counter easy hit

دنگ کر ڈالنے والی خبر : نگرانوں کے ساتھ مذاکرات کامیاب ؟ ؟؟ نواز شریف اور مریم نواز کو لاہور پہنچنے کے بعد جیل نہیں بھیجا جائے گا بلکہ ۔۔۔۔۔ تفصیلات آپ کو آگ بگولہ کر ڈالیں گی

لاہور; آج کل پاکستان کے تیسرے اور پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد میں 13جولائی جمعہ کے روز میا ںمحمد نوازشریف اور مریم نواز کی لندن سے لاہور آمد کے موقع پر مسلم لیگی حلقوں کی طرف سے ان کا فقیدالمثال استقبال کرنے کے حوالے سے تیاریاں ہو رہی ہیں۔

نامور تجزیہ کار احمد کمال نظامی اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔سابق وزیرمملکت عابد شیرعلی نے اعلان کیا ہے کہ فیصل آباد چونکہ میاں محمد نوازشریف کے متوالوں کا شہر ہے لہٰذا اس شہر سے جمعہ کی شام مسلم لیگ(ن) کے قائد کا استقبال کرنے کے لئے لاہور ایئرپورٹ پر سب سے زیادہ مسلم لیگی کارکنوں کی تعداد فیصل آباد سے ہی ہو گی۔ فیصل آباد میں مسلم لیگ(ن) کے دو دھڑے ہیں۔ ایک دھڑے کی سربراہی چوہدری عابد شیرعلی کے والد گرامی چوہدری شیرعلی کے ہاتھ میں ہے۔ چوہدری شیرعلی 1980ء کے عشرے میں دو مرتبہ میونسپل کارپوریشن فیصل آباد کے میئر اور 1990ء کے عشرے میں دو مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں اور یہ وہی تھے جنہوں نے اپنے قومی اسمبلی کے حلقے کی پنجاب اسمبلی کی ایک ذیلی نشست جس پر جنرل الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست پر وہ خود منتخب ہوئے تھے اور ضمنی الیکشن کے لئے خالی کر کے رانا ثناء اللہ خاں کو جو اس سے پہلے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے تھے، چوہدری شیرعلی نے انہیں نہ صرف مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت سے متعارف کرایا تھا بلکہ انہیں صوبائی اسمبلی کے لئے منتخب بھی کرایا تھا۔ ایک طرف چوہدری عابد شیرعلی جمعہ کے روز

سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی لاہور آمد پر ان کے استقبال کے لئے متوالوں کی ایک بڑی تعداد لے جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور دسری طرف رانا محمد افضل خاں، حاجی محمد اکرم انصاری، میاں عبدالمنان سمیت مسلم لیگ کے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواروں نے بھی مسلم لیگ(ن) کے ان تمام امیدواروں کو زیادہ سے زیادہ کارکنوں کے ہمراہ جمعہ کی شام کو لاہور ایئرپورٹ پرپہنچنے کا الٹی میٹم دے رکھا ہے اور ان سب متوالوں اور پارٹی امیدواروں کی قیادت وہ خود کریں گے۔ میاں محمد نوازشریف کے استقبال کے حوالے سے پارٹی کے نامزد امیدواروں کی جمعہ کے روز لاہور روانگی تو خیر ایک طے شدہ امر ہے قیادت کی طرف سے ہر مسلم لیگی امیدوار قومی و صوبائی اسمبلی کو جمعہ کے روز اپنے اپنے حلقہ سے زیادہ سے زیادہ ورکر لے کر لاہور ایئرپورٹ پرپہنچنے کا کہا گیا ہے اور عام خیال ہے کہ مسلم لیگ(ن) اس روز لاہور ایئرپورٹ پر مسلم لیگ(ن) کا ایک بڑا اور انتہائی پرجوش اجتماع کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جس کے مثبت اثرات سے پورے ملک میں مسلم لیگی امیدواروں کو اپنے حریفوں سے بہتر طور پر مقابلہ کرنے کے مواقع ملیں گے۔ لیگی امیدواروں کی انتخابی مہم تیز ہو سکے گی اور حریفوں کو شکست دینے کے لئے فضا پیدا ہو گی۔

نیب بھی میاں محمد نوازشریف کو لاہور ایئرپورٹ پر گرفتار کرنے کے لئے منصوبہ بندی میں مصروف ہے اور اس کے لئے نیب نے باقاعدہ ایک ہیلی کاپٹر ایئرپورٹ کے اندر کھڑا کرنے کا پروگرام بنا رکھا ہے اور نیب حکام کی کوشش ہو گی کہ وہ لاہور ایـئرپورٹ سے ہی سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی گرفتاری ڈال کر انہیں سیدھا اڈیالہ جیل میں پہنچا دیں اور ہفتہ کے روز انہیں نیب عدالت کے جج محمد بشیر کے پاس ان کی حاضری لگوا دیں تاکہ وہ ان کو فیصلے کی نقول دیکر انہیں اپیل دائر کرنے کا کہہ سکیں۔ جبکہ بعض ماہرین قانون نے ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ میاں محمد نوازشریف تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں اور مریم نواز ایک خاتون ہیں لہٰذا جمعرات کے روز ان کے وکلاء لندن سے ان دونوں کی پاکستان کے لئے روانگی کو جواز بنا کر ان کے لئے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہونے تک کے لئے ان کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کروا لیں اور لاہور ایئرپورٹ سے انہیں جاتی امراء جانے کی اجازت مل جائے۔ اگرایسا ہوا تو یہ الیکشن 2018ء میں مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کی ضمانت ہو گی اور جو قوتیں مسلم لیگ(ن) کو الیکشن 2018ء میں کامیاب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتیں

کیا وہ جمعہ کے روز لاہور میں مسلم لیگ(ن) کی ایک بڑی ریلی کو برداشت کر سکیں گی۔ میاں محمد نوازشریف کی والدہ نے کہا ہے کہ وہ خود اپنے بیٹے اور اپنی پوتی کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ پر موجود ہوں گی اور وہ ان دونوں کو گرفتار نہیں ہونے دیں گی کیونکہ ملک کا کوئی ادارہ ایک ماں کی ضمانت سے انکار نہیں کر سکے گا۔ وہ ہیلی کاپٹر پر خود سوارہو جائیں گی اور ہیلی کاپٹر اڈیالہ جیل اسلام آباد کی بجائے جاتی امراء لاہور کی طرف اڑے گا اور اگر سابق وزیراعظم کو جیل لے جانے پر اصرار کیا گیا تو نیب والوں کو اڈیالہ جیل میں ان کے لئے کمرہ تیار کرنا پڑے گا۔ منگل کے روز بلاول ہاؤس لاہور میں پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کا بھی ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس میں فیصلہ کیا ہے کہ ملک کے تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرہ اختیارمیں رکھنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے باہمی رابطوں کو شروع کیا جائے۔ اس سلسلہ میں بعض شخصیات کو دوسری جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ رابطوں کی ذمہ داری تفویـض کر دی گئی۔ جس سے چیف جسٹس آف پاکستان نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں

سندھ بینک، یونائیٹڈ بینک اور سمٹ بینک کے سی ای اوز اور اسٹیٹ بینک کے متعلقہ حکام سمیت 29اکاؤنٹ ہولڈرز کو ذاتی طور پر سپریم کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے اور جن بینکاروں اور اکاؤنٹ ہولڈرز کو سپریم کورٹ میں بلایا گیا ہے اور سپریم کورٹ میں ان کا موقف سنے بغیر ان کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے ہیں اور چونکہ ان ناموں میں پیپلزپارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال گوہر کے نام بھی شامل ہیں۔ لہٰذا پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت میں بہت زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے۔ قومی حلقوں میں آصف علی زرداری اور فریال گوہر کے نام ای سی ایل میں ڈالے جانے سے یہ تاثر عام ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے مابین میثاق جمہوریت کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کیا جائے گا اور دونوں سیاسی جماعتیں الیکشن 2013ء کے بعد ایم ایم اے، نیشنل عوامی پارٹی اور بلوچستان کے منتخب ارکان کے ساتھ وفاق میں مخلوط حکومت بنانے کی کوشش کریں گی، خصوصاً جبکہ ایوان بالا میں پہلے ہی مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی بھاری اکثریت میں ہے۔ ان حالات میں میثاق جمہوریت کی حامی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کا راستہ روک سکیں گی۔ خصوصاً اس لئے بھی کہ تحریک انصاف کے کامیاب ہونے والے امیدواروں میں اکثریت ان ارکان کی ہو گی جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) سے محض الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔