ہیں۔

موجودہ حکومت سے لوگوں کو توقعات وابستہ تھیں کہ یہ ریلوے، واپڈا، اسٹیل مل اور دیگر اہم اداروں کو اپنی مثبت پالیسیوں سے منافع بخش ادارے بنا کر نجکاری جیسے عمل سے بچائیں گے مگر قوم دیکھ رہی کے کچھ بھی نہیں بدلا اور حکمران اپنی سابقہ روش پر قائم رہتے ہوئے وعدہ خلافیوں ، بحرانوں اور خساروں کے نئے نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔رپورٹس کیمطابق پی ٹی سی ایل جیسے ادارہ کی نجکاری کے بعد منافع میں واضح کمی آچکی ہے۔نجکاری کے عمل سے روزگار محدود ہوکررہ جائے گا پہلے سے اداروں میں کام کرنے والوں کو نوکریوں سے فارغ ہونے کیلئے مجبور کیا جائے گا۔عام ملازم کو چند ہزار یا لاکھ دو لاکھ روپے دیکر ٹرخایا جائے گاکیونکہ سابقہ نجکاریوں میں بھی یہی ہوا۔حکمرانوںنے بلا سوچے سمجھے ملکی معیشت کی بہتری کیلئے قرضے تو لئے مگر ان کی شفاف آڈٹ کا کوئی بندوبست نہ ہوا۔اور پھرگرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کیلئے دیگر اقدامات کے علاوہ بڑی تعداد میں نوٹ چھاپے گئے۔ آئی ایم ایف نے مزید نوٹ چھاپنے کے لیے شرائط سخت کیں تو حکومت نے غیر مستحکم خساروں کو عارضی سہارے دینے کے لیے نئی راہیں تلاش کرنا شروع کر دی ہیں۔ حکومتی آمدنی میں اضافہ کرنے کی حقیقی اصلاحات،شاہانہ اخراجات میں کمی، غیر ضروری دوروں اور پروٹوکول کے خاتمہ ، امیر طبقہ سے ٹیکسوںکی وصولی اور غیر پیداواری اخراجات میں کمی کرنے کی بجائے حکومت خساروں کو مالی سہارا دینے کے لئیشارٹ کٹ اختیار کرنے کے چکر میں ہے۔

سرکاری اداروں کی فروخت سے آمدنی حاصل کرنا ڈنگ ٹپائو سکیم کے سوا کچھ نہیں۔ سرکاری اداروں کی ترقی وخوشحالی کے لیے انہیں سیاسی مداخلت سے دور رکھنے کی ضرورت ہے پڑھے لکھے اور تجربہ کار آفیسرز کو ان کا کام کرنے دیا جائے واپڈا کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا جائے تو یہ نجکاری جیسے خسارے کے سودے سے 100 درجہ بہتر ہوگا اور اس سے افسران اور ملازمین میں پائی جانے والی فطری بے چینی کا خاتمہ ہوگا اورواپڈا سے منسلک ملازمین افسران دلجمعی سے اپنے فرائض سرانجام دے سکیں گے جس سے واپڈا ایک بار پھرمنافع بخش ادارہ کی صورت اختیار کرجائے گا۔یہ مسئلہ کا حل کبھی نہیں ہوسکتا کہ چند حکمرانوں کے ذاتی مفادات کی خاطر،کروڑوں پاکستانیوں کو چند بااثر اور مالدار پرائیویٹ شخصیات کی عملداری میںجھونک دیا جائے۔ پاکستانی یہ کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔پانچ سالہ مینڈیٹ کوئی ایسی چیز نہیں کہ نعوذ باﷲ لوگ آپ سے اختلاف نہ کریں اور آپ جو چاہے کرتے جائیں۔ اہم ملکی اداروں کو ناتجربہ کار افراد کے سپرد کردیں اور موجودہ تجربہ کار حکومت کی تجربہ کاری تو قوم ایک دوجھٹکوں میں ہی بھانپ گئی ہے۔ اقربا پروری، مہنگی نایاب بجلی، پٹرول کی قلت اور ذلت ہی ذلت۔برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک نے نجکاری جیسے عوامل سے ہاتھ کھینچ لئے ہیں اور دہائیوں پرانے فیصلوں کوغیر منافع بخش قرار دیکر ریلوے جیسا ادارہ واپس اپنی ملکیت میںلے لیا ہے۔ اہم ترین ممالک کی رپورٹوں کے مطابق نجکاری جیسے عوامل بنیادی ضرورت کی حامل اشیائ،ذرائع نقل وحمل اور اداروں کی خدمات کے عوامل کو مہنگا کردیتے ہیں۔

واپڈا جیسے ادارے کی نجکاری سے جنم لینے والے بحرانوں سے ملک میں وہ طوفان بدتمیزی برپا ہوگا کہ عام صارفین کا بھی ادارہ کی پرائیویٹ انتظامیہ کیساتھ چلنا مشکل ہوجائے گا اور ملک میں مہنگی بجلی کا رونا رونے والے دھاڑیں مار مار روئیں گے۔اگر واپڈا جیسے ادارے کی نجکاری کا عمل فوری نہ رکا تو آنے والی نسلیں بھی یہ سوچتی رہ جائیں گی کہ یہ شیر ان کیساتھ کیا کر گئے اگر قوم نکڑے لگ لگ کے نہ روئے اور اپنے ہی کئے پر پچھتائے نا تو کہئے گا۔ایک ایسی حکومت جو ابھی تک اپنے دامن سے دھاندلی الزامات کے داغ نہیں دھو سکی وہ ملکی اداروں کے وقار کوخاک میں ملا جائے یہ ملک قوم اورآنے والی نسلوں کیساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ واپڈا کے علاوہ بہت سے ایسے مسائل ہیں جو آج تک حل نہیں ہوسکے امن وامان کی صورتحال بگڑ چکی ہے۔ اگر اداروں کی نجکاری ہی تمام مسائل کا حل ہے تو دہشت گردی اور جرائم پر کنٹرول نہ پاسکنے والی پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی بھی نجکاری کردی جائے انصاف فراہمی میں ناکامی پر دیگر اداروں کی نجکاری کردی جائے اور اگر نجکاری ہی سب مسائل کا حل ہے تو ممکن ہے کہ پارلیمنٹ کی ہی نجکاری کردی جائے کہ قوم اس وقت سب سے زیادہ سیاستدانوں سے ہی تنگ ہے۔اور ان داروں کی نجکاری کے مابین قومی ریفرنڈم کروایا جائے کہ کس نجکاری کی پہلی فرصت میں، اشد ضرورت ہے۔

Mehmood Ahmad Khan

Mehmood Ahmad Khan

تحریر : محمود احمد خان لودھی