counter easy hit

ایران پر امریکی حملہ کب اور کیسے منسوخ ہوا ؟ پاک فوج کے سابق اعلیٰ عہدیدار نے اندر کی کہانی بیان کر دی

لاہور(ویب ڈیسک) بعض بڑی طاقتوں کے بڑے فیصلے جس تھیوریٹیکل پراسس سے گزر کر پریکٹیکل روپ میں ڈھلتے ہیں اس کی تفصیل شاذ ہی کبھی منظر عام پر آتی ہے۔ لیکن مغربی میڈیا (بالخصوص امریکی میڈیا) اب جتنا آزادہو چکا ہے اس کا ثبوت درج ذیل واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ابھی دو ہفتے پہلے 18ستمبر کوپاک فوج کے ایک ریٹائرڈ افسر لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔ سعودی عرب کے تیل کے دو کنوؤں پرجو ڈرون حملہ ہوا اس کے ردعمل میں امریکہ نے کس طرح پہلے ایران پر حملے کا پلان بنایا، کس طرح اس کو روبہ عمل لانے کے رسپانس پر بحث و مباحثہ کیا اور پھر ایکدم اس حملے کو کیوں منسوخ کر دیا، یہ ایک معلومات افزاء سٹوری ہے۔ہم جانتے ہیں کہ امریکہ۔ ایران تنازعہ جو آج کل زیادہ گھمبیر بلکہ خوفناک حدوں کو چھو رہا ہے، اس کی ابتداء 1979ء میں انقلابِ ایران سے اس وقت ہوئی تھی جب آیت اللہ خمینی کی سربراہی میں رضاشاہ پہلوی کی استبدادی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ تہران میں امریکی سفارت خانے کے عملے کو ایران کی انقلابی حکومت نے یرغمال بنا لیا تھا۔ سی آئی اے (سی آئی اے) نے اپنے سفارتی عملے کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نکالنے کی کوشش کی تھی جو ناکام ہوئی اور امریکی ہیلی کاپٹر طوفانِ بادوباراں میں گھر کر تباہ ہوگئے تھے۔ اس کے بعد سے لے کر آج تک امریکہ۔ ایران تعلقات نشیب و فراز کی منڈیروں پر اٹکے ہوئے ہیں۔ امریکہ نے عراق کے صدام حسین کو شہ دے کر 1980ء میں ایران پر حملہ کروایا۔ یہ جنگ 8سال تک لڑی جاتی رہی اور کوئی نتیجہ نہ نکلا۔حالانکہ عراق کو امریکہ کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔ خود اس کے پاس ایک تربیت یافتہ فوج تھی جو ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے لیس تھی جبکہ ایران کی شاہی فوج (ارتش) تتر بتر ہو چکی تھی۔اس کیجگہ سپاہِ پاسدارانِ انقلاب(آئی آر جی سی) عراقی فورسز سے نبردآزما رہی۔ یہ نئی ایرانی فوج نہ صرف نوآموز تھی بلکہ اس کو مروجہ جدید ہتھیاروں کی کوئی شُدبد بھی نہیں تھی۔

لیکن یہ اس ایرانی فوج کا جذبہ ء ایمانی تھا جس نے عراق کی تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے لدی پھندی فوج کو شکست سے دوچار کیا۔ اس جنگ میں ایران کے نوآموز اور نوخیز نوجوانوں نے جذبہ ء قربانی کی نئی مثالیں قائم کیں اور شہادت کے نئے باب رقم کئے۔اس جنگ کے خاتمے کے 15برس بعد (2003ء میں)امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک کو تاراج کر دیا۔ صرف وہی بادشاہتیں بچیں جو امریکہ کی کاسہ لیس تھیں۔ البتہ اردن کی مثال ایک ایسی واحد مثال ہے جو اس جنگ کی زد و خورد سے بچی رہی۔ اس کی وجہ اردن کی فوج کی وہ ٹریننگ تھی جسے شاہ حسین کی روشن خیال قیادت نے پروان چڑھایا اور آج بھی یہ چھوٹی سی سلطنت، اسرائیلی دست درازیوں سے بچی ہوئی ہے۔ اسے موجودہ شاہ (شاہ عبداللہ) کی وہ عسکری تربیت اور قیادت حاصل ہے جو ان کے والد، شاہ حسین مرحوم کا ورثہ کہا جا سکتی ہے۔اگر اردن کو بھی سعودی عرب، امارات اور مصر کی طرح تیل کی دولت کی پشت پناہی حاصل ہوتی تو آج اسرائیل، دریائے اردن کے مغربی کنارے پر جو بستیاں بسا رہا ہے اور عربوں کی سرزمین پر اس نے جو قبضہ کر رکھا ہے اس کو ایسا کرنے کی جرات نہ ہوتی۔آج ایران،مشرق وسطیٰ کے خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا حریف ہے۔ ماضی ء قریب میںہم دیکھتے رہے ہیں کہ ایران نے عربوں کی طرح امریکی چھتری قبول نہیں کی اور اپنی عسکری قوت کی ترویج (ڈویلپمنٹ) میں دن رات منہمک رہا۔ صدر ٹرمپ کے پیشرو، صدر اوباما نے ایران کے ساتھ جو جوہری ڈیل کی تھی وہ اس بات کا ثبوت تھی کہ اسرائیل اور امریکہ کی مشترکہ کوششیں بھی، ایران کو خائف نہیں کرسکی تھیں۔لیکن صدر ٹرمپ نے وہ ڈیل منسوخ کرکے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری اور ایران، روس کی پشت پناہی کے ساتھ جوہری میدان میں کافی آگے بڑھ گیا۔

”جدید عسکری اسلحہ جات اور ایران“ ایک بسیط موضوع ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ امریکہ نے 2003ء میں عراق پر حملہ کرکے صدام حسین کو تو ٹھکانے لگا دیا لیکن ساتھ ہی اس خطے میں ایران کے غلبے کی راہ بھی ہموار کر دی۔ اب ایران۔ عراق۔ شام۔ لبنان ایک ایسا کاریڈار بن چکا ہے جو اسرائیل کو گھیرے میں لے سکتا ہے۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ امریکی پابندیوں نے ایران کی ملٹرائزیشن کی مساعی تیز تر کر دی ہیں۔ علاوہ ازیں روس نے مشرق وسطیٰ کے اس خطے میں شام اور ایران کی شکل میں ایسے دو اتحادی ڈھونڈ لئے ہیں جو امریکہ کو زچ کر سکتے اور نیچا دکھا سکتے ہیں۔ روس اور چین کی مشترکہ کوششوں سے ایران نے خاص طور پر مسلح ڈرونوں کا جو جدید بیڑا تیار کیا ہے اور فضائی دفاع کے میدان میں جو ترقی کی ہے اس نے امریکہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اگر ایران کے ساتھ مزید پنگے لے گا تومنہ کی کھائے گا۔ اس کا گلوبل ہاک ڈرون جب ایران نے جون 2019ء میں مار گرایا تو یہ امریکہ کی ایک بدیہی شکست تصور کی گئی جس کو ٹرمپ نے برداشت نہ کیا اور فیصلہ کیا کہ ایران کو سبق سکھایا جائے۔ جیسا کہ امریکہ کا وتیرہ ہے وہ جب بھی کسی ملک کے خلاف اقدام کرتا ہے،

اپنی فضائی قوت کی چھتر چھاؤں میں کرتا ہے۔چنانچہ امریکہ نے گلوبل ہاک کے گرائے جانے کے بعد اپنا ایک طیارہ بردار (ابراہم لنکن) خلیج فارس کے پانیوں میں بھیج دیا، بی۔52 سٹرٹیجک بمباروں کی ایک بڑی کھیپ بحرین میں ڈیپلائے کر دی اور پٹریاٹ ائر ڈیفنس بیٹریاں (بیٹریز) بھی یہاں بھیج دیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکی فوج کے کئی دستے بھی یہاں پہنچنے لگے۔ خیال کیا جانے لگا کہ امریکہ کسی بھی لمحے ایران پر حملہ کر دے گا۔ لیکن جب یہ سارے انتظامات مکمل ہو گئے اور صرف ”بزن“ کی کسر باقی رہ گئی تو عین ساعتِ حملہ (ایچ آور)سے صرف دس منٹ پہلے ٹرمپ نے اپنا ”بزن“ والا حکم واپس لے لیا…… اس ”واپسی“ کی تفصیل دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی…… ذیل میں ہم اس موضظع پر نقد و نظر کرنا چاہتے ہیں اور قارئین کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ امریکہ جو 2001ء سے لے کر آج تک افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور یمن میں من مانیاں کرتا رہا، وہ ایران کے خلاف حملے میں تذبذب کا شکار کیوں ہوا…… درج ذیل تفصیلات امریکی پرنٹ میڈیا سے حاصل کی گئی ہیں جن میں ”دی نیویارک ٹائمز“ (23ستمبر) اور ”واشنگٹن پوسٹ“ (2ستمبر) کےعلاوہ ”دی اکنامسٹ“ بھی شامل ہے…… اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ:”صدر ٹرمپ نے 20جون (2019ء) کو اراکینِ کانگریس سے ملاقاتیں کیں۔

لیکن ان ملاقاتوں سے پہلے ہی انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ گلوبل ہاک کا بدلہ ضرور لیں گے۔ کانگریس کے لیڈروں سے ملاقاتوں کا مقصد دکھاوے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ ٹرمپ چاہتے تھے کہ ایران کے خلاف کارروائی کو ان کا ذاتی فیصلہ نہ سمجھا جائے اور یہ تاثر دیا جائے کہ اس میں کانگریس کے تمام اراکین کی ان پٹ بھی شامل ہے۔ اسی دوران ایک ریپبلکن رکن نے ٹرمپ سے سوال کیا: ”آپ ایران کے ان مقامات پر حملہ کیوں نہیں کرتے جہاں سے ایرانی میزائل فائر ہو کر گلوبل ہاک کو گرانے کا باعث بنے؟“…… صدر ٹرمپ نے یہ بات سنی تو براہِ راست ہاں یا نہ کہنے کی بجائے یہ گول مول جواب دیا: ”میں جو فیصلہ کروں گا، میرا خیال ہے آپ اس کو پسند کریں گے!“لیکن اس کے صرف تین گھنٹے کے بعد مسٹر ٹرمپ نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کسی وزیر مشیر سے کوئی مشورہ نہ کیا۔ حتیٰ کہ اپنے نائب صدر اور قومی سلامتی کے مشیر کو بھی اپنے فیصلے میں شامل نہ کیا۔ دریں اثناء طیارہ بردار بحری جہاز (ابراہم لنکن) کے لڑاکا طیارے جہاز کے عرشے پر ٹیک آف کے لئے تیار کر دیئے گئے۔ان میں سے کئی طیارے پرواز بھی کر چکے تھے اور ان میں میزائل بھی لوڈ تھے۔

لیکن جب ساعتِ حملہ (بزن) صرف دس منٹ کی دوری پر رہ گئیتو ٹرمپ نے پینٹاگون کو حکم دیا کہ یہ حملہ منسوخ کر دیا جائے۔وائس پریذیڈنٹ مائک پنس (مائیک پینا) اور دیگر زعمائے حکومت ابھی راستے میں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ آج رات ایران کے خلاف آپریشنوں کے چشم دید حالات دیکھنے میں کٹے گی۔ لیکن جب انہوں نے حملے کی منسوخی کی خبر سنی تو ششدر رہ گئے۔صدر ٹرمپ کا یوٹرن ان کے تانا شاہی مزاج کا آئنہ دار تھا۔ ایک منہ سے وہ کہا کرتے تھے: ”میں دشمن کو برباد کرکے رکھ دوں گا“…… اور ساتھ ہی اگلی سانس میں ان کا فرمانا ہوتا تھا: ”میں امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ کی جنگوں سے باہر نکال لاؤں گا“۔…… ہمارا خیال ہے کہ امریکی افواج کا کمانڈر انچیف بڑے محتاط انداز میں آگے بڑھنے کا تاثر دے رہا تھا۔ ان پر تنقید کرنے والے ان کو اندھا دھند خطرات میں کودنے کا طعنہ دیا کرتے تھے لیکن اب اس حملے کی منسوخی کے بعد ان کومعلوم ہو رہا تھا کہ وہ الل ٹپ قسم کے صدر اور کمانڈر انچیف نہیں۔جون 2019ء میں ٹرمپ نے اپنے جس حکم (بزن) کو واپس لے لیا تھا اس کو ایران نے امریکہ کی کمزوری سمجھا اور تین ماہ بعد ستمبر 2019ء میں سعودی عرب کے تیل کے کنویں پر میزائل اور ڈرون اٹیک کر دیا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے جون والے حکم کو واپس لینے کا جو جواز یہ پیش کیا تھا وہ یہ تھا کہ قوم اس قسم کے بغیر سوچے سمجھے حملوں سے تنگ آ چکی تھی،سمندر پار لڑنے والی جنگوں میں ہزاروں امریکی جانیں ضائع ہو چکی تھیں اور اربوں امریکی ڈالر ہاتھ سے نکل گئے تھے۔لیکن اس ستمبر 2019ء والے ایرانی حملے میں ٹرمپ کو وہی سوال دوبارہ درپیش تھے کہ ایران پر حملہ کیا جائے یا نہ کیا جائے، حملہ کرنے کے نتائج کیا ہوں گے اور اس سے بچنے کی کوشش کا انجام کیا ہو گا…… اب اس حملے میں سٹیک زیادہ ہائی ہو چکے تھے۔ چنانچہ امریکی میڈیا نے اس بارصدر ٹرمپ کے ”اندر“ کی خبر لانے کے لئے کئی دیدہ اور نادیدہ کوششیں کیں۔ وائٹ ہاؤس کے کئی افسروں، وزارت دفاع کے کئی اہلکاروں، ملٹری لیڈروں، امریکی اور بیرونی ملکوں کے سفارتکاروں، اراکینِ کانگریس اور صدارتی مشیروں کے انٹرویو کئے۔ ان لوگوں نے ٹرمپ کے کئی جملوں کو من و عن دہرایا۔ مثلاً: ”جب میں انتخابی مہم چلا رہا تھا تو بہت سے لوگوں نے کہا تھا کہ ٹرمپ جنگ کی طرف جائے گا اور جب میں صدر منتخب ہو گیا تو میرے لئے آسان ترین بات یہ تھی کہ میں فوج کو حکم دیتا کہ ’پڑ جاؤ‘ …… لیکن وہ دن ایران کے لئے بہت بھاری اور بہت بُرا ہوتا۔ اور اب اگر حملہ نہیں کیا تو لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ ٹرمپ کی کمزوری ہے…… میرے حساب سے یہ کمزوری نہیں، مضبوطی اور طاقت ہے“۔
US, ATTACK, ON, IRAN, HOW, POSTPONED, HIGH, FI, PERSONALITY, REVEALED, THE, TROUTH

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website