counter easy hit

تین صوفیاء کرام

ڈاکٹر عبدالقدیر خان

کچھ عرصہ پیشتر میں نے اسی ہر دلعزیز روزنامہ جنگ میں مولانا جلال الدین رومیؒ کے حوالے سے دو کالم لکھے تھے۔ آج ان کی مثنوی میں بیان کردہ تین صوفیاءکرام کے حالات بیان کرنا چاہتا ہوں۔
(1) پہلی نہایت بزرگو اعلیٰ شخصیت حضرت ابراہیم ابن اَدہم ؒ کی ہے۔ آپ مولانا رومیؒ کے شہر بلخ میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ شہر ایران کے مشرقی صوبہ خراسان میں ہے۔ تاریخ میں حضرت ادہم ؒ کو بعض اوقات شہزادہ، بادشاہ اور سلطان لکھا گیا ہے۔ بلخ اس زمانہ میں ایک بڑا تجارتی مرکز تھا اور بدھ مت کا گڑھ تھا۔ حضرت ابراہم ابن اَدہم ؒنے بھی گوتم بدھ کی طرح شاہانہ زندگی چھوڑ کر صوفیانہ زندگی اختیار کرلی تھی۔ حضرت ابراہمؒ نے حقیقت و سچ کی تلاش میں شاہانہ زندگی کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ مولانارومیؒ نے ان کا واقعہ یوں بیان کیا ہے۔
’’ابراہم ابن اَدہمؒ جب بادشاہ تھے تو ایک دن وہ شکار کو گئے، انھوں نے ایک ہرن کا پیچھا کیا اور اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر بہت دور نکل گئے۔ جب وہ بہت دور نکل گئے تو ہرن رُک گیا اور مڑ کر ان سے بولا کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے پیدا نہیں کیا۔ تمھارا وجود نہ ہونے سے ہونے کا مقصد یہ نہ تھا کہ تم میرا شکار کرو اور مجھے ہلاک کردو۔ اگر فرض کریں کہ تم مجھے پکڑ لو یا ہلاک کردو تو پھر کیا ہوگا۔ ہرن سے یہ بات سُن کر حضرت ابراہم ابن اَدہم ؒنے چیخ ماری اور گھوڑے سے نیچے کود پڑے۔ وہاں انھیں سوائے ایک چرواہے کے کوئی اور نظر نہ آیا۔ حضرت ابراہم ابن اَدہمؒ نے چرواہے سے درخواست کی کہ وہ ان کا شاہی لباس، ہتھیار اور گھوڑا لے لے اور اپنا اُونی سخت کھردرا لباس ان کو دیدے۔ انھوں نے چرواہے کو ہدایت کی کہ وہ یہ بات ہرگز کسی کو نہ بتلائے۔ اَب سوچئے کہ حضرت اِبراہم ابن اَدہم ؒ کی کیا خواہش و ارادہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح ہرن کے ذریعے ان کو گرفت میں لے لیا۔ تم کو احساس ہونا چاہئے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم ابن اَدہمؒ نے چرواہے کا لباس پہن لیا (جو عموماً درویش بھی پہنتے ہیں) تو وہ صوفی بن گئے ظاہری طور پر بھی اور اندرونی (روحانی) طور پر بھی۔ ‘‘
مولانا رومیؒ نے روایتاً صوفیاء کرام کی بات دہرائی کہ ہم جو کچھ دنیا میں کرتے ہیں وہ نہ صرف اپنی مرضی سے کرتے ہیں بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کا بہت دخل ہوتا ہے۔مولانا رومیؒ حضرت ابراہیم ابن اَدہم ؒ کا دوسرا واقعہ سناتے ہیں، ’’ایک رات جب حضرت ابراہم ابن ادہمؒ تخت پر پیچھے سر ٹیکے آرام سے بیٹھے تھے کہ اُنھوں نے چھت پر زور زور سے چلنے کی آواز سُنی۔ آپؒ اُٹھے اور محل کی کھڑکی سے جھانک کر چلّا کر پوچھا کون ہے ؟ ایسا لگتا ہے کہ جنوں کے چلنے پھرنے کی آواز ہے! اُوپر سے جواب آیا کہ ہم ایک جماعت ہیں جو تلاش میں نکلے ہیں۔ آپؒ کے سوال پر کہ وہ کیا تلاش کررہے ہیں تو جواب ملا کہ اُونٹ۔ آپؒ نے کہا کسی نے کبھی چھت پر اونٹ تلاش کئے ہیں تو جواب ملا کہ ہم آپؒ کے نقش قدم پر عمل پیرا ہیں کہ وہ کون ہے جو تخت پر آرام سے بیٹھ کر اللہ رب العزّت سے مِلنا چاہتا ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت ابراہم ابن اَدہمؒ تخت پر سے اُٹھے اور نگاہوں سے اوجھل ہوگئے بالکل اسی طرح جس طرح جن ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اس طرح آپ کی شہرت دنیا میں ایک بہت مشہور بڑے پرندے اَنکا کی طرح پھیل گئی۔
(2) مولانا جلال الدین رومیؒ نے دوسرے بڑے ولی اللہ حضرت بایزید بسطامیؒ کا ذکر کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ حضرت بایزید بسطامیؒ (شمال مشرق ایران) میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ وجد میں اکثرایسی باتیں کرتے تھے کہ لوگ ان کو توہین اسلام سمجھتے تھے۔ حضرت بایزید بسطامیؒ کی سب سے زیادہ وجدانی کیفیت میں بیان کردہ بات وہ ہے جو آپؒ نے مولانا رومیؒ اور حضرت شمس تبریز ؒ کی ملاقات کے وقت کہی تھی۔ تمام شان و شوکت میرے لئے ہے میں کتنا عالی مرتبت شخصیت ہوں۔ مولانا رومیؒ نے مثنوی میں اس کو یوں بیان کیا ہے۔ ’’عالی مرتبہ درویش بایزید بسطامیؒ اپنے مریدوں کے پاس گئے اور کہا، ’میں (نعوذ باللہ) خدا ہوں میرے علاوہ کوئی خدا نہیں، بس تم میری عبادت کرو۔دوسری صبح جب وہ ہوش و ہواس میں تھے تو آپؒ سے مریدوں نے کہا کہ آپؒ نے کفرانہ باتیں کی تھیں۔ آپؒ نے فرمایا اگر میں آئندہ کوئی ایسی حرکت کروں تو اپنے خنجر لے کر مجھے ہلاک کردینا۔ اللہ تعالیٰ بدن سے باہر ہے اور میں بدن کے اندرہوں۔ جب آپؒ دوبارا وَجد میں آئے تو پہلے سے زیادہ سختی سے کفرانہ گفتگو کی اور کہا کہ میرے جُبّہ کے اندرخدا ہے اور کہیں نہیں، تم اِدھر اُدھر کیوں ڈھونڈ رہے ہو۔ یہ سن کر مریدوں نے انؒ پر خنجروں سے حملہ کردیا۔ آپؒ پر بالکل اثر نہیں ہوا اور مرید خود لہولہان ہوگئے۔ جس نے آپؒ کا حلق کاٹنے کی کوشش کی خود اپنی گردن کاٹ ڈالی جس نے آپؒ کے دل پر حملہ کیا خود کے دل میں خنجر گھونپ دیا اور مر گیا۔ وہ لوگ جو اُن کی عزّت کرتے تھے اور ان کے رُتبہ سے واقف تھے انھوں نے نرم دلی سے وار کئے اور خود معمولی زخمی ہوگئے۔ جب صبح ہوئی تو صرف مُرید ہی رہ گئے تھے۔ گھر میں سے آہوں کی آواز سن کر مجمع جمع ہوگیا۔ ان میں سے ایک آدمی نے آپؒ سے کہا کہ اے بایزید تمہارے جُبّہ کے اندر دونوں جہان ہیں اگر تم انسان ہوتے تو ان خنجروں کے وار سے ہلاک ہوگئے ہوتے۔ (اے لوگو!) جو لوگ ایک ایماندار اور نیک شخص پر خنجر سے حملہ کرتے ہیں وہ خود ہی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ایک نیک و ایماندار شخص اللہ کی محبت میں وجد میں آجاتا ہے اور اس پر کسی چیز کا اثر نہیں ہوتا۔ شیشہ (آئینہ) کچھ نہیں اگر تم اس پر تھوکو گے تو اپنے ہی چہرے پر وہ گرے گا۔ اگر تم آئینہ میں حضرت مریم ؑاور حضرت عیسیٰ ؑدیکھو گے تو وہ تمھارا اَپنا عکس ہوگا۔اللہ رب العزّت ایک آئینہ کی مانند ہے جس میں ہم اپنا عکس ہی دیکھتے ہیں۔
(3) تیسرے بڑے صوفی و ولی اللہ جن کا ذکر مولانا رومیؒ نے کیا ہے وہ حضرت منصور الحلّاج ؒ ہیں۔ آپ اون اور روئی بیچنے والے تاجر کے بیٹے تھے۔ آپ 858 عیسوی میں ایران کے صوبہ فارس میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ نے لاتعداد سفر کئے اور کئی ملکوں کی سیر کی اور خراسان، ٹرانس، اُوکسیانا، ہندوستان، بغداد اور تین مرتبہ مکّہ کا دورہ کیا۔ آپ اپنے زمانہ میں ہی ایک متنازع شخصیت بن گئے تھے اور علماء دین ان کے سخت مخالف ہوگئے تھے۔ آپ کو 922 عیسوی میں قتل کردیا گیا اور اس واقعہ پر متعدد کتب لکھی گئی ہیں اور خاص طور پر شیخ فرید الدین عطّارؒ نے اپنی مشہور کتاب تذکرۃ الاولیاء میں ان کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ حضرت بایزید بسطامیؒ کی طرح حلاج ؒ بھی اپنے غیر اسلامی بیانات کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے۔ آپ کا نعرہ تھا ’اناالحق‘ (یعنی میں سچائی ہوں یا نعوذ باللہ خدا ہوں)۔ حضرت رومیؒ اور چند دوسرے علماء کا خیا ل تھا کہ جب حضرت حلاج ؒ وجد میں آکر یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ میں (نعوذ باللہ) خدا ہوں تو وہ حلاج ؒ نہیں ہوتے وہ ایک غیرموجود شخصیت بن جاتے ہیں۔ حضرت مولانا رومیؒ کہتے ہیں کہ جب حلاج ؒ کہتے ہیں کہ میں خدا ہوں تو اس میں قدرت کی سچائی نظر آتی ہے مگر جب فرعون نے کہا کہ وہ خدا ہے تو وہ ایک صریح جھوٹ تھا۔ مولانا فرماتے ہیں، ’ایک دائی یہ کہہ سکتی ہے کہ حاملہ کو درد کی تکلیف نہیں ہے لیکن درد کا ہونا بچہ کی پیدائش کی خوشخبری ہے۔ اسی طرح کسی غلط موقع پر ’میں‘ کہنا ایک لعنت ہے کہنے والے پر لیکن مناسب اور صحیح موقع پر ’میں‘ کہنا اللہ کی مہربانی ہے۔ منصور حلاج ؒ کا ’میں‘ کہنا ایک نعمت تھی جبکہ فرعون کا ’میں‘ کہنا اس پر لعنت بن گیا۔
حضرت منصور حلّاج کی وجد میں کہی ہوئی باتوں سے بہت سے لوگ ان کے خلاف ہوگئے، اور قید خانہ کے تین سو قیدیوں کو اپنے کشف سے رہا کردیا تو حکمران وقت نے آپ کو تین سو کوڑوں کی سزا دی۔ آپ ہر کوڑے کی مار پر فرماتے اے ابن منصور خوفزدہ نہ ہو۔ جس دن آپ کو پھانسی دی گئی اس دن آپ کی سزا دیکھنے ایک لاکھ سے زیادہ لوگ موجود تھے۔ جب پھانسی کے چبوترے پر پہنچے تو مسکرا رہے تھے اور کہا کہ میں نے جو طلب کیا تو نے عطا کردیا۔ پہلے جلاد نے آپ کے ہاتھ قلم کئے تو مسکراتے فرمایا کہ یہ ظاہری ہاتھ قطع کئے گئے ہیں باطنی ہاتھ کوئی قطع نہیں کرسکتا۔ اسی طرح جب دونوں پائوں قطع کئے گئے تو فرمایا ظاہری پائوں قطع ہوئے ہیں باطنی پائوں کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ اور میں ان سے دونوں عالم کا سفر کرسکتا ہوں۔ پھر آپ نے خون آلود ہاتھ کو چہرے پر ملتے ہوئے فرمایا کہ میری سرخروئی کا اچھی طرح مشاہدہ کرلو کیونکہ خون جوانمردوں کا اُبٹن ہوتا ہے۔پھر خون سے لبریز ہاتھوں کو کہنیوں تک پھیرتے ہوئے فرمایا کہ میں نماز عشق کے لئے وضو کررہا ہوں (الحمدللہ) کیونکہ نماز عشق کے لئے خون ہی سے وضو کیا جاتا ہے۔ پھر ظالموں نے آپ کی آنکھیں نکال دیں اور زبان کاٹنے لگے تو آپ نے فرمایا اے اللہ میرے ہاتھ تیرے راستہ میں قطع کئے گئے ہیں آنکھیں نکال لی گئی ہیں اور اب سر بھی کاٹا جائے گا لیکن میں تیرا شکرگزار ہوں کہ تو نے مجھ کو ثابت قدم رکھا اور تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ ان سب لوگوں کو بھی وہی دولت عطا فرما جو تو نے مجھے دی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعون!
لوگ مولانا رومیؒ کی مثنوی کو الہامی کتاب کا درجہ دیتے ہیں۔ کلام مجید اور بائبل(انجیل) کے بعد یہ کتاب سب سے زیادہ چھپی ہے اور سب سے زیادہ مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا ہے۔ اصل کتاب فارسی زبان میں ہےڈاکٹر قدیر خان،

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website