counter easy hit

وہ ہم سے بھی زیادہ کشتہ ء تیغ ستم نکلے , رضا علی عابدی

 They were persecuted by the sword even more overheads by Raza Ali Abdi

They were persecuted by the sword even more overheads by Raza Ali Abdi

ہمارے ساتھ بُرا ہوا۔ ہوا یہ کہ جب صبح و شام،رات دن پاکستان کی خبریں دیکھتے دیکھتے دل گھبرانے لگا۔ وہی حالات، وہی دھینگا مشتی، وہی اکھاڑ پچھاڑ اور وہی لپّا ڈگّی تو خیال آیا کہ یہ سب کیا ہے۔ کیا دنیا پاکستان سے شروع ہوکر پاکستان ہی پر ختم ہوجاتی ہے؟جن ستاروں کے سائے میں ہم جیتے ہیں، سنا ہے اُن سے پرے اور بھی بہت سی دنیائیں بستی ہیں۔ سوچا کہ ذرا سر اونچا کریں، دور تک نگاہ دوڑائیں ، اس خول سے باہر نکلیں اور دیکھیں ، دوسروں پر کیسی گزر رہی ہے، ان کے شب و روز کیونکر کٹ رہے ہیں اور اگر ان کی بھی درگت بن رہی ہے تو ہم سے بدتر تو نہ ہوگی۔ ہم نے دنیا کی اٹلس کھولی ۔ قرعہ ء فال برازیل کے نام نکلا۔ ابھی تو وہاں اولمپکس کی دھوم مچی تھی۔ دیکھیں اس کی گرد بیٹھنے کے بعد برازیل والوں کا کیا حال ہے۔
غضب ہوگیا۔وہ جیسے ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے: بس پوچھو مت۔ دفعتاً وہ مصرعہ ذہن میں گونجاکہ وہ ہم سے بھی زیادہ کشتہء تیغِ ستم نکلے۔اخبار کھولتے ہی یہ خبر نگاہوں کے سامنے لہرانے لگی کہ وہاں سیاست داں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میںایک او رسرکردہ شخصیت نشانہ بنی اور پارلیمان کے ایوانِ زیریں نے ووٹ دے کر اپنے اسپیکر مسٹر کونہا کو نکال باہر کیا۔ اُن غریب پر صرف تین الزام تھے:اوّل جھوٹ بولے، دوئم کرپشن کیا اور سوئم انصاف کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ نہایت دین دار مگر پرلے درجے کے چالباز تھے۔ انہوں ہی نے ابھی صرف دو ہفتے پہلے اپنی عیاری سے ملک کے صدر روسف کا مواخذہ کرکے حکومت سے چلتا کیا تھا مگر پندرہ روز بھی نہیں ہوئے تھے کہ اسپیکر صاحب کو بھی باہر کی راہ دکھا دی گئی۔کونہا کو نکالنے کے حق میں چار سو پچاس اور برقرار رکھنے کے حق میں دس ووٹ آئے۔ نو ارکان ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے۔ اس طرح ان سے وہ حق چھن گیا کہ پارلیمان کے اندر ان کے ہر قصور کی معافی ہے۔ اس کے علاوہ امکان یہ ہے کہ اب ان پر فوجداری کا مقدمہ چلے گا کیونکہ انہوں نے ملک کی تیل کی کمپنی میں پیسہ بٹورا،رشوت لی اور کِک بیکس (یعنی ٹھیکوں میں اپنا حصہ) لئے ۔ یہی نہیں، وہ پورے آٹھ سال سیاست میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ یہ سزا ان ہی کے نکلوائے ہوئے صدر سے زیادہ سخت ہے کیونکہ سابق صدر کا سیاست میں دخل دینے کا اختیار برقرار ہے۔کونہا صاحب نے ایوان سے رخصت ہوتے ہوئے تقریر بھی کی اور کہا کہ انہیں قانونی طریقے سے نہیں، سیاسی ڈھنگ سے بھینٹ چڑھایا گیا ہے اور یہ کہ ٹھیک ہے، میں تو جاتا ہوں لیکن دیکھ لینا، ابھی او رلوگ بھی دربدر ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ میں نے ملک کو وطن دشمنوں سے بچاکر رکھا جس کی قیمت ادا کررہا ہوں۔ میں نے صدر کا مواخذہ کرایا جس کی سزا میں بھگت رہا ہوں۔ آخر میں انہوں نے ارکان پارلیمان سے کہا’’کل تمہاری باری ہوگی‘‘۔ کونہا کے لہجے میں جو دلیری ہے اس کاسبب یہ بتایا جاتا ہے کہ انہیں دوسرے سیاست دانوں کے کالے کرتوتوں کا خوب خوب علم ہے ، وہ جو ڑ توڑ کے ماہرہیں اور اسی بنا پر لوگ ان سے ڈرتے ہیں۔
اس سے پہلے ان پر الزام لگ چکا ہے کہ ان کے کریڈٹ کارڈ کی تفصیل معلوم ہوگئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دو سال پہلے اپنے کنبے کے ساتھ چھٹیاں گزارنے امریکہ گئے تو انہوں نے صرف نو دنوں کے دوران چالیس ہزار ڈالر خرچ کئے۔ اسی طرح انہوں نے پیرس، نیو یارک اور زیورخ میں دولت دونوں ہاتھو ں سے لٹائی۔ ا ن پر الزام ہے کہ ان کے اور ان کی بیوی کے پاس آٹھ شاندار کاریں ہیں اور ایک کار کی نمبر پلیٹ تو یسوع مسیح کے نام پر ہے۔ یہ مذہب سے ان کے بے پناہ لگاؤ کا مظاہرہ ہے۔ کونہا نے کتنے ہی لوگوں کو خرید رکھا ہے۔ ملک کے نئے صدر اور ایوان بالا کے قائد ان کی کرپشن میں سرکردہ ساجھے دار رہے ہیں۔ سابق اسپیکر پر حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے یہ جرات کیسے کی، شاید انہیں یقین تھا کہ کوئی انہیں ہاتھ بھی نہیں لگائے گا۔ وہ بھی چرچ کے گرویدہ ہیں، ایک بہت مقبول مسیحی ریڈیو اسٹیشن پر اپنا شو کرتے ہیں اور گرجا ہی کی حمایت سے وہ ایک سال پہلے اسمبلی کے اسپیکر بنے تھے۔ اب جو رائے شماری ہوئی اور آدھی رات کو نتیجے کا اعلان کیا گیا تو جیسے ہماری طرف لوگ بڑے ذوق و شوق سے وکٹری کا نشان بناتے ہیں، اس رات کچھ سیاست دانوں نے انگلیوں سے جیل کی سلاخوں کا نشان بنایا اور اپنی زبان میں ’گو کونہا گو‘ کے نعرے لگائے۔ اس ایوان میں ابھی کچھ عرصے پہلے جب صدر کو نکالا گیا تو اسی اسپیکر کے زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے۔ اب وہ اپنی بے گناہی کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ کونہا کہتے ہیں کہ انہیں میڈیا ٹرائل کا سامناکرنا پڑا اور ملک کے ایک طاقت ور میڈیا گروپ نے جو گلوبو کے نام سے مشہور ہے، ان کو جی بھر کر بدنام کیا۔ عوام بھی اس وقت بپھر گئے جب کچھ اس طرح کی خبریں آتی رہیں کہ کونہا نے سوئٹزرلینڈ کے ایک خفیہ اکاؤنٹ میں تیرہ لاکھ ڈالر چھپا رکھے ہیںجو انہوں نے بڑے بڑے کمیشن لے کر کمائے تھے۔ انہوں نے ان باتوں کو جوتی کی نوک پر رکھا اور خوب عیاشی کی زندگی گزاری حالانکہ اپنے ٹیکس کے گوشوارے کے مطابق ان کی سالانہ آمدنی محض ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر تھی۔ حال یہ تھا کہ رائے عامّہ کے گوشواروں کے مطابق وہ ملک کے بدنام ترین سیاست دانوں میں گنے جاتے تھے۔ اس سال کے شروع میں ایک سروے ہوا تھا جس میں ہر سو میں سے ستتر رائے دہندگان چاہتے تھے کہ کونہا کو نکالا جائے جب کہ صدر روسوف کے مخالف رائے دہندگان کی تعداد ہر سو میں باسٹھ تریسٹھ سے زیادہ نہیں تھی۔صدر پر الزا م بھی اتنے سنگین نہیں تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ وہ ملک میںمہنگائی کے ذمے دار تھے، سیاسی افراتفری ان ہی کے سبب تھی اور یہ کہ وہ ملک میں کرپشن روکنے میں بری طرح ناکام رہے۔ کچھ بھی ہو ، بعض سیاست دانوں کی روح فنا ہے کیونکہ کونہا بغل میں بہت موٹی فائل اٹھائے گھوم رہے ہیں جن میں لوگوں کی بد اعمالیوں کا کچّا چٹھا لکھا ہے۔کونہا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ صدر کے مواخذے میں ان کا کتنا ہاتھ تھا، اس بارے میں وہ ایک کتاب لکھیں گے۔ ان سے پوچھا گیا کہ دوسرے سیاست دانوں کی طرح آپ نے لوگوں سے اپنی گفتگو ریکارڈ کی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے سب یاد ہے۔ اب وہ کیا یاد رکھتے ہیں اور کیا بھول جاتے ہیں، اس بات کی بہت اہمیت ہے۔ برازیل کے ایک سرکردہ سیاست داں نے ان سے کہا کہ جو کچھ یاد ہے ، کہہ کر فرصت کرو تاکہ دودھ کا دودھ ہوجائے اور پانی کا پانی۔ اب اگر مان لیا جائے کہ کونہا اپنے سینے میں دفن راز لکھنے والے ہیں تو پھر بہت سے سیاست دانوں کی خیر نہیں۔سیاسی مبصّر کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کی گردنیں اتارنے کا یہ سلسلہ کہاں رکے گا، کچھ کہنا مشکل ہے۔
یہاں پہنچ کر میں نے اخبار ایک طرف پھینکا، جس کرسی پر بیٹھا تھا اُسی میں دھنس گیا اور جی بری طرح مچلا کہ کچھ ایسا ہوجائے کے ذہن سوچنا بند کردے۔ یہی سوچتے سوچتے آنکھ لگ گئی۔ اتنا ہوش بھی نہ رہا کہ نیند کاشکریہ ادا کردوں۔

بشکریہ جنگ

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website