counter easy hit

تیسری فہرست

بین سونیگر نیویارک کی ایک لیبارٹری میں کام کرتا رہا۔ پوری زندگی لوگوں کے طبی ٹیسٹ کرتے کرتے ریٹائرمنٹ سامنے آگئی۔تقریباًتین دہائیاں ایک جگہ کیسے گزریں،پتہ ہی نہیں چلا۔دفترکے آخری دن اعزازمیں ایک تقریب ہوئی۔مالک سے لے کرتمام ملازمین نے بہت سے تحفے دیے۔لیبارٹری کے اندرآخری سرکاری دن تھا۔خوشی اورغم کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بین سونیگر ٹیکسی لے کرگھرکی طرف روانہ ہوا۔بڑے آرام سے گھرپہنچا۔

ٹیکسی سے تحفے نکالنے لگاتوایک گاڑی،تیزرفتارسے آئی۔پوری طاقت سے سونیگرسے ٹکرائی اورنزدیک کھمبے میں جالگی۔بین بیہوش ہوگیا۔آنکھ کھلی تودنیاتبدیل ہوچکی تھی۔حادثہ سے ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی اور نچلا دھڑ اور ایک بازومفلوج ہوچکا تھا۔ بین کوسمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیاکرے۔اس کے ساتھ یہ حادثہ کیسے ہوابلکہ کیوں ہوامگراب کچھ نہیں ہوسکتاتھا۔

چھ ماہ اسپتال میں رہنے کے بعدجب گھرمنتقل ہواتوایک وہیل چیئرپرتھا۔پے درپے تکلیف دہ آپریشنوں سے چھلنی۔ایک زندہ یاشائدنیم زندہ لاش بن چکاتھا۔اس کے تینوں بچے شادی شدہ تھے اور نیویارک سے منتقل ہوچکے تھے۔بیوی دفترمیں کام کرتی تھی۔صبح جاتی تھی اورشام گئے واپس آتی تھی۔بین سونی گرتمام دن وہیل چیئر پر موجود رہتا تھا۔ ہرطریقے سے اپاہج۔بہترین علاج کی بدولت اس کے ہاتھ چلنے شروع ہوچکے تھے۔شام کوبیوی وہیل چیئرکودھکیلتی ہوئی گھرسے تھوڑاسادورایک پارک میں لیجاتی تھی۔بین مکمل طور پر خاموش ہوچکا تھا۔ چارپانچ ماہ بے وجہ سے گزرگئے۔نہ زندگی کاکوئی مقصداورنہ زندہ رہنے کی کوئی آرزو۔

ایک دن شام کوبین بیوی کے ساتھ پارک میں حسب معمول گیا۔وہاں اس کی ملاقات وہیل چیئرپربیٹھے ہوئے ایک ضعیف آدمی سے ہوئی۔بین اس کے کپڑے دیکھ کرحیران رہ گیا۔اس نے تھری پیس سوٹ پہنا ہوا تھا۔ ہر بات پرقہقہے لگارہاتھا۔بین نے انتہائی تہذیب سے اپنے جیسے مفلوج آدمی سے پوچھاکہ تم اتنے خوش کیوں ہو۔جواب حیران کن تھا۔کہنے لگاکہ فالج کے بعداس نے صرف وہ کام کرنے شروع کردیے ہیں،جواسے خوشی دیتے ہیں۔

بین آرام سے واپس آیا۔ کاغذپنسل لی اور تین فہرستیں بنائیں۔ کاغذ پر تمام کام لکھے جو کرتارہاتھا۔دوسری فہرست تھی، جو کر نہیں پایا تھا۔تیسری فہرست ان کاموں کی تھی جواسے ذاتی طور پر خوشی اورمسرت دے سکتے تھے۔بین حیران رہ گیاکہ پوری زندگی ایسے کام نہیں کرپایا،جوصرف اسے خوشی دے سکتے تھے۔تیسری فہرست نے سونی گرکی زندگی تبدیل کر دی۔ اگلاپورادن لگاکران کاموں کی فہرست بنائی جوصرف اسے ذاتی طورپراچھے لگتے تھے مگروہ خاندان، بچوں کے مستقبل اورسرکاری مصروفیت میں فراموش کرچکاتھا۔بین نے اپنی باقی زندگی اپنے لیے گزارنے کافیصلہ کرلیا۔سب سے پہلے فیصلہ کیاکہ وہیل چیئربدلے گا۔

فی الفور ایک ایسی وہیل چیئر لے لی،جومکمل طورپراس کے حساب سے چلتی تھی۔ چیئرکے اندرہرطرح کی سہولت موجودتھی۔بٹن دباتے ہی  ہرطرف مڑجاتی تھی اورسیدھابھی چلناشروع کردیتی تھی۔ اب بین خودپارک جاتاتھا۔بچوں کے قریب جاکران سے باتیں کرتا تھا۔ہرآنے جانے والے شخص کودیکھ کر مسکراتا تھا۔جاتے ہوئے ٹافیوں کاایک پیکٹ لے جاتاتھا۔بچوں سے باتیں کرتاکرتا ٹافیاں تقسیم کرتاتھا۔بچے اب باقاعدگی سے اس کا انتظارکرتے رہتے تھے۔بین دوگھنٹے کے لیے بھول جاتا تھا کہ اس کانچلادھڑمفلوج ہے۔یہ اس کی پہلی کامیابی تھی۔

ہفتہ بعدبین گاڑیوں کے دفترمیں گیا۔سیلزمین سے دریافت کیاکہ کمپنی اس کی جسمانی حالت کے مطابق کوئی گاڑی بناسکتی ہے جوصرف اورصرف ہاتھوں سے چل سکے۔ سیلزمین نے وثوق سے بتایاکہ کمپنی تین ہفتے میں گاڑی مہیا کرسکتی ہے۔بین نے بینک سے قرضہ لے کرکمپنی کوپیسے جمع کروائے۔تین ہفتے بعد گھرگاڑی پہنچادی گئی۔اس میں ایکسیلیٹرسے لے کربریک تک ہاتھوں سے چلائی جاسکتی تھی۔ تھوڑی سے تربیت کے بعد بین نے گاڑی چلانی شروع کردی۔اب سارے کام خودکرتاتھا۔گھرکاسوداسلف لے کر آتا تھا۔شاپنگ پرجانے کے لیے اسے کسی کی ضرورت نہیں تھی۔

گاڑی کے پچھلے حصے میں وہیل چیئررکھتاتھااورروانہ ہوجاتا تھا۔چل نہیں سکتاتھامگر سارے کام خودکرنے کی صلاحیت پیداکرلی تھی۔صبح لائبریری میں جا کر اخبار اور رسالے پڑھتا تھا۔گیارہ بجے کے قریب ورزش کرنے کے لیے ایک جمنیزیم چلاجاتاتھا۔پیروں کی کوئی ورزش توکرنہیں سکتا تھا۔ مگر ہاتھوں سے وزن اُٹھانے کی تمام ورزش کرلیتاتھا۔اس نے تیرنے کافیصلہ کیا۔کوچ نے بتایاکہ تیرنے کے لیے ٹانگوں میں دم ہوناچاہیے۔بین نے کہاکہ ہاتھوں سے آہستہ آہستہ تیرنا سکھادے۔

کوچ نے مشورہ کے بعد ایک خصوصی پروگرام ترتیب دیا۔ایک ماہ کی ٹریننگ کے بعدبین اس قابل ہوگیا کہ اکیلاتیرسکتاتھا۔لوگ اسے غورسے دیکھتے تھے مگراسے کسی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔اس نے تیرناشروع کردیا۔ ورزش سے بین مکمل طورپرتبدیل ہوگیا۔محسوس کیاکہ منفی خیالات اب اس کے نزدیک تک نہیں آتے۔یہ سب کچھ اس کی دوسری بڑی کامیابی تھی۔دفترمیں جب سابقہ باس کو پتا چلا کہ بین اب ہرجگہ اکیلا جاتاہے اور تمام کام کرتاہے،توبین کو کام پرواپس لینے کافیصلہ کیا۔سابقہ ادارے کے چیف کی ذاتی درخواست پربین نے سوچنے کے لیے وقت مانگا۔فون کے جواب میں صرف یہ کہاکہ تین دن چاہیے تاکہ فیصلہ کر سکے۔

بین نے تیسری فہرست نکالی۔ اس فہرست میں ایسے تمام کام درج تھے جوپہلی دوفہرستوں میں موجودنہیں تھے۔یہ وہی کام تھے جواس کے لیے ذاتی اہمیت اورخوشی کاباعث تھے۔ بین کواس میں اپنی نوکری دوبارہ کرنے کاکوئی نکتہ نظرنہیں آیا۔بین نے سابقہ باس کوفون پرکہاکہ اس کے پاس نوکری کرنے کے لیے کوئی فالتووقت نہیں ہے۔ انکار سنکر پورا دفتر حیران ہوگیا۔مگربین کومکمل طورپرپتہ تھاکہ کیاکرنا چاہتا ہے۔اس نے بچوں کی شادیاں کرڈالی تھیں۔ گھر چھوٹا سا تھا مگرذاتی تھا۔بیوی بھی ملازمت کرتی تھی۔بین کوپینشن اوردیگرذرائع سے معقول رقم ہرمہینے مل جاتی تھی۔سابقہ نوکری پرنہ جانے کا حیران کن فیصلہ اس کی تیسری کامیابی تھی۔

بین نے اپنی زندگی کوبہترکرنے کے لیے ایک نیا شوق اپنا لیا۔درمیانے درجہ کاکیمرہ خریدااورفوٹوگرافی سیکھنے کاکورس کر لیا۔جب اسے تصویریں کھینچنے پردسترس ہوگئی توبین نے کمال کردیا۔پارک میں ہنستے کھیلتے بچوں کی تصویریں لینا شروع کردیں۔خیال آیاکہ بڑے عرصے سے سورج طلوع ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ایک دن علی الصبح اُٹھااورگھرسے باہرایک بڑے کھلے میدان میں چلا گیا۔ سورج کونکلتے دیکھ کرخوبصورت ترین تصویریں بنالیں۔اسی طرح غروب آفتاب کی بھی انتہائی دیدہ زیب فوٹوگرافی کی۔

بین جب اپنی کھینچی ہوئی تصویریں دیکھتاتھاتواس کے اندرخوشی کاایک سیلاب سا آ جاتا تھا۔ افسوس صرف ایک تھاکہ یہ سب کچھ پہلے کیوں نہیں کیا۔ورزش، اورفوٹوگرافی سے بین مکمل طور پر ایک مختلف آدمی بن گیا۔لگتاتھاکہ اپاہج ہونے نے کسی مشکل میں نہیں ڈالا۔خوبصورت تصاویراورفوٹوگرافی بین کی زندگی کی چوتھی کامیابی تھی۔ایک دن اپنے بچوں کو بلا کر کہاکہ الاسکامیں جاکر دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئر دیکھنا چاہتا ہے۔ سارے خاندان نے مخالفت کی بتایاکہ وہاں پہنچنابالکل آسان نہیں۔ کئی مقامات پربحری جہازمیں جانا پڑتا ہے۔ پھر اکیلے سفر۔مگربین نے اب اپنے فیصلے خود کرنے شروع کردیے تھے۔

ہوائی جہازپرجونسی یوپہنچا جو الاسکا کا صدر مقام ہے۔ ہوٹل میں کمرہ لیااورجسمانی صورتحال کے مطابق ایک گائڈلے لیا۔بین ہوبڑڈ گلیشئر دیکھنا چاہتا تھا۔ ہوبرڈ دنیا کے عظیم ترین گلیشئرزمیں سے ایک ہے اوراس پرچار صدیوں پرانی برف جمی ہوئی ہے۔۔یہ گلیشئرصرف اورصرف بحری جہازمیں بیٹھ کر دیکھا جاسکتا تھا۔بین نے بحری جہاز میں”سپیشل لوگوں”کے لیے مختص کیبن میں جگہ لے لی۔ ہوبرڈگلیشئرکے نزدیک آکر کپتان نے اعلان کیاکہ گلیشئر آچکا ہے۔ عملہ نے اسے بہت روکاکہ اکیلے عرشہ پرنہیں جاناچاہیے مگروہ بحری جہازکے آگے والے حصہ میں بیٹھ کر ہوبرڈگلیشئر دیکھنا چاہتاتھا۔

برف کومحسوس کرنا چاہتا تھا۔ کسی سے ذکربھی نہیں کرناچاہتاتھاکہ دراصل یہ تودہ شوق ہے جسکے لیے اپاہج ہونا پڑا۔عام زندگی کی دوڑمیں تواپنے لیے کوئی کام ہی نہیں کرسکا۔عملہ نے اس کے شوق کے سامنے ہتھیارڈال دیے۔ بین نے کیمرے سے ہوبرڈگلیشئرکی نایاب تصاویر کھنچیں۔جہازکے ساتھ دوڑتی ہوئی مہیب وہیل مچھلیوں کو بھی کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرلیا۔دودن کے بحری سفر میں بین نے سمندرمیں چھپے مگر قدرے باہر نکلے ہوئے نایاب گلیشئردیکھے جوتصوربھی نہیں کرسکتا تھا۔

گلیشئرکے ساتھ مسلسل ٹوٹتے ہوئے برف کے تودوں کے نظارے کو بھی محفوظ کرلیا۔الاسکاسے واپس آیاتودنیاکے خوبصورت ترین مناظر ذہن اورکیمرے میں محفوظ تھے۔ کمال یہ تھاکہ تمام کام بین نے بغیرکسی سہارے کے سرانجام دیے تھے یہ اس کی پانچویں ذاتی کامیابی تھی۔بین نے اپنی زندگی کے تمام واقعات ایک ڈائری کے طورپرلکھ کرشائع کر دیے۔لوگوں کوسمجھایاکہ زندگی کی بھاگ دوڑمیں اپنی ذات کو بھی اتنی ہی اہمیت دینی چاہیے،جتنی نوکری، اولاد، خاندان یاپیشہ کو دی جاتی ہے۔خاموشی سے اپنی زندگی پرنظر ڈالیے۔ فیصلہ کیجیے۔ ناموافق حالات کواپنی ذہنی طاقت سے کیسے عبور کرنا ہے۔

بین کی طرح زندگی میں تین فہرستیں بنائیں۔ ایک وہ کام جو روٹین میں کرتے رہتے ہیں۔جیسے ڈاکٹرہیں تو مریض دیکھنے ہیں۔تاجرہیں توکاروبارسے زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے خیال میں رہینگے۔اوراسی طرزکے دوسرے کام،جوہم سب عام زندگی میں کرتے ہیں۔اس کے بعددوسری فہرست بنائیے۔وہ تمام کام جوآپ کرنہیں پائے۔اس پرضرورغورکیجیے۔مگراب تیسری لسٹ بنائیے۔ یعنی وہ تمام کام جوکسی کونقصان دیے بغیر،صرف آپکوخوشی دیتے ہیں۔حیران رہ جائیں گے کہ آپ نے تیسری فہرست پر کبھی غورہی نہیں کیا۔

کاروبار،سرکاری نوکری اورخاندان میں  پوراوقت اتنے مصروف رہے کہ خودکووقت ہی نہ دے پائے۔تیسری فہرست کوکہیں محفوظ کرلیجیے۔جب بھی موقعہ ملے،وہ کام کیجیے جوصرف اورصرف آپ کے لیے ہوں۔بین کی طرح کسی حادثے کاانتظارنہ کیجیے۔تیسری فہرست کا پہلاکام ہی زندگی بدل دیگا۔آپکوزندگی کاوہ احساس ہوگا،جوکہیں گم ہوچکاتھا۔اس احساس کوضرورواپس لائیے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website