counter easy hit

نعیم کو زندہ جلانے کا ذمہ دار کون

Mohammad Naeem

Mohammad Naeem

تحریر: ملک اسرار
یوحنا آباد میں گرجا گھروں پر خودکش حملوں کے بعد دہشت گردوں کے ساتھی ہونے کے شبہ میں جلائے جانیوالے دو افراد میں سے ایک نوجوان قصور کے علاقے للیانی کا رہائشی نکلا۔ 22سالہ محمد نعیم کاہنہ میں شیشہ ایلومونیم کی دکان کرتا تھا اوردھماکوں سے قبل یوحنا آبادشیشے لگانے گیا تھا۔ شناخت ہونے پر محنت کش محمد نعیم کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کیلئے اس کے بڑے بھائی محمد سلیم نے تھانہ نشتر ٹاؤن میں درخواست دیدی۔ محمد نعیم کی ہلاکت کی خبر جب اس کے گھر پہنچی تو گھر میں کہرام مچ گیا اور پورا علاقہ سوگ میں ڈوب گیا۔ محنت کش محمد نعیم کی بہن سردارہ نے بتایا کہ محمد نعیم سے اس کی دھماکے سے قبل موبائل فون پر بات ہوئی تھی اور اس نے جب نعیم سے دوپہر کے کھانے کا کہا تو اس نے کہا کہ وہ یوحنا آباد میں شیشے لگانے آیا ہے۔

کام مکمل ہونے کے بعد دو گھنٹے تک آجائے گا۔ ا س نے بہن کو تاکید کی کہ وہ اس کیلئے چاول بنا کر رکھے وہ آکر کھائے گا، ماں اور بہن کھانے پر اس کا انتظار کرتی رہیں۔ بعد ازاں دھماکہ ہونے پر بھی محمد نعیم نے گھر اطلاع دی کہ یوحنا آباد میں بم دھماکہ ہو گیا ہے اور پھر گھر والوں کا اس سے رابطہ نہ ہو سکا اور گزشتہ روز انہیں معلوم ہوا کہ جلائے جانیوالے افراد میں محمد نعیم شامل ہے۔ لواحقین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں انصاف دلایا جائے اور محمد نعیم کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

محمد نعیم کی ماں کا کہنا تھا کہ اس کا بیٹا نمازی اور پرہیز گار تھا وہ کبھی ممنوعہ سرگرمی میں ملوث نہیں ہوا۔ نعیم کا باپ مہر محمد شفیع صدمے سے نڈھال ہونے کے باعث بات نہ کر سکا۔ محمد نعیم کے بڑے بھائی محمد سلیم نے تھانہ نشترٹائون میں دی۔اس نے درخواست میں موقف اپنایاکہ محمد نعیم یوحناآباد میں شیشے کا کاروبار کرتاتھا جبکہ دکان مالک نے بتایاکہ دھماکے کے بعد محمد نعیم دکان سے بھاگ کھڑا ہوا ، پولیس نے اسے پکڑ لیا اور گاڑی میں بٹھا لیا لیکن مشتعل ہجوم نے پو لیس کی گا ڑ ی کے اندر اسے پکڑکرتشدد کرنے کے بعد موت کے گھاٹ اتاردیا اور بعد میں آگ لگا دی۔ پولیس تاحال کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی۔ ذرائع کے مطابق پولیس نے سلیم کو میڈیا پرآنے سے روک دیا ہے۔ ادھر نعیم کے ساتھ کاروبار کرنے والے لوگوں نے بتایا کہ وہ دس بارہ سال سے کام کر رہا تھا۔وہ بڑا متقی اور نیک انسان تھا۔وہ باریش تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ داڑھی والا شخص دہشت گرد ہوگا؟مظاہرین نے اس کو بری طرح مارا، گھسیٹا،اس کے کپڑے پھاڑ دیئے اور بدترین تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔

محمد نعیم کی موٹر سائیکل پولیس نے یوحنا آباد کے داخلی دروازے سے بھی برآمد کر لی ہے ۔یوحنا آباد خودکش حملوں کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کیا گیا۔ یوحنا آباد میں مظاہرین نے احتجاج کرتے ہوئے فیروز پور روڈ بلاک اورمیٹرو بس سروس بند کردی۔ مشتعل مظاہرین نے متعدد گاڑیوں کے شیشے توڑ دیئے تاہم اس دوران جب مظاہرین نے ایک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تو اس میں سوار خاتون نے جان بچانے کے لئے کار تیزی سے دوڑا دی جس کی زد میں آکر 7 افراد زخمی ہوئے جنہیں جنرل ہسپتال منتقل کردیا گیا جہاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 2 زخمی دم توڑ گئے جن کی شناخت عامر اور دانش کے نام سے ہوئی۔ پو لیس نے کارسوار خاتون مریم صفدر اور اسکے ساتھی کو حراست میں لے لیا۔ مظاہرین دن بھر فیروز پور روڈ پر احتجاج اور توڑ پھوڑ کرتے رہے۔ مظاہرین نے عام افراد کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا، پتھراؤ سے متعدد صحافی بھی زخمی ہوئے جبکہ میڈیا کی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ جھڑپوں میں 27افراد زخمی ہو گئے ، مظاہرین کے دو گروپ بھی آمنے سامنے آگئے علاقے میں ہوائی فائرنگ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ ، آنسو گیس کی شیلنگ کی، لاٹھی چارج کیا اور واٹر کینن سے پانی بھی پھینکا مگر احتجاج کو روکنے میں بری طرح ناکام رہی ، مشتعل افراد کے بے قابو ہونے پر ضلعی حکومت کی ہدایات پر پنجاب رینجر کے تین دستے موقع پر پہنچے اور صورت حال کو کنٹرول کر نے کے لئے مز ید پو لیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی، رینجرز کے دستوں کے آتے ہی مشتعل افراد منتشر ہو گئے اور اس دوران رانا ثناء اللہ خان،خلیل طاہر سندھو کے ہمراہ یوحنا آباد پہنچے تو مظاہرین نے ان کی گاڑی کا بھی گھیرائو کر لیا تاہم مسیحی رہنما انہیں لے گئے۔

کیتھولک چرچ میں طویل مذاکرات ہوئے جو کامیاب رہے۔ مسیحی رہنمائوں کی جانب سے گرجا گھروں کی سکیورٹی ڈبل کرنے سمیت دیگر مطالبات جن میں ہلاک ہونیوالے افراد کے لواحقین کو معاوضہ دینا شامل تھا تسلیم کرلئے گئے۔قومی اسمبلی میں سانحہ یوحنا آباد لاہور کی مذمت کرتے ہوئے ارکان اسمبلی نے کہا اقلیتوں پر حملہ انتہائی افسوسناک ہے ، یہ واقعات پوری دنیا میں اٹھائے جاتے ہیں جس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے ، سانحہ کے بعد 2 افرادکو تشدد کے بعد قتل کرنااور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا بہت ہی خطرناک عمل ہے ،سکیورٹی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان واقعات کو روکیں،صوبائی اور وفاقی حکومت ایکشن لے ، دہشتگردی اب صوبائی نہیں قومی مسئلہ بن گیا ہے ، سب کو ملکر دہشتگردی سے نجات پانا ہوگی ورنہ مصر جیسی حالت ہوجائیگی ،سانحہ یوحنا آباد پر ایک منٹ کی خاموشی اور شہید ہونے والے پولیس اہلکار سمیت ملک بھر میں دہشت گردی میں جاں بحق افراد کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی۔نکتہ اعتراض پر سانحہ یوحنا آباد کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے آسیہ ناصر، عبدالررحیم مندوخیل،رمیش کمار، ڈاکٹر درشن،خلیل جارج اور سنجے پروانی نے کہا دہشت گردوں کا ٹارگٹ پوری قوم ہے ، اس میں کسی مذہب یا طبقہ کی کوئی تفریق نہیں ، اقلیتوں کو اس لئے نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ دنیا میں ملک کے تشخص کو نقصان پہنچے۔ صوبائی حکومت کو ایسے واقعات کے سدباب کیلئے موثر اقدامات اٹھانے چاہئیں،لاہور حملہ کے ردعمل کے طور پر جو کچھ بھی ہوا وہ بھی نہیں ہونا چاہئے تھا۔نوید قمر نے کہا لاہور میں چرچوں پر حملہ سوچی سمجھی سکیم کے تحت کیا گیا، ایسے واقعات کے مرتکب افراد ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے ایسی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ چرچ حملہ اور 2انسانوں کو زندہ جلانا انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت واقعات ہیں۔

Christian Community Protest

Christian Community Protest

دونوں واقعات کی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کر کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ،ان واقعات کی آڑ میں مسلم مسیحی منافرت اور محاذ آرائی پیدا کرنے والی قوتوں پر کڑی نظر رکھی جائے ، قانون ہاتھ میں لینے کی روش کی سختی سے روک تھام کی جائے اور وطن عزیز کو انارکی اور فسادات کی آگ میں جھونکنے سے محفوظ رکھا جائے۔ چرچ پر حملہ افسوسناک اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے اور انسانوں کو زندہ جلانا بھی قابل مذمت اور عیسائیت کی تعلیمات کے برعکس ہے ۔جس نے بھی یہ کام کیا ہے وہ اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں۔پاکستان کے غیر مسلم شہری کو جان و مال اور آ برو کا وہی تحفظ حاصل ہے جو مسلمان کو ہے۔لیکن جواباََ جس طرح انسانوں کو جلایا گیا اورقومی املاک کو نقصان پہنچایاگیااس پر مسیحی قائدین کو متوجہ ہونے کی ضرورت ہے وہ اپنی مظلومیت کو ظلم میں تبدیل نہ کریں۔ لوگ اپنے جذبات کا اظہار کریں لیکن امن کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔

تحریر: ملک اسرار