counter easy hit

بلوچستان کی بگڑتی صورتحال اور ہماری ترجیحات

‏15 معصوم پاکستانیوں کی شہادت کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ بلوچ علیحدگی پسند صرف پاکستان دشمن ہی نہیں بلکہ انسان دشمن بھی ہیں۔ طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس سے پہلے بھی سینکڑوں معصوم بشمول بے گناہ بلوچ بھی ان کی دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔

گزشتہ دنوں دفترِ خارجہ نے برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں چلنے والی بسوں  پر لگے “فری بلوچستان” کے اشتہار پر برطانیہ سے احتجاج کرتے ہوئے اسے ملکی سالمیت پر براہ راست حملے کے مترادف قرار دیا تھا۔ اس سے پہلے ستمبر میں جنیوا میں متعدد مقامات، بسوں اور دیگر گاڑیوں پر ایسے پوسٹر آویزاں کیے گئے تھے جن پر بلوچستان کی آزادی اور پاکستان میں اقلیتوں سے مبینہ طور پر ناروا سلوک کے بارے میں نعرے درج تھے۔

پاکستان نے جنیوا میں چلائی جانے والی فری بلوچستان کی پوسٹر مہم پر سوئس حکومت سے دو بار احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ اس شر انگیز مہم میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

مجھے حیرت ہے کہ اتنا کچھ ہوجانے کے باوجود بھی حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتیں کیوں خاموش ہیں؟ اگر کوئی رہنما کسی دوسرے رہنما پر الزام لگا دے تو سیاسی رہنما شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے دکھائی دیتے ہیں مگر اس سنگین معاملے پر سیاسی رہنماؤں کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔

سیاسی رہنماؤں کو ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے بجائے بلوچستان میں پھیلتی ہوئی نفرت کی آگ کو ختم کرنے کےلئے کردار ادا کرنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو فوری طور پر بلوچستان کے مسئلے پر کوئٹہ میں آل پارٹیزکانفرنس طلب کرنی چاہئیے۔

اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بلوچوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں اور ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے اور انہیں ان کے جائز حقوق سے بھی محروم رکھا گیا اور اب وقت آگیا ہے کہ ریاست بلوچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرے۔

سابق صدر آصف علی زرداری جب پاکستان کے صدر منتخب ہوئے تھے تو سب سے پہلے انہوں نے بلوچوں سے ہونے والی زیادتیوں پر بطور صدر پاکستان معافی مانگی تھی اور آغاز حقوق بلوچستان پیکج کا اعلان کیا تھا جو بہتری کی جانب پہلا اور مثبت قدم تھا مگر افسوس مسلم لیگ (ن) نے بلوچستان کے ساتھ ساتھ سندھ اور خیبرپختونخواہ کو بھی نظر انداز کیا اور اپنی ساری توجہ صرف لاہور پر ہی مرکوز رکھی۔

یاد رکھیں کہ ہر تنقید کرنے والا دشمن نہیں ہوتا، تنقید وہی کرتا ہے جو محبت کرتا ہے۔ اس لئے ہر تنقید کرنے والوں کو سازشی یا غدار کہنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ میری نظر میں تنقید کرنے والے ملک کے خیر خواہ ہیں سوائے چند لوگوں کے جو ایک مخصوص ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ٹیبل پر بیٹھ کر روٹھے ہوئے لوگوں کو منانا چاہئے اور بلوچ بھائیوں کی ناراضگی دور کرنی چاہئے۔

جہاں یہ سچ ہے کہ بلوچوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں وہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بلوچستان میں بھارت مداخلت کرتا رہا ہے اور اب بھی چند مٹھی بھر بھٹکے ہوئے علیحدگی پسند بلوچ بھارت کی شہ پر بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں اور ایک مخصوص طبقہ ان بھٹکے ہوئے لوگوں کی حمایت کی آڑ میں پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہا ہے جو کبھی بھی اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہوں گے۔