counter easy hit

ریپ کی ویڈیو پورن ویب سے ہٹوانے کے لیے روز کلیمبا کی جدوجہد کی کہانی

انتباہ: یہ کہانی ایک پرتشدد جنسی حملے کے بارے میں ہے۔

اسلام آباد(ویب ڈیسک) نرس ہسپتال میں روز کے کمرے کے دروازے پر رکیں اور اسے دیکھ کر لرزتی ہوئی آواز میں بولیں ’مجھے افسوس ہے کہ آپ کے ساتھ ایسا ہوا۔ میری بیٹی کا بھی ریپ ہوا تھا۔‘ روز نے نرس کی طرف دیکھا۔ انھیں خیال آیا کہ اس نرس کی عمر 40 سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔ وہ خود پر ہوئے جنسی حملے کی اگلی صبح پیش آنے والے واقعات کے بارے میں سوچنے لگیں، جذبات سے عاری پولیس افسران کی باتوں سے لے کر ڈاکٹروں کی بات چیت تک۔ جب روز نے انھیں گذشتہ رات پیش آنے والے پرتشدد اور گھنٹوں پر محیط حملے کی تفصیلات بتائیں تو ہر کوئی اس حملے کے لیے ’مبینہ‘ کا لفظ استعمال کر رہا تھا۔ ان کی والد اور دادی کے سوا ان کے بہت سے رشتہ دار بھی ان کی بات پر یقین نہیں کر رہے تھے۔ مگر نرس کے حوالے سے یہ مختلف تھا۔ روز کہتی ہیں کہ ’انھیں (نرس) میری بات کا یقین تھا۔‘ یہ مبہم سی امید تھی، امید اس طرح کہ کوئی ان کے ساتھ پیش آئے واقعے کو درست تسلیم کر رہا تھا۔ اطمینان کی لہر ان کے جسم میں دوڑ گئی اور ایسا محسوس ہوا کہ یہ ان کے صحت یاب ہونے کے عمل کا آغاز تھا۔ مگر جلد ہی لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے انھیں ریپ ہوتا دیکھنے والے تھے اور ان میں سے کوئی بھی ان سے ہمدردی کا اظہار نہیں کرنے والا تھا۔ ایک دہائی بعد، روز کلیمبا غسل خانے میں آئینے کے سامنے کھڑی اپنے لمبے سیاہ بالوں میں کنگھی کر رہی ہیں۔ بالوں کے سِروں کو اپنی پر انگلیوں گھما کر وہ انھیں گنگھریالا بنا رہی ہیں۔ ان پر ہونے والے جنسی حملے کے مہینوں بعد تک ایسا بالکل نہیں تھا۔ ان کے گھر کے تمام آئینے چادروں سے ڈھک دیے گئے تھے کیونکہ وہ ان میں اپنا عکس دیکھنا برداشت نہیں کر پاتی تھیں۔
روز کلیمبا جب 14 برس کی تھیں تو انھیں ریپ کیا گیا تھا۔ گذشتہ برس انھوں نے ایک بلاگ میں بتایا کہ ان پر ہونے والے جنسی حملے کی ویڈیو ایک فحش مواد دکھانے والی ویب سائٹ سے ہٹوانا کتنا مشکل کام تھا۔ اس پوسٹ کے بعد درجنوں افراد ان سے رابطہ کیا اور بتایا کہ انھیں بھی اسی طرح کا مسئلہ درپیش ہے۔

اب وہ 25 برس کی ہیں اور انھوں نے روزمرہ زندگی میں اپنی دیکھ بھال کے معمولات بنا لیے ہیں۔

بالوں کی دیکھ بھال ان میں ایک ہے۔ بالوں میں کنگھی کرنے میں کوشش اور وقت لگتا ہے، یہ مراقبے کے عمل جیسا ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کے بال خوبصورت ہیں کیونکہ لوگ ہمیشہ ان کے بالوں پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ہر صبح وہ اپنے لیے کیکاؤ کا کپ تیار کرتی ہیں۔ کیکاؤ خالص چاکلیٹ کافی ہے اور روز کو یقین ہے کہ اس میں شفا بخش خصوصیات ہیں۔ اس کے بعد وہ ڈائری میں اپنے مقاصد و عزائم تحریر کرتی ہیں۔ وہ جانتے بوجھتے انھیں زمانۂ حال میں تحریر کرتی ہیں۔

ان کے چند مقاصد یہ ہیں: ’میں بہت اچھی ڈرائیور ہوں۔` ’رابرٹ کے ساتھ میری ازدواجی زندگی خوش باش گزر رہی ہے۔‘ یا پھر ’میں ایک اچھی ماں ہوں۔‘
بات چیت کے دوران روز اپنے بال اپنے کندھوں پر پھیلا لیتی ہیں جس سے ان کے جسم کا بیشتر حصہ چھپ جاتا ہے۔ یہ ان کے لیے زرہ بکتر جیسا ہے۔ اوہایو کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پلی بڑھی روز کے لیے سونے سے قبل اکیلے چہل قدمی کے لیے گھر سے نکل جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ شام کی سیر سے انھیں ذہنی سکون ملتا اور وہ تازہ ہوا اور سکوت کا مزہ لیتیں۔ اس لیے سنہ 2009 کے موسم گرما کی وہ شام 14 سالہ روز کے لیے عام دنوں کی طرح تھی۔مگر پھر اچانک ایک آدمی ان کے سامنے آیا۔ اس نے روز کو چاقو کی نوک پر گاڑی میں بیٹھنے پر مجبور کیا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی انھوں نے ایک دوسرے شخص کو دیکھا جس کی عمر 19 برس ہو گی۔ وہ اس سے قبل بھی اس شخص کو قصبے میں دیکھ چکی تھیں۔

وہ روز کو قصبے کے دوسرے کونے پر موجود ایک گھر میں لے گئے اور اگلے 12 گھنٹوں تک انھیں ریپ کرتے رہے جبکہ ایک تیسرا شخص اس عمل کی ویڈیو بناتا رہا۔ روز صدمے میں تھیں، انھیں سانس لینے میں انتہائی مشکل پیش آ رہی تھی۔ انھیں بری طرح مارا پیٹا گیا تھا، ان کے کپڑے خون آلود تھے جبکہ ان کی بائیں ٹانگ پر چاقو مارا گیا تھا۔ ان پر غشی کا عالم طاری تھا۔ اس واردات کے دوران ان میں سے ایک شخص نے لیپ ٹاپ نکالا اور روز کو دوسری خواتین پر اسی طرح کیے گئے جنسی حملوں کی ویڈیوز دکھائیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں قدیم قبائل کی نسل سے ہوں۔ حملہ آور سفید فام تھے۔ حملہ آوروں کی چند متاثرین سفید فام لڑکیاں تھیں مگر زیادہ تر سفید فام نہیں تھیں۔‘

بعد ازاں ان لوگوں نے روز کو جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ اپنے حواس یکجا کرتے ہوئے روز نے ان سے بات چیت کی ابتدا کی۔ روز نے کہا کہ اگر وہ انھیں جانے دیں گے تو وہ ان کی شناخت کسی کے سامنے ظاہر نہیں کریں گی۔ انھیں (حملہ آوروں) کبھی کچھ نہیں ہو گا، کسی کو اس بارے میں کبھی معلوم نہیں ہو گا۔ اس واقعے کے بعد حملہ آوروں نے انھیں واپس گاڑی میں بیٹھایا اور ان کے گھر سے ڈیڑھ گھنٹہ پیدل کی مسافت پر گاڑی سے اتار دیا۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے وقت انھیں ہال میں لگے ایک آئینے میں اپنا عکس نظر آیا۔ ان کے سر پر لگی چوٹ سے خون بہہ رہا تھا۔ ان کے والد رون اور گھر کے دیگر افراد کھانے کے کمرے میں ظہرانے کے لیے بیٹھے تھے۔ چاقو سے لگے گھاؤ سے خون بہہ رہا تھا اور اسی حالت میں انھوں نے گھر والوں کو اپنے ساتھ پیش آئے واقعے کے متعلق بتایا۔ روز کہتی ہیں کہ ’میرے والد نے پولیس کو فون کیا۔ انھوں (والد) نے مجھے تسلی دی، مگر گھر کے دیگر افراد نے کہا کہ میرے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا کیونکہ میں رات گئے باہر واک پر جاتی تھی۔‘

ہسپتال کے ایمرجنسی روم پر روز سے ملاقات کے لیے ایک پولیس افسر اور مرد ڈاکٹر موجود تھے۔ ’وہ مجھ سے ایسے برتاؤ کر رہے تھے جیسے وہ جذبات سے عاری ہوں۔ (ان کے رویے میں) نہ تو ہمدردی تھی نہ تپاک۔‘ مرد پولیس افسر نے روز سے پوچھا کہ آیا اس سارے واقعے کی شروعات باہمی رضامندی سے ہوئی تھی۔ اس نے پوچھا کہ کیا یہ ایک ایسی رات تھی جس کا اختتام غلط انداز میں ہوا۔ روز ہکا بکا رہ گئیں۔ ’مجھے مار مار کر ناقابل شناخت بنا دیا گیا تھا۔ چاقو مارا گیا اور خون بہہ رہا تھا۔‘ روز نے انھیں بتایا کہ ایسا نہیں ہے اور یہ سب باہمی رضامندی سے نہیں ہوا۔ اپنے اوپر بیتے واقعے کو سوچتے ہوئے روز نے کہا کہ وہ ان لوگوں کو نہیں جانتیں جنھوں نے ان پر حملہ کیا۔ اس صورتحال میں پولیس کے پاس تفتیش میں آگے بڑھنے کے شواہد نہیں تھے۔

جب اگلے دن روز کو ہسپتال سے فارغ کیا گیا تو انھوں نے خودکشی کی کوشش کی، انھیں یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس واقعے کے بعد وہ عام طور طریقے سے زندگی گزارنے کے قابل کیسے ہو پائیں گی۔ خوش قسمتی سے ان کے بھائی کو خودکشی کی کوشش کا بروقت علم ہو گیا۔چند ماہ بعد انٹرنیٹ کے استعمال کے دوران روز کو معلوم ہوا کہ ان کے سکول کے بہت سے بچے ایک لنک شیئر کر رہے ہیں۔ اس لنک میں انھیں بھی ٹیگ کیا جا رہا تھا، اس لنک پر کلک کر کے روز فحش مواد کی مشہور ویب سائٹ ’پورن ہب‘ پر پہنچ گئیں۔ روس کو متلی محسوس ہوئی کیونکہ وہاں ان پر ہونے والے جنسی حملے کی بہت سی ویڈیوز موجود تھیں۔ ان ویڈیوز کے عنوانات فحش اور پرتشدد انداز میں کیے گیے جنسی عمل کی تشہیر کر رہے تھے۔ روس کہتی ہیں کہ ’ان میں سے ایک ویڈیو کو چار لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھا جا چکا تھا۔‘

’بدترین ویڈیوز وہ تھیں جن میں میں ہوش کھو بیٹھتی ہوں۔ اپنے آپ پر اس وقت حملہ ہوتے دیکھنا جبکہ میں ہوش میں بھی نہیں ہوں سب سے بدتر تھا۔‘ روز نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ وہ ان ویڈیوز سے متعلق اپنے گھر والوں کو نہیں بتائیں گی، اور بتاتی بھی کیوں خاندان کے بہت سے لوگ ان کے معاون اور مددگار نہیں تھے۔ انھیں بتا کر کچھ حاصل نہیں ہونا تھا۔ چند ہی روز میں یہ واضح ہو گیا کہ ان کے سکول کے بہت سے لوگ یہ ویڈیوز دیکھ چکے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سکول میں میرا تمسخر اڑایا گیا۔ لوگ کہتے کہ یہ سب میری وجہ سے ہوا۔ یہ کہ میں نے خود لڑکوں کو دعوت دی اور یہ کہ میں اخلاق بافتہ لڑکی ہوں۔‘

ROSE CLAIMB WITH FATHER

چند لڑکوں نے روز کو بتایا کہ ان کے والدین نے انھیں ان (روز) سے دور رہنے کا کہا ہے کیونکہ والدین کو خدشہ تھا کہ روز پہلے ان کے لڑکوں کو لبھائیں گی اور بعد میں ان پر ریپ کا الزام عائد کر دیں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگ عموماً متاثرہ فرد کو قصوروار گردانتے ہیں۔ روز نے بتایا کہ انھوں نے سنہ 2009 میں متعدد مرتبہ ’پورن ہب‘ انتظامیہ کو ای میلز کر کے درخواست کی کہ ان کی ویڈیوز کو ویب سائٹ سے ہٹایا جائے۔ ’میں نے ای میلز میں گڑگڑا کر درخواست کی۔ میں نے ان سے التجا کی۔ میں نے لکھا کہ میں ایک نابالغ لڑکی ہوں جس پر یہ حملہ ہوا۔ برائے مہربانی ان ویڈیوز کو ہٹا دیں۔‘ ان ای میلز کا انھیں کوئی جواب نہیں ملا اور ویڈیوز بدستور ویب سائٹ پر موجود رہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے ایک سال بعد میں اپنے ہی اندر کھو گئی۔ میں لاتعلق ہو گئی۔ مجھے کچھ محسوس نہ ہوتا۔ بےحس۔ میں بس خود تک محدود ہو گئی۔‘ انھیں ایسا لگتا کہ جو اجنبی بھی ان کو دیکھ رہا ہے اس نے ان کی ویڈیوز دیکھ رکھی ہیں۔ وہ سوچتیں کہ ’کیا میرا ریپ ان کے لیے سامانِ لذت ہے۔‘ وہ اپنے آپ کو دیکھنا بھی برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ اسی لیے انھوں نے اپنے گھر میں موجود تمام آئینوں کو کمبلوں سے ڈھک دیا تھا۔ وہ اندھیرے میں اپنے دانت صاف کرتیں اور نہاتیں، وہ ہر وقت یہ سوچتی رہتیں کہ ان کی ویڈیوز کون دیکھ رہا ہو گا۔

پھر انھیں ایک خیال سوجھا۔
انھوں نے ایک نیا ای میل ایڈریس بنایا جس میں انھوں نے اپنے آپ کو ایک وکیل ظاہر کیا تھا۔ اس ای میل سے انھوں نے ’پورن ہب‘ کو ایک ای میل کے ذریعے قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دی۔ ’48 گھنٹوں نے اندر اندر ویڈیوز ویب سائٹ سے ہٹا دی گئیں۔‘ چند ماہ بعد انھوں نے نفسیاتی مدد لینا شروع کی اور اپنے ماہر نفسیات کو حملہ آوروں کی شناخت بتا دی۔ ماہر نفسیات کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس کے بارے میں پولیس کو آگاہ کرے۔ مگر اب بھی روز نے نہ تو اپنے خاندان اور نہ ہی پولیس کو ویڈیوز کی بابت کچھ بتایا۔ پولیس نے روز اور ان کے خاندان کے افراد کے بیانات لیے۔ حملہ آوروں کے وکیل نے دلیل پیش کی روز نے اپنی مرضی سے سیکس کیا۔ اس دلیل کی بنا پر حملہ آوروں پر ریپ کرنے کے الزامات مسترد کر دیے گئے تاہم نابالغ بچی سے جنسی عمل کرنے پر انھیں سزائیں سنائی گئیں۔

روس اور ان کے خاندان کے پاس اتنے وسائل اور طاقت نہیں تھی کہ وہ حملہ آوروں کو سخت سزا دلوانے کے لیے مزید قانونی جنگ لڑیں۔یہ واضح ہے کہ روز کے والد رون کلیمبا، ، اس تمام عرصے میں یہ سوچتے رہے کہ ان کی بیٹی پر کیا بیتی۔ وہ سوچتے کہ ان کے پاس مزید معلومات ہوتیں تو وہ کیا مختلف کر سکتے تھے۔ ان کی بیٹی اس حملے کے بعد بدل گئی تھی۔ وہ کلاس میں ہمیشہ صف اول کی طالبہ تھی مگر اس واقعے کے بعد وہ سکول سے غیرحاضر رہنے لگی تھی اور اپنا ہوم ورک بھی نہیں کر پاتی تھی۔ ہم روز کے گھر کے نزدیک اس پارک میں گئے جہاں رون عموماً آتے ہیں۔ رون اور روز ایک پکنک بینچ پر بیٹھ کر اکثر اکھٹے بائبل پڑھتے ہیں۔ وہ ماضی کے متعلق زیادہ بات نہیں کرتے۔ رون کہتے ہیں کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری دنیا نے اسے نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ اس کی بے حرمتی، ایسا لگتا ہے کہ وہ ہر کسی کے لیے ایک بڑا مذاق تھی۔ اس (بےحرمتی) نے ان کی زندگی یکسر بدل کر رکھ دی، اور لوگوں نے زندگی کے ہر موڑ پر اسے مایوس کیا ہے۔‘ رون کو اپنی بیٹی کی ویڈیوز سے متعلق سنہ 2019 میں اس وقت معلوم ہوا جب روز کی جانب سے اس حوالے سے لکھا جانے والا ایک بلاگ وائرل ہوا۔ انھی اندازہ بھی نہیں تھا کہ ان کی بیٹی کا ریپ اتنے زیادہ لوگوں نے دیکھ رکھا تھا اور نہ یہ پتا تھا کہ اس کی بنا پر سکول میں اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔

رون ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’جب میں سکول میں تھا تو مجھے آٹھویں کلاس کی ایک لڑکی کو جانتا تھا۔ لوگ اس کو مارتے تھے اور ہم میں سے کوئی بھی ان کو نہ روکتا ہم صرف ایسا ہوتا ہوئے دیکھتے تھے۔‘ ’کئی سال بعد میں اس لڑکی سے ملا تو اس نے سوچا کہ میں بھی ان میں سے ایک ہوں کیونکہ میں وہاں کھڑا ہوتا اور ایسا ہوتا دیکھتا تھا۔ درحقیت مٹھی بھر لوگ ایسے تھے جو اسے تکلیف دیتے تھے مگر وہ سوچتی تھی کہ ہم سب اس کے مخالف ہیں کیونکہ ہم سب دیکھتے تھے مگر کہتے کچھ نہیں تھے۔ ہماری خاموشی کا اس کے لیے یہی مطلب تھا۔‘ کیا رون سوچتے ہیں کہ ایسا ہی ان کی بیٹی کے ساتھ بھی ہوا؟

’جی ہاں، یہ اس سے بھی بدتر تھا۔ اسے ڈیجیٹل ہجوم کا بھی سامنا تھا۔ ان میں سے چند خاموش تھے جبکہ چند ایذا پہچانے والے۔ آج کا زمانہ مختلف ہے۔‘آئندہ آنے والے چند برسوں میں روز اکثر ڈیجیٹل دنیا میں کھو جاتیں۔ انھوں نے لکھنا شروع کیا، وہ اپنا اظہار سوشل میڈیا اور بلاگز کے ذریعے کرتیں، بعض اوقات وہ فرضی نام اپناتیں اور بعض اوقات اپنا اصل نام۔

ROSE, AT, THE, EARLY AGE

سنہ 2019 میں ایک روز جب وہ اپنی سوشل میڈیا فیڈ دیکھ رہی تھیں تو انھوں نے پورن ہب سے متعلق بہت سی پوسٹس دیکھیں۔ لوگ پورن ہب کی تعریف کر رہے تھے کیونکہ اس ویب سائٹ نے بہت سے خیراتی اداروں کو چندا فراہم کیا تھا، سننے کی صلاحیت سے محروم صارفین کے لیے کیپشنز کا اجرا کیا، گھریلو تشدد کا شکار افراد کے لیے کام کرنے والے اداروں کو مدد فراہم کی اور ٹیکنالوجی کی صنعت میں داخل ہونے والی خواتین کو 25 ہزار ڈالر کے وظائف دیے۔ پورن ہب کے مطابق سنہ 2019 میں 42 ارب صارفین نے ان کی ویب سائٹ کو دیکھا، صارفین کی یہ تعداد گذشتہ برس کے مقابلے میں 8.5 ارب زیادہ تھی۔ اس تعداد کا مطلب یہ ہے کہ ہر روز 115 ملین افراد ویب سائٹ پر آئے اور ہر سیکنڈ میں 1200 افراد نے اس ویب سائٹ کو سرچ کیا۔ روز کہتی ہیں کہ ’اگر آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو یہ ناممکن ہے کہ پورن ہب سے دور رہ سکیں۔‘ اپنی وائرل بلاگ پوسٹ میں روس نے اپنے ریپ کے بارے میں تفصیلات بیان کیں اور بتایا کہ جب تک انھوں نے خود کو وکیل ظاہر نہیں کیا پورن ہب نے ان کی درخواستوں پر توجہ نہ دی۔ درجنوں خواتین اور مردوں نے اس پوسٹ پر ردعمل دیا اور کہا کہ ان کی فحش ویڈیوز بھی اس ویب سائٹ پر موجود تھیں۔ بی بی سی کو دیے گئے بیان میں پورن ہب کا کہنا ہے کہ ’یہ خوفناک الزامات سنہ 2009 کے ہیں، (یہ الزامات) موجودہ مالکان کے پورن ہب سنبھالنے سے برسوں پہلے کے ہیں، چنانچہ ہمارے پاس معلومات نہیں ہیں کہ اُس وقت اس مسئلے سے کیسے نمٹا گیا تھا۔ مالکان کی تبدیلی کے بعد سے غیر قانونی اور غیر مجاز مواد کی روک تھام کے لیے اس صنعت کے سب سے سخت حفاظتی اقدامات اور پالیسیاں اپنائی گئیں ہیں جو کہ بچوں کے جنسی استحصال سے نمٹنے کے ہمارے عزم کا حصہ ہیں۔

’کمپنی نے ووبائل، جدید ترین فنگر پرنٹس سافٹ ویئر کی کمپنی، کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جو کہ ہر نئی اپ لوڈ ہونے والی ویڈیو کو سکین کرتی ہے تاکہ غیرمجاز مواد کو پکڑا جا سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے اصل ویڈیو ویب سائٹ پر واپس نہ آ سکے۔جب پورن ہب سے پوچھا گیا کہ آج بھی ان کی ویب سائٹس پر اس طرح کی ویڈیوز کیوں موجود ہیں جن کے عنوانات روس کے ریپ کے عنوانات سے ملتے جلتے ہیں (ایسے عنوانات جو ویڈیو کے پرتشدد ہونے کی دلیل دیتے ہیں) تو کمپنی کا کہنا تھا کہ ’ہم ہر اس جنسی عمل کے اظہار کی اجازت دیتے ہیں جو ہمارے استعمال کی شرائط کے مطابق ہوتا ہے، کچھ لوگوں کو یہ تصورات نامناسب لگ سکتے ہیں مگر دنیا بھر کے بہت سے دوسرے لوگوں کے لیے یہ پرکشش ہو سکتے ہیں اور یہ آزادی اظہار رائے کے مختلف قوانین کے عین مطابق ہیں۔‘ سنہ 2015 میں پورن ہب نے نامناسب مواد کی نشاندہی کے لیے ایک ٹیب متعارف کروایا تھا مگر اس کے باوجود جنسی استحصال کی ویڈیوز ویب سائٹ پر آتی رہی ہیں۔ گذشتہ برس اکتوبر میں فلوریڈا کے ایک 30 سالہ شخص، کرسٹوفر جانسن، کو ان الزامات کا سامنا تھا کہ انھوں نے ایک 15 سالہ لڑکی کا جنسی استحصال کیا اور اس کی ویڈیوز پورن ہب پر پوسٹ کر دیں۔

اس حوالے سے پورن ہب نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پورن ہب کی پالیسی ہے کہ معلومات وصول ہوتے ہی غیرمجاز مواد کو اسی وقت ہٹا دیا جاتا ہے، اور ہم نے ایسا ہی اس معاملے میں بھی کیا تھا۔‘ سنہ 2019 میں پورن ہب نے ’گرلز ڈو پورن‘ نامی ایک ویب چینل اس وقت اپنی ویب سائٹ سے ہٹایا جب ایک 22 خواتین کمپنی کے خلاف یہ شکایت لے کر عدالت گئیں کہ انھیں ان ویڈیوز میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا تھا، اس چینل کے مالکان پر سیکس ٹریفکنگ کے الزامات ثابت ہو گئے تھے۔ روز کہتی ہیں کہ ’لوگ شاید کہیں کہ جو میرے ساتھ ایک دہائی قبل ہوا وہ آج کی حقیقت نہیں لیکن دراصل ایسا نہیں ہے۔ میرا بلاگ دیکھنے کے بعد خواتین نے مجھے بتایا ہے کہ اب بھی ایسا ہو رہا ہے اور یہ مغربی ممالک کی خواتین ہیں جنھیں انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے‘۔ ’مجھے یہ سمجھنے میں کوئی عار نہیں کہ دنیا کے دیگر حصے جیسے کہ مشرقِ وسطیٰ یا ایشیا جہاں لوگ بڑی تعداد میں فحش مواد دیکھتے ہیں، وہ علاقے ہیں جہاں ریپ کا شکار فرد کو شاید علم بھی نہ ہو اس پر پیش آنے والے واقعات شیئر کیے جا رہے ہیں۔‘ بی بی سی نے ایک ایسی خاتون سے بھی بات کی جس نے روز کو ای میل کی تھی۔ ان سے جنسی بدسلوکی کی ایک ویڈیو ان کی جانب سے متعدد ای میلز بھیجے جانے کے باوجود ایک چھوٹی ویب سائٹ پر برسوں موجود رہی تھی۔

کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی اس خاتون نے بتایا کہ یہ ویڈیو ڈاؤن لوڈ کر کے فحش مواد والی دیگر ویب سائٹس پر اپ لوڈ بھی کی گئی۔ اس ویب سائٹ کے وکلا نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے موکل کو اس قسم کے کسی واقعے کا علم نہیں۔ جب بی بی سی نے انھیں ویڈیو کا لنک اور مذکورہ خاتون کی جانب سے ویڈیو ہٹانے کی درخواست کے سکرین شاٹس فراہم کیے تو آنے والے دنوں میں وہ ویڈیو ہٹا دی گئی۔فحش ویب سائٹس کی تحقیقات کرنے والے گروپ ’ناٹ یوئر پورن‘ سے تعلق رکھنے والی کیٹ آئزکس کا کہنا ہے کہ ’جو 2009 میں روز کے ساتھ ہوا وہ آج بھی صرف پورن ہب پر ہی نہیں بلکہ مفت فحش مواد فراہم کرنے والی کئی ویب سائٹس پر ہو رہا ہے۔ ’ہم انفرادی سطح ہر بنائی جانے والی پورن سائٹس کا تو کچھ نہیں کر سکتے لیکن تجارتی مقاصد کے لیے بنائی گئی پورن ہب جیسی بڑی ویب سائٹس کو ذمہ دار ٹھہرائے جانے کی ضرورت ہے اور فی الوقت ایسا نہیں ہو رہا۔ ان پر کوئی قانون ہی لاگو نہیں ہوتا۔‘

’روینج پورنوگرافی‘ یا کسی سے بدلہ لینے کی غرض سے اس کی مرضی کے بغیر اس فرد کی عریاں تصاویر عام کرنا بھی جنسی بدسلوکی کے زمرے میں آتا ہے۔ انگلینڈ اور ویلز میں یہ 2015 سے ایک جرم ہے جس کی سزا دو برس قید ہے لیکن وہ پلیٹ فارم جہاں یہ مواد شیئر کیا جاتا ہے انھیں اس کے لیے ذمہ دار نہیں سمجھا جاتا۔کیٹ آئزکس کا کہنا ہے ’پورن سائٹس جانتی ہیں کہ ان کے پلیٹ فارم پر ایسا مواد موجود ہے۔‘ انھوں نے ناٹ یوئر پورن کی بنیاد اس وقت رکھی جن ان کی دوست کی ایک سیکس ویڈیو پورن ہب پر لوڈ کی گئی۔ کیٹ کے مطابق چھ ماہ میں ان کے پاس برطانیہ سے 50 سے زیادہ خواتین آئیں جن کی سیکس ویڈیو ان کی اجازت کے بغیر فحش ویب سائٹس پر اپ لوڈ کی گئی تھیں۔ ان میں سے 30 ویڈیوز پورن ہب پر موجود تھیں۔


ان کا کہنا ہے کہ پورن ہب اور ایسی دیگر ویب سائٹس اپنے صارفین کو یہ ویڈیوز ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولت بھی دیتی ہیں سو اگر ویب سائٹ یہ ویڈیو ہٹا بھی دیتی ہے تو بھی اسے شیئر یا دوبارہ اپ لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ کیٹ کی کمپنی اب برطانیہ میں ایسے قوانین کی تیاری کے لیے کوشاں ہے جو بلااجازت سیکس کی ویڈیوز شیئر کرنے کو جرم قرار دیں۔ روز بھی مستقبل کے بارے میں پرامید ہیں۔ جب ان کی عمر 20 برس سے کچھ زیادہ تھی تو ان کی ملاقات اپنے بوائے فرینڈ رابرٹ سے ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ رابرٹ کی مدد سے ہی وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو قبول کرنے پر تیار ہوئیں۔ وہ پرامید ہی کہ رابرٹ اور وہ شادی کریں گے اور ایک بیٹی کے والدین بنیں گے۔ اس کے علاوہ ان کا ایک اور ساتھی پٹ بل نسل کا پالتو کتا بیلا بھی ہے۔ ’میں نے ہمیشہ پٹ بل کتوں کو اپنے اردگرد پایا ہے۔ اگرچہ ان کی شہرت بہت جارحانہ جانور کی ہے لیکن درحقیقت وہ بہت اچھے ہوتے ہیں۔ اگر انسان ان سے بدسلوکی کرے تبھی وہ جارحانہ انداز اپناتے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں ’مجھے لگتا ہے کہ مجھے عمرقید سنائی گئی ہے۔ آج بھی جب میں خریداری کے لیے جاتی ہوں تو سوچنے لگتی ہوں کہ کیا اس اجنبی نے میری ویڈیو تو نہیں دیکھ رکھی۔‘ لیکن بس اب وہ اس بارے میں خاموش نہیں رہنا چاہتیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website