counter easy hit

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں انوکھا مقابلہ

اسلام آباد: ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 92 کی سیاست کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہاں دو سگے بھائی امجد علی وڑائچ اور خالد جاوید وڑائچ ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑتے ہیں۔

Another unique competition in Pakistan's political historyجبکہ اس کے ذیلی صوبائی حلقے پی پی 112 میں تیسرے بھائی بلال اصفر وڑائچ کے خلاف بھی خالد جاوید وڑائچ خود یا اپنے اُمیدوار کے ذریعے الیکشن لڑتے ہیں۔ حالیہ حلقہ بندیوں سے قبل ٹوبے کی تحصیل گوجرہ کے زیادہ تر علاقوں پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقے این اے 92 کا نمبر این اے 111 تھا۔گوجرے کے مضبوط وڑائچ برادران کے درمیان تعلقات اُس وقت کشیدہ ہوئے جب 2007ء میں عدالت نے امجد علی وڑائچ کو جعلی ڈگری رکھنے پر ناصرف اسمبلی کی رُکنیت سے نااہل کیا بلکہ ان پر دس سال الیکشن نہ لڑنے کی پابندی بھی لگا دی۔اس صورتِ حال میں سابقہ ایم پی اے اور تحصیل ناظم خالد جاوید نے اپنے خاندان کی طرف سے اپنے بھائی کی جماعت نیشل مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے 2008ء کا انتخاب لڑنے کی خواہش کا اظہار کیا۔مگر امجد جاوید نے اُن کی بجائے قومی اسمبلی کی نشست پر اپنی اہلیہ فرخندہ امجد وڑائچ جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر دوسرے بھائی بلال اصغر وڑائچ کو الکیشن لڑوایا اور یہ دونوں ہی کامیاب رہے۔2013ء کے انتخابات سے قبل وڑائچ برادران کے مابین اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ خالد جاوید وڑائچ پہلی مرتبہ اپنے بڑے بھائی سے الگ ہو کر مسلم لیگ ن کا ٹکٹ حاصل کرتے ہوئے اس حلقے سے میدان میں اترے۔

امجد علی وڑائچ چونکہ سپریم کورٹ کے حکم پر جعلی ڈگری کیس میں 10 سالہ نا اہلی کے باعث خود الیکشن نہ لڑ سکتے تھے۔لہذا انھوں نے 2008ء کی طرح ایک بار پھر اپنی اہلیہ سابق رکن قومی اسمبلی بیگم فرخندہ امجد وڑائچ کو اپنے بھائی کے مقابلے میں اپنی سیاسی جماعت نیشنل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر میدان میں اتارا۔تاہم اب کی بار خالد جاوید 90 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔ ان کے مقابلے میں آزاد امیدوار سابق سینیٹر ایم حمزہ کے بیٹے اسامہ حمزہ تقریباً 62 ہزار ووٹ لے کر دوسرے جبکہ بیگم فرخندہ لگ بھگ 37 ہزار ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہیں۔این اے 92 کے نیچے پی پی 84 (موجودہ نمبر پی پی 118) میں بلال اصغر وڑائچ جو 2002ء اور 2008ء میں مسلسل دو بار رکن صوبائی اسمبلی بنے تھے 2013ء میں بھی اپنے سب سے بڑے بھائی امجد وڑائچ کا ساتھ دیتے ہوئے نیشنل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے اور جیت کر اپنی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔دوسری جانب خالد جاوید وڑائچ نے ان کے مقابلے میں اپنی اہلیہ بیگم فوزیہ خالد وڑائچ (موجودہ چئیرپرسن ضلع کونسل) کو اپنے ساتھ مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دلوایا تھا مگر وہ محض 20 ہزار ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہی تھیں۔

25 جولائی 2018ء کے آئندہ الیکشن میں ایک بار پھر تینوں وڑائچ بھائی ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے لئے سامنے آچکے ہیں۔خالد جاوید وڑائچ خود بدستور این اے 111 سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے ہی مگر اپنی اہلیہ بیگم فوزیہ چئیرپرسن ضلع کونسل ہونے کی وجہ سے انھوں نے چند روز قبل ایک پارٹی اجلاس میں چھوٹے بھائی بلال اصغر کے خلاف صوبائی حلقے میں بھی خود الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف وہ اپنے بڑے بھائی امجد علی وڑائچ کے مقابلے میں این اے 111 میں امیدوار ہوں گے جبکہ دوسری طرف وہ پی پی 118 سے اپنے چھوٹے بھائی بلال اصغر کا مقابلہ کریں گے۔سیاسی ماہرین کے مطابق وڑائچ برادران کی آپسی لڑائی کا فائدہ 2013ء میں آزادانہ الیکشن لڑنے والے اُسامہ حمزہ کو ہو سکتا ہے کیونکہ اس بار وہ تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں اُتریں گے۔خیال رہے کہ اُسامہ کے والد سینٹر ایم حمزہ اس حلقے میں اچھا خاصا سیاسی اثرو رسوخ اور ایک مضبوط ووٹ بینک رکھتے ہیں۔