counter easy hit

دھمکی یا اعتراف جرم

Modi

Modi

تحریر : آصف خورشید رانا
بھارت کے یوم آزادی ( جسے دنیا بھر میں کشمیریوں نے یوم سیاہ کے طور پر منایا) کے موقع پر بھارت کے وزیر اعظم نریندرا مودی جوش خطابت میں بہت کچھ کہہ گئے ۔اس موقع پر سفارتی آداب کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کے ان تمام الزامات کی تصدیق کر دی جن کے بارے میں پاکستان کافی عرصہ سے عالمی سطح پر آواز بلند کرر ہا ہے ۔ نریندرا مودی نے لال قلعے میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان بلوچستان اور آزاد کشمیر میں ڈھائے جانے والے ظلم کا جواب دے ۔دنیا دیکھ رہی ہے کہ بلوچستان کے لوگوں نے ہماری مدد پر شکریہ ادا کیا اور ہمارے لیے یہ فخر کا موقع ہے کہ گلگت بلوچستان کے لوگوں نے مدد کے لیے ہماری طرف دیکھا ہے ۔ بھارتی وزیر اعظم کایہ پہلا اعتراف نہیں ہے بلکہ ماضی میں وہ اپنے بنگلہ دیش کے دورہ کے موقع پر بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں وہ بھی مکتی باہنی کے ہمراہ تھے ۔ پاکستان گزشتہ کچھ سالوں سے ملک میں ہونے والی دہشت گردی اور بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کی مدد کرنے پربھارت کو مورد الزام ٹھہرارہا ہے تاہم بھارت نے ہمیشہ ہی ان الزامات سے انکار کیا۔

رواں سال کے اول میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیوکی گرفتاری پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی بہت بڑی کامیابی تھی ۔کلبھوشن ممبئی کا رہائشی اور بھارتی نیوی کا حاضر سروس آفیسر تھا ، اسے بطور ”را” آفیسربلوچستان اور کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کا ہدف دیا گیا تھا جب کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا مقصد عوام میں خوف ہراس پھیلانا تھاکلبھوشن نے خود اعتراف کیا کہ وہ”را” کے جوائنٹ سیکرٹری انیل کمار گپتا کے ماتحت کام کرتا ہے، انیل کمار گپتا کے پاکستان میں موجود رابطوں خاص طور پر بلوچ اسٹوڈنٹ تحریک کو چلانا اس کا کام تھا، ”را” کی طرف سے بلوچ باغیوں کے لیے فنڈنگ بھی کی جاتی تھی جب کہ اس کا مقصد بلوچ باغیوں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنا، ان کی مدد اور اشتراک سے کارروائیاں کروانا تھا، یہ کارروائیاں مجرمانہ اور قومی سالمیت کے خلاف تھیں جنہیں دہشت گردانہ کارروائیاں کہہ سکتے ہیں اوران کا مقصد شہریوں کو ہلاک کرنا یا نقصان پہنچانا تھا۔اس نے یہ بھی اعتراف کیا کہ بلوچ لبریشن کی کارروائیوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” پوری طرح ملوث ہے اور ان کارروائیوں کی زد میں پاکستان اور ارد گرد کا خطہ بھی شامل ہے۔

ان تمام تر سرگرمیوں کا زیادہ دائرہ کار اس کی معلومات پر مبنی ہوتا جوکہ گوادر ، پسنی جیونی اورپورٹ کے گرد بہت ساری دوسری تنصیبات پر مشتمل ہوتیں جن کا مقصد بلوچستان میں موجود تنصیبات کو نقصان پہنچانا اور بلوچ لبریشن میں مجرمانہ سرگرمیوں کی ذہنیت کو مضبوط کرنا ہوتا تھا تاکہ پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیلا جائے۔کلبھوشن کے مطابق 3 مارچ کو ”را” کے افسران کی طرف سے اسے دیئے گئے مختلف اہداف کے حصول کے لیے پاکستان جارہا تھا جہاں داخل ہونے کا بنیادی مقصد بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ بلوچستان میں کارروائیاں کرنے کے لیے میٹنگ کرنا تھا اور وہ پیغامات بھارتی ایجنسیوں کو دینا تھے، میٹنگ کا بنیادی کام یہی تھا کہ ”را” مستقبل میں بلوچستان میں کچھ بڑی کارروائیاں پلان کرنا چاہتی تھی اورکارروائیوں کے متعلق بلوچ علیحدگی پسندوں سے بات چیت کرنا تھی لیکن ایران کے ساراوان باڈر سے پاکستان کی سرحد عبور کرتے ہوئے پاکستانی حکام کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔

Kulbhushan

Kulbhushan

کلبھوشن کی گرفتاری پر بھارت نے شروع میں تو انکار میں ہی عافیت جانی لیکن پاکستان کی جانب سے معاملہ کو عالمی سطح پر اٹھانے کے فیصلہ پر بھارت نے یہ کہہ دیا کہ کلبھوشن بھارت کا شہری ہے تاہم وہ کسی خفیہ ایجنسی سے وابستہ نہیں ہے ۔کلبھوشن کی ایران کی سرحد کے ساتھ سے گرفتاری نے اسلامی ملک کے بارے میں بھی کافی شکو ک و شبہات پیدا کر دیے۔پاکستان اس وقت چین کے اشتراک سے اقتصادی راہداری کے بہت بڑے معاشی منصوبہ پر عمل کر رہا ہے۔ جس کے اعلان کے ساتھ ہی بھارت نے کھلے بندوں اعلان کر دیاتھا کہ وہ اس منصوبے کو کسی قیمت پر قبول نہیں کرسکتا ۔ اس کے لیے چین سے بھی احتجاج کیا گیا لیکن چین نے واضح کر دیا کہ کہ یہ منصوبہ کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں ہے اور اسے جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا جس سے بھارت نے مایوس ہو کر ایران کے ساتھ مل کر چاہ بہار کی بندرگاہ کو آپریشنل کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دیں ۔دوسری جانب اس منصوبہ کوثبوتاز کرنے کے لیے علیحدگی پسند تنظیموں کے ذریعے دہشت گردی کو فروغ دینے کا منصوبہ بنا لیا جس پر کلبھوشن کام کر رہا تھا تاہم پاک آرمی نے بلوچستان سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا جو عزم کیا تھا اس پر بہت سی قربانیوں کے بعد دہشت گرد عناصر کے گرد گھیرا تنگ کیا جا چکا تھا ۔کلبھوشن اپنے منصوبے کے ابتدائی دنوں میں ہی پکڑا گیااور بھارت کا یہ منصوبہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔

دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد میں گزشتہ کچھ عرصہ سے کشمیری نوجوانوں نے جدو جہد آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ظلم ، جبر ، تشدد کی پالیسی کے خلاف انہوں نے بھارت سے آزادی کے لیے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کے لیے وادی میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا ان مظاہروں کو روکنے کے لیے بھارتی فوج نے ایک بار پھر اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جس پر آزادی کے متوالوں نے جدوجہد کو ایک نیا رخ دے دیا ۔مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں پاکستانی پرچم لہرائے جانے لگے اور پاکستان کے قومی ترانوں کی دھن پوری وادی میں گونجنے لگی جس کو دبانے کے لیے بھارتی فوج نے کشمیریوں پر ظلم و تشد دکی انتہا کر دی ۔ آزادی کی آواز کی گونج دبنے کی بجائے بھارت کے شہروں تک پھیل گئی اور بھارت کے مختلف طبقوں کی جانب سے بھی بھارتی فوج کی دہشت گردی کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں کشمیری نوجوانوں کی آواز اور سوشل میڈیا میں ہر دلعزیز مجاہد برہان وانی کی شہادت نے اس تحریک کو مزید توانا کر دیا۔

برہان وانی شہید کو پاکستانی پرچم میں د فن کی گیا اور نوجوانوں نے بھارت کے مسلسل جبر و تسلط کے خلاف دنیا کی توجہ مبذول کروانے اور پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کرنے کے لیے کشمیر کی گلی گلی میں سبز ہلالی پرچم لہرانا شروع کر دیا ۔ بھارتی فوج نے آزادی کی آواز بلند کرنے والے ان نوجوانوں کے خلاف مہلک ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا۔ مقبوضہ کشمیر کے ہر شہر میں بھارت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شدت بڑھتی گئی اور بھارت کے لیے کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا تو پیلٹ گنوں کا استعمال شروع کیا گیا جس سے سینکڑوں نوجوان اس وقت ہسپتالوں میں زخمی حالت میں ہیں جبکہ دو سے زائد بچے اور جوان اپنی آنکھوں کی قربانی دے چکے ہیں گزشتہ 39 روز سے مسلسل کرفیو اور آمدورفت کی بندش کے باجود تحریک ختم نہیں ہو سکی اور جب بھارت اپنا یوم آزادی منا رہا تھا اس وقت وادی سمیت دنیا بھرمیں موجود کشمیری یوم سیاہ منا رہے تھے۔

Democracy

Democracy

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ریاست ہونے کا دعویدا ملک بھارت اس وقت انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے ۔ دنیا بھر میں بھارت کا یہ سیاہ چہرہ نمایاں ہونے لگا حتیٰ کے بھارت کے شہروں میں بھی کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھنے لگی ۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے مزید آرمی تعینات کر دی گئی ۔ بھارت نے سوشل میڈیا انٹر نیٹ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر پابندیاں لگنے کے باوجود عالمی میڈیا میں بھارت کے مظالم کا پردہ چاک ہونے لگا ۔ ایسی صورتحال میں بھارت نے پہلے پہل تو اس تحریک آزادی کو پاکستان کی جانب سے دہشت گردی قرار دینے کی ناکام کوشش کی لیکن جب اس کے اپنے ادارے یہ کہنے لگے کہ یہ تحریک خالصتاً کشمیریوں کی ہے تو پاکستان سے بدلہ لینے اور عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کے لیے بھارت نے بلوچستا ن اور گلگت بلتستان میں علیحدگی پسند عناصر کی کھلے بندوں حمایت کا اعتراف کرنا شروع کر دیا۔مقبوضہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں کہ کشمیر کے عوام کو بھارت یا پاکستان کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے اور اس پر استصواب رائے کروایا جا نا ضروری ہے لیکن بلوچستان تو متنازعہ علاقہ نہیں۔

آئینی و قانونی ہر طرح سے یہ پاکستان کا حصہ ہے اور یہاں پر بھی ایسی کوئی تحریک نہیں ہے کہ جس پر بھارت واویلا کر سکے ۔ یہ بات درست ہے کہ بھارت نے بلوچستان میں دہشت گردی کروانے ، اقتصادی راہداری کے منصوبے کو نقصان پہنچانے اور علیحدگی پسندوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے ایک بڑی سرمایہ کاری کی ۔اس میں بھارت کے پاک افغان سرحد پر موجود قونصل خانوں نے بھی اہم کردار ادا کیا لیکن اس کے باوجود بھارت کو کوئی بھی اہم کامیابی حاصل نہیں کی ۔ پاکستان کی فوج نے وہاں کی عوام کی مدد سے بلوچستان میں ملک سے باہر بیٹھے چند عناصر کی مداخلت کو ختم کر دیا یہی وجہ ہے کہ اس یوم آزادی پر بلوچستان میں دہشت گردی کے چند واقعات کے باجود صوبہ بھر میں ریلیاں اور جلوس نکالے گئے ۔ بلوچ عوام نے پاکستان کا یوم آزادی شایان شان طریقے سے منا کر بھارتی اور چند مغربی ممالک کے پراپیگنڈے کو یکسر مسترد کر دیا۔

اب کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف بھارتی وزیر اعظم نے سفارتی آداب کو بھی ملحوظ خاطر میں نہ لاتے ہوئے جو تقریر کی ہے وہ دھمکی سے کم اعتراف جرم زیادہ ہے ۔ پاکستان کی حکمران جماعت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی ہمدردیا ں بھارت کے ساتھ موجود ہیں تاہم موجودہ صورتحال پر وزیراعظم کے چند حوصلہ افزاء بیانات کے بعد قوم نے پھر سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں کہ وہ پاکستان کے مفاد کو اولیت دیتے ہوئے بھارت کے اس اعتراف جرم پر عالمی سطح پر موثر کارروائی کروانے کے لیے دبائو ڈالیں گے ۔ اگرچہ بھارت کے اس اعتراف جرم پر عالمی برادری کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آیا تاہم یہ پاکستان کا فرض ہے کہ عالمی اداروں میںبھارت کا یہ اعتراف جرم پیش کر کے اس کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دبائو ڈالے بالخصوص اسلامی ممالک اور ان کی تنظیموں میں بھارت کا دہشت گرد چہرہ دکھایا جانا بہت ضروری ہے ۔اب عالمی بساط پر چال چلنے کی باری پاکستان کی ہے۔دیکھنایہ ہے کہ اس اعتراف جرم کو پاکستان کے سفارتکار کس طرح سے اپنی سفارتکاری کے محاذ پر دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔

Asif Khursheed Rana

Asif Khursheed Rana

تحریر : آصف خورشید رانا