counter easy hit

پاک بھارت کشیدگی کی ٹائمنگ کی اصل کہانی آپ کو دنگ کر ڈالے گی

The true story of the tense timing of Pak-India will amaze you

لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان نے یہ کامیابی تو حاصل کی ہے کہ چین کے ساتھ مل کر سیکورٹی کونسل کا اجلاس کشمیر کے سلسلے میں بلا لیا گیا۔ قومی سیاسی پارٹیاں تو جذباتی بیانات کو ہی اپنا مقصد سمجھتی ہیں۔ لیکن ہماری یونیورسٹیاں۔ تحقیقی ادارے۔ امن کے نام پر بننے والی این جی اوز۔ کہاں ہیں۔ نامور کالم نگار محمود شام اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ان کی طرف سے کوئی آواز کیوں بلند نہیں ہوتی۔ وہ تحقیق کیوں نہیں کرتیں کہ گزشتہ 72سال میں پاکستان بھارت کے درمیان جومذاکرات معاہدے ہوتے رہے ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سیکورٹی کونسل میں جو مباحثے ہوتے رہے۔ خاص طور پر ذوالفقار علی بھٹو۔ کرشنا مینن اور سورن سنگھ کے درمیان۔ ان کے نتیجے میں آج کے دَور میں پاکستان کے پاس کیا راستے ہیں۔ برسوں سے کشمیر کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے۔ اس کے سربراہ۔ ارکان امریکہ۔ یورپ۔ ایشیا کے ممالک کے دورے کرتے رہے ہیں۔ واپس آکر وہ کوئی رپورٹیں دیتے ہوں گے۔ ان پر کسی یونیورسٹی نے کوئی تحقیق کی ہے۔ ٹریک 2۔ کتنے برس سے چل رہا ہے۔ کروڑوں روپے ان کوششوں پر صَرف ہوتے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ان پر کبھی بحث ہوئی۔ کشمیر کمیٹی کے سابق سربراہوں میں سے جو زندہ ہیں ان کا اجلاس بلایا جائے۔ وہ کیا کہتے ہیں۔ مودی نے بہت سوچ سمجھ کر وقت کا انتخاب کیا ہے۔ جب پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر ہے۔ ادارے آپس میں بر سر پیکار ہیں۔ قوم سیاسی قبیلوں میں منقسم ہے۔ سوشل میڈیا پاکستانی ذہن میں انتشار۔ سنجیدہ مسائل سے گریز کا عملی مظاہرہ کرتا ہے۔ ہم غیر ملکی قرضوں تلے دبے ہوئے ہیں۔ برآمدات محدود ہیں۔ روپے کی قدر کم ہوچکی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط نے معیشت کو یرغمال بنارکھا ہے۔ ہمارے پاس پیٹرول اور دوسری برآمدات کے لیے زر مبادلہ نہیں ہوتا ہے۔ ہم سب نعرے تو بلند کررہے ہیں ۔ بہت سے سوشل میڈیائی بقراط عمران خان کو ٹیپو سلطان ۔ محمد بن قاسم بننے کے مشورے بھی دے رہے ہیں۔ لیکن حالت جنگ کے لیے جو تیاریاں مطلوب ہوتی ہیں وہ کس کس نے کر رکھی ہیں۔ ہمارے پاس پٹرول کتنے ہفتوں کا ہے۔ راشن کتنے عرصے کا ہے۔ گولہ بارود۔ اسلحہ کتنے مہینوں کا ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ ہمارے فوجی افسر۔ جوان۔ سب جذبۂ جہاد سے سرشار ہیں۔ قربانیوں کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ہم وہ مومن تو نہیں جو بے تیغ بھی لڑتا ہے ۔ ہم ریاست مدینہ والوں اور غزوئوں کے جانبازوں کے قدموںکی خاک بھی نہیں ہیں۔ ان کے جذبے کا تو کروڑواں حصّہ بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ ہم اقتصادی طور پر تو حالت امن کے لیے بھی خودکفیل نہیں ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم سفارتی طور پر بہت کمزور ہیں۔ اس میں اس حکومت کا قصور نہیں ہے۔ ہماری یہ حالت 1979سے چلی آرہی ہے۔ جب سے ہم نے جہاد کو پرائیویٹائز کیا ہے۔ کل کے مجاہدین آج کے دہشت گرد ہیں۔ پاکستان کا پاسپورٹ 1979سے خطرات اور خدشات کی علامت بنا ہوا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت اقدامات کے بعد بھی پاکستان کا رنگ بالکل صاف نہیں ہوا ہے۔ آوازیں یہ آنی چاہئیں کہ صنعت کار یہ عزم ظاہر کریں کہ ہمارے کارخانے چلتے رہیں گے۔ ہم مملکت اور فوج کی دوسری دفاعی لائن بنیں گے۔ محنت کشوں کا نصب العین یہ ہو کہ ہم مشین کا پہیہ نہیں رکنے دیں گے۔ تاجر اوردکاندار حلفیہ اعلان کریں کہ وہ ملاوٹ نہیں کریں گے۔ پیمائش اور وزن میں ہیرا پھیری نہیں کریں گے۔ وزیر۔ سیکرٹری۔ کلرک۔ سب یہ عہد کریں کہ اب وہ رشوت نہیں لیں گے۔ علمائے کرام منبر و محراب سے یہ کلمۂ حق ادا کریں کہ وہ مسلمانوں میں فرقہ بندی کو ہوا نہیں دیں گے۔ قومی سیاسی پارٹیاں آزاد جموں و کشمیر میں اپنی تنظیمیں ختم کرنے کا اعلان کریں تاکہ کشمیری آزادی سے اپنی قسمت کا فیصلہ کرسکیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website