counter easy hit

اس مرتبہ گیند عمران خان کے ہاتھ میں ہے

15 فروری 2018ء کو دنیا بلاگز پر ہی میرا ایک بلاگ شائع ہوا تھا جس کا عنوان تھا “ٹیل اینڈر کا چھکا۔ میں نے اس بلاگ میں مسلم لیگ نواز کی لودھراں کے ضمنی انتخابات میں فتح کو پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین کھیلے جانے والے 1987ء کے ورلڈ کپ کے میچ کے حوالے سے ٹیل اینڈر کا وہ چھکا قرار دیا تھا جو آخری اوور میں لگا اور ٹیم کو ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک لے گیا۔ سینیٹ کے انتخابات کو میں نے سیمی فائنل کہا تھا اور لکھا تھا کہ سینیٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز کی کارکردگی کی بنیاد پر ہی 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز کی ہار یا جیت کے امکانات پر بات کی جا سکے گی۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ جیسے کرکٹ میں بعض اوقات ایک کھلاڑی پورے میچ کا پانسہ پلٹ دیتا ہے ویسے ہی بعض اوقات سیاست میں ایک سیاست دان بڑی بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کو بھی معنی خیز قرار دیا تھا۔ اس بلاگ پر خاصے سخت الفاظ میں تنقید بھی ہوئی تھی۔

1987ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان کی مضبوط ترین ٹیم سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کھا گئی تھی۔ آسٹریلیا کے ایک کھلاڑی اسٹیو وا نے پاکستان کی یقینی فتح کو شکست میں بدل دیا تھا۔ بالکل اسی طرح مسلم لیگ نواز کی مضبوط ترین جماعت سینیٹ الیکشن میں شکست کھا گئی ہے اور ان کو شکست سے دوچار کرنے والے کھلاڑی کا نام ہے عبدالقدوس بزنجو۔ عبدالقدوس بزنجو کی سربراہی میں بلوچستان اور فاٹا کے آزاد سینیٹروں کے گروپ نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی نشستوں کے انتخابات میں پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ہر قیمت پر نواز شریف کی جماعت کے چیئرمین کا راستہ روکنا چاہتے تھے۔ ان کی اپنی جماعت کے پاس اتنی نشستیں نہیں تھیں کہ وہ مؤثر طور پر مسلم لیگ نواز کا مقابلہ سینیٹ میں کر پاتے۔ آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کو وہ چیئرمین کا ووٹ دینا نہیں چاہتے تھے۔ ایسی صورت حال میں ان کے پاس واحد راستہ آزاد امیدوار کی حمایت کا بچتا تھا چناچہ انہوں نے وہی راستہ اختیار کیا۔ آصف زرداری بھی نواز شریف کا راستہ روکنا چاہتے تھے اور عددی اقلیت کی بنا پر انہیں بھی اسی آزاد امیدوار کی حمایت کا فیصلہ کرنا پڑا۔ حالانکہ مسلم لیگ نواز نے پیپلز پارٹی کے رضا ربانی کا نام چیئرمین سینیٹ کے لیے تجویز کر کے پیپلز پارٹی کو زیر دام لانے کی کوشش کی تھی مگر آصف زرداری بھی ایک کائیاں شخص ہیں وہ مسلم لیگ نواز کے اس جھانسے میں نہیں آئے اور اس طرح بلوچستان سے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ جبکہ سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گئے۔

سینیٹ کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ نواز کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حکمراں جماعت کی یکجہتی میں واضح دراڑیں دکھائی دینا شروع ہو گئی ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز کا عدلیہ مخالف بیانیہ ان کی اپنی جماعت کے لیے رفتہ رفتہ بوجھ بنتا جا رہا ہے۔ دبی دبی آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں جبکہ ہجرتی پرندے ایک ایک کر کے اور بعض اوقات جھنڈ کی صورت میں اڑان بھرنا شروع ہو گئے ہیں۔ حکومتی جماعت سیاسی منظر نامے کی تبدیلی کو غیر سیاسی قوتوں کی کارروائی کا شاخسانہ قرار دے رہی ہے اور اسی بیانیہ کو لے کر “ووٹ کو عزت دو” کا بظاہر دلکش مگر درحقیقت بے معنی نعرہ اپنا کر انتخابات میں اترنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

نواز شریف فی الحال پارلیمانی سیاست سے مستقل آؤٹ ہو چکے ہیں۔ ان کی واحد امید آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کر کے آئینی تبدیلی سے وابستہ رہ گئی ہے جو موجودہ صورت حال میں تقریباً ناممکن دکھائی دیتی ہے۔ احتساب عدالت میں بھی بدعنوانی کے مقدمات سماعت کے تقریباً اختتام پر ہیں اور کچھ دنوں تک ان کے فیصلے متوقع ہیں۔ نواز شریف اور ان کے بچوں نے اب تک اپنی صفائی میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔ نیب کے قانون کے تحت آمدن سے زائد اثاثوں کے الزامات کی صورت میں بے گناہی کا ثبوت فراہم کرنا ملزم کی ذمہ داری ہے۔ اگر نواز شریف اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو ان کو سزا بھی ہو سکتی ہے اور بدعنوانی کے الزامات میں سنائی جانے والی سزا ہمیشہ کے لیے ان کی سیاست کا خاتمہ بھی کر سکتی ہے۔

اس صورت حال سے نبٹنے کے لیے حکمراں جماعت مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ گردش کرنے والی خبروں کے مطابق حکومت صدارتی آرڈینینس کے تحت نیب قوانین میں ترمیم کرناچاہتی ہے تاکہ تبدیل شدہ قوانین کی آڑ لے کر نواز شریف کو بچایا جا سکے۔ اس کے علاوہ اگر نواز شریف کو سزا ہو جاتی ہے تو صدر مملکت کی جانب سے سزا معاف کرنے کی آپشن بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ یہ آپشنز حکمراں جماعت کی مایوسی کو ظاہر کرتے ہیں۔

نواز شریف ایسے میں مسلسل یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان کے خلاف ناانصافی کی جا رہی ہے اور ان پر قائم کیے گئے مقدمات درحقیقت ان کے خلاف انتقامی کارروائی ہے۔ ایسا تاثر وہ اس لیے دے رہے ہیں تاکہ جب انہیں احتساب عدالت سے سزا ہو تو وہ عوام کے اذہان میں یہ تاثر راسخ کر سکیں کہ دراصل انہیں انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے مگر انتقام بھی کسی وجہ کی بنیاد پر لیا جاتا ہے۔ نواز شریف سے کس بات کا انتقام لیا جا رہے ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔

دوسری طرف ان کے سیاسی حریف عمران خان اس وقت سیاسی منظر نامے پر چھائے ہوئے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے لوگ ٹوٹ ٹوٹ کر ان کی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے ندیم افضل چن بھی تحریک انصاف میں شمولیت کا عندیہ دے چکے ہیں جس کے بعد عمران خان نے چوہدری نثار علی خان کو بھی علی الاعلان تحریک انصاف میں شمولیت کی دعوت دے دی ہے۔ اسی تناظر میں مسلم لیگ نواز کے نئے صدر شہباز شریف گزشتہ کچھ دنوں میں چوہدری نثار علی خان سے کم از کم چارمرتبہ ملاقات کر چکے ہیں۔ ان ملاقاتوں کے نتائج بھی کچھ دنوں تک سامنے آ جائیں گے۔ غالباً مسلم لیگ نواز کی مشکلات میں مزید اضافہ ہی ہو گا کیونکہ شہباز شریف نے سیدھے بلے سے کھیلتے ہوئے دفاعی انداز اختیار کیا ہوا ہے۔

پچھلے دنوں عمران خان نے سینیٹ انتخابات میں ووٹ فروخت کرنے والے بیس ارکان اسمبلی کو چارج شیٹ کرتے ہوئے ان سے وضاحت مانگ لی ہے اور وضاحت نہ دینے کی صورت میں ان اراکین کو پارٹی سے نکالنے اور ان کے کیسز نیب کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کی ٹائمنگ بہت اہم ہے اور سیاست میں ٹائمنگ ہی سب کچھ ہے۔ اگر عمران خان اپنے ان اراکین کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ان کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہو گا اور ممکنہ طور پر ایک ایسی لہر جنم لے سکتی ہے جو انتخابات میں کامیابی پر منتج ہو۔

اس تمام صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ نواز کی کامیابی کے امکانات موہوم سے موہوم تر ہوتے چلے جا رہے ہیں الا یہ کہ جاوید میانداد کی طرح آخری گیند پر شہباز شریف کوئی چھکا لگا دیں۔ مگر یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جاوید میانداد کےسامنے چیتن شرما تھا مگر اس مرتبہ گیند عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔