counter easy hit

قصہ نمبر پلیٹ کا

آپ چاہیں تو مدعا علیھان یا مکتوب علیھا میں ہمارے حکمرانوں کو بھی شامل کر سکتے ہیں ۔

حضور والا گزارش بحضور اقدس یہ ہے کہ ویسے تو ہمیں بہت پہلے سے پتہ تھا اور ہے کہ جب کوئی گاڑی وغیرہ پشاور یا خیبرپختونخوا سے پنجاب کی حدود میں داخل ہوتی ہے تو اس کی چیکنگ ہوتی ہے۔ تھوڑا سا اندازہ ہمیں پہلے ہے اس لیے جب پنجاب میں داخل ہوتے ہیں تو اپنے اور اپنی گاڑی کے ’’کاغذات ‘‘ کئی روز پہلے سے نہایت احتیاط کے ساتھ درست کر لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی اٹک پار کرتے ہی جگہ جگہ چیکنگ ہوتی ہے‘ چیک کرنے کے بعد ہم سے تو نہیں لیکن ہمارے بیٹے سے جو ڈرائیور ہوتا ہے پوچھتے ہیں پستول وغیرہ تو نہیں ہے؟

جواب ہم دیتے ہیں کہ بھئی ہم کاغذ قلم والے لوگ ہیں ہتھیاروں سے ہمیں کیا واسطہ؟ لیکن وہ سنی ان سنی کرکے دوبارہ تلاشی لیتے ہیں۔ کچھ بھی نہیں نکلتا توکہتے ہیں نمبر تو پشاور کا ہے۔ ہم جواب دیتے ہیں کہ ہم بھی تو پشاور کے ہیں۔ پھر بعض اوقات مک مکا پر بات ختم ہوتی ہے۔ یوں اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں‘ پھر وہاں کسی نہ کسی طرح صحیح سلامت واپس پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن اس مرتبہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔

ہم کوئٹہ سے ایک سیمینار اٹینڈ کرنے کے بعد اسلام آباد ائر پورٹ پر اُترے تو بیٹا حسب ہدایت گاڑی لیے کھڑا تھا ۔ لیکن چہرے سے پریشان تھا۔ پوچھنے پر بتایا کہ ائیرپورٹ آتے ہوئے ٹریفک پولیس والے نے مجھ سے ڈرائیونگ لائسنس لے لیا ہے۔ پوچھا کیوں؟ بولا پشاور کے نمبر پلیٹ پر ، مزید پوچھا تم نے کوئی قانون کی خلاف ورزی تو نہیں کی، یہ ہم نے ویسے ہی پوچھا ورنہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ ٹریفک قوانین کا پابند ہے ۔ لے دے کر وہی بات ہوئی  یعنی پشاور کی نمبر پلیٹ کا قصور نکلا۔

بہر حال معاملہ لے دے کر طے ہو گیا اور دو گھنٹے کی اس مہم میں اتنا ہوگیا کہ کوئٹہ میں ہمارا سینہ خراب ہوگیا تھا ارادہ تھا کہ اسلام آباد پہنچتے ہی دوا لے لیں گے لیکن اس ڈر سے کہ کہیں دوا لیتے ہوئے پشاور کا نمبر پلیٹ پھر نہ پکڑا دے ۔ اب حضور والا آپ سے صرف اتنا پوچھنا ہے کہ کیا واقعی پشاور کی نمبر پلیٹ اتنی مشکوک ہوتی ہے؟ یا پشاور کسی اور ملک میں واقع ہے اگر ایسا ہے تو ہماری تو کوئی سنتا نہیں آپ خود حکومت سے کہیے کہ اس کا علاج تجویز کر دے کیونکہ بغیر آنے جانے کے تو گزارہ ہو ہی نہیں سکتا۔ہم نے آپ کو اپنی فریاد پہنچا دی ہے ۔

اگر میری مودبانہ گزارشات نہ سنی گئی تو پشاور کے نمبر پلیٹ کے شکوک مٹانے کے لیے ہم وکلاء سے مشورہ کرکے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔بات یہ کہ ہم نے ’’ پاکستانی پشتون ‘‘ کا پتہ نہیں پوچھا تھاکہ حضرت کہاں پائے جاتے ہیں اس کا ویئر اباؤٹ کیا ہے اور یہ اپنی گاڑی پر پشاور کا نمبر پلیٹ لگاتا ہے یا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہم نے اپنے پریس یا میڈیا سے متعلق ہونے کا حوالہ کیوں نہیں دیا ۔اور اس وجہ کے پیچھے دو کہانیاں ہیں ایک تو یہ کہ ایک مرتبہ ہم جناب جواد نذیر اور عقیل یوسفزئی کے ساتھ عقیل کے گاؤں جارہے تھے جو مدئن سوات سے ذرا آگے آتا ہے۔ ہم تو خیر ’’ ایویں ‘‘ تھے لیکن عقیل یوسفزئی کو اپنے میڈیائی ہونے کا بہت زعم تھا ۔

اس لیے جب قانون نافذ کرنے والوں کی پہلی چوکی آئی تو اس نے سامنے کھڑے ہوئے قانون نافذ کرنے والے سے کہا کہ ہم ’’میڈیا‘‘ کے لوگ ہیں‘ قانون نافذ کرنے والے  نے یہ سنتے ہی اشارا کیا کہ گاڑی سائیڈ میں کرلیں ہم سائیڈ میں ہو گئے جب کہ باقی سڑک پر عام لوگ بڑے مزے سے آجارہے تھے ۔قانون نافذ کرنے والے نے ہمیں سائیڈ میں کر کے کہا کہ اوپر جاکر اپنی شناخت کروالو ، جس ’’ اوپر ‘‘ کی طرف اس نے اشارہ کیا وہ پہاڑ پر دوتین منازل کی اونچائی پر ایک دفتر نما کمرہ تھا جس تک لکڑی کی سیڑھی جتنی سیڑھیاں بنی ہوتی تھیں وہاں پہنچے تو قانون نافذ کرنے والوں نے ہمارے سارے کاغذات دیکھ کر رجسٹر میں اندراج کیا اور کوئی آدھے گھنٹے بعد ہمیں جانے کی اجازت ملی ۔

ہم نے اسے خصوصی کرم فرمائی کی وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ آگے خطرناک علاقہ ہے اس لیے ہم آپ کی ’’ حفاظت ‘‘ کے لیے یہ اندراجات ضروری سمجھتے ہیں اور یہ بات آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ رجسٹر میں اندراج سے ہماری حفاظت کیسے ہو گئی ؟آگے ہم نے عقیل یوسفزئی سے اپنے منہ کی زپ بند کرنے کے لیے کہا اور جب بھی قانون نافذ کرنے کی کوئی چوکی آتی ہم بلا رکے کھڑکی سے سر نکال کر کہہ دیتے کہ ہم پیاز آلو کے تاجر ہیں ایک دو مقامات پر ٹماٹر اور انڈوں کا نام بھی لیا کسی نے نہ تو ہمیں روکا نہ قانون نافذ کیا اور نہ ہماری’’ حفاظت‘‘ کے لیے اندراج کیا۔

دوسرا موقع اس وقت پیش آیا جب ہمارے بیٹے اپنے ایک رشتہ دار کو سی آف کرنے کے لیے پشاور ائیر پورٹ گئے تھے‘ تھوڑی دیر بعد ان کا فون آیا کہ قانون نافذ کرنے والوں نے ہمیں روک لیا ہے کہ تمہاری گاڑی کے شیشے پر ’’ پریس ‘‘ کا سٹکر کیوں لگا ہے۔ انھوں نے بہت کچھ واضح کیا کہ یہ ہمارے والد کی گاڑی ہے جو بہت پرانا میڈیائی میڈ ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے نہیں مان رہے تھے چنانچہ ہم نے انھیں کہا کہ متعلقہ قانون نافذ کرنے والے سے ہماری بات کراؤ ۔بات ہوئی تو ہم نے بڑی نرمی بلکہ مجاجت سے گزارش کی کہ آپ کا کام تو سیکیورٹی ہے کہ کوئی خطرناک مواد ایئر پورٹ نہ لے جایا جا سکے اور ہمارے خیال میں یہ ’’ پریس ‘‘ کا سٹکر تو کسی بھی اینگل سے خطرناک مواد میں نہیں آتا ۔ قانون نافذ کرنے والے نے نہایت ہی کڑک دار آواز سے کہا کہ ہمارا ہر چیز سے واسطہ ہے ہم چاہیں تو تمہارے پیٹ کے اندر بھی تلاشی لے سکتے ہیں۔

جس چیز کو چاہیں سیکیورٹی کے نام پر ضبط یا پکڑ سکتے ہیں پھر اس نے کہا کہ تم پریس کے آدمی ہو تو صرف اس وقت گاڑی پر پریس لکھوا سکتے ہو تم خود اندر نہ ہو تو پریس کا سٹکر لگانا غیر قانونی ہے۔ بعد میں گاڑی واپس آئی تو سٹکر کو بھونڈے طریقے سے مٹانے کی کوشش میں ونڈ اسکرین کا ستیا ناس کر دیا گیاتھا۔تب سے ہم نے قسم کھائی کہ چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے اپنے ساتھ نہ تو ایسی کوئی نشانی رکھیں گے جس سے ہمارا کوئی جائز یا ناجائز تعلق میڈیا سے ثابت ہوسکے اور وہی زپ جو ہم نے عقیل یوسفزئی کے منہ پر کھینچی تھی اپنے منہ پر بھی کھینچ لی بلکہ مزید احتیاط کے طور پر پڑھنے کے لیے جو اخبار ساتھ رکھتے ہیں اسے بھی قانون نافذ کرنے کے کسی مقام پر اپنے نیچے یوں چھپا لیتے ہیں جیسے چرس یا افیون ہو بلکہ دھماکا خیز مواد ہو یا ہمارے گناہوں کی پوٹلی ہوں آخر احتیاط بھی کوئی چیز ہے ۔