counter easy hit

مولانا سمیع الحق کا قتل بھارت کی سرجیکل اسٹرائیک ہے ، مگر کیسے ؟ صف اول کے صحافی کے انکشاف نے نئی بحث چھیڑ دی

لاہور (ویب ڈیسک) سمیع الحق کی شہادت پہ گو میں نے الحمدللہ تو کہہ دیا، کیونکہ یہ کہنا انداز مسلمانی ہے، اور عربوں میں کسی کے فوت ہونے پر الحمدللہ کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ متوفی اللہ کے پاس جنت چلا گیا ہے، اور یہ دنیائے فانی جس کو نہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے پسند فرمایا
نامور کالم نگار نواز خان میرانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ ہی اللہ کے پیارے محبوب ﷺ نے، مگر میرے دل میں ان کا جو احترام اور عزت تھی اس کی وجہ سے دل کو جو درد و قلق محسوس ہوا، وہ بھی قدرتی امر ہے، کہ انسان دوسرے انسان کے گزرے ہوئے روزوشب اور تعلقات کے لمحات کو صدمات میں بدلتے دیکھنا شروع کردیتا ہے، اور دل یہ گواہی دیتا ہے کہ یہ بھارتی سرجیکل سٹرائیک تھی، چاہے اس میں مقتول کے ملازمین ہی کیوں نہ ملوث ہوں میں نے اسلامیہ کالج سول لائنز سے بھی تعلیم حاصل کی تھی، اس وقت ہمارے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر جناب محمد سرور صاحب تھے، لمبے چوڑے قدوقامت اور بھرے جسم کے مگر سمارٹ، اور گورے رنگ کے استاد گرامی انتہائی خوش مزاج وخوش گفتار وخوش رفتار بھی تھے، ان کے لیکچر میں کھلنڈرے لڑکے بھی، ان کی باتوں اور لیکچر میں اس قدر کھوجاتے، کہ تعجب ہوتا ان کی کلاس میں طلبا کی حاضری ہمیشہ پوری ہوتی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے کالج میں سرورنام کے دوپروفیسرز تھے، دوسرے پروفیسر انگریزی کے تھے، گو ان کا انداز تکلم ان سرورصاحب سے مختلف تھا،
وہ اپنے ہاتھ پیچھے باندھ کر گھومتے پھرتے یعنی چلتے پھرتے، اور طلبا کے درمیان لیکچر دیتے اور طلبا کو موضوع کی مناسبت سے اس قدر دلچسپ معلومات کے ساتھ اور ہلکا پھلکا ”صورت درس“ دیتے، کہ قارئین آپ یقین کریں، کہ دوسرے کالجوں سے اور اپنے کالج سے طلباءدوران لیکچرز بھی ان سے اجازت لے کر کلاس میں بیٹھ کر ان عظیم اساتذہ کے وجد آفرین خیالات وافکار سے ”محظوظ“ ومحفوظ ہوتے ، سرور صاحب بتایا کرتے تھے کہ میں جوانی میں بڑا لڑاکا تھا اور دشمن کے بارے میںبتا دیتا تھا کہ معاذاللہ یہ شخص قرآن شریف کے بارے میں نازیبا کہہ رہا ہے یہ کہنے کے بعد میں کھسک جاتا، اور لوگ اس کو بے تحاشا مارنا شروع کردیتے تھے۔چند روز پیشتر عیسائی خاتون آسیہ والے واقعے پہ جو کشت وخوں کا بازار گرم ہوا، کچھ عرصہ قبل محفوظ کیا ہوا فیصلہ عین غازی علم الدین شہیدؒ اور ممتاز قادری ؒ کے عروس کے مواقع پہ فیصلہ سناکر اسے بری کردیا گیا، جسے چند روز بعد تک ملتوی آسانی سے کیا جاسکتا تھا، میں نے ججوں کو استخارے کرتے بھی دیکھا ہے اور گڑاگڑاکر دعائیں مانگتے بھی دیکھا ہے ،حقائق اور واقعات ، آسیہ والے سانحہ کے پیچھے کیا تھے،
اس حوالے سے جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب کے سامنے سابق صدر پاکستان جسٹس محمد رفیق تارڑ کی مثال سامنے تھی، انہیں کے شہر ڈیرہ غازی خان کے بلاک نمبر 3میں ایک ہی گھر میں کچھ لوگ قتل کردیئے گئے تھے، غالباً ایف آئی آر میں کچھ بنیادی باتیں خلاف حقائق تھیں، جن کی چھان کی خاطر اس وقت کے سیشن جج محمد رفیق تارڑ صاحب تھے، یہ خود بلاک میں گئے ، نمازجمعہ وہاں کی مشہور مسجد جہاں یہ وقوعہ رونما ہوا تھا، پڑھی ، لوگوں سے احوال واردات معلوم کیا، اور باتوں ہی باتوں میں ان سے قاتل کے بارے میں بھی معلومات حاصل کیں، لوگوں کو تو پتہ نہیں تھا کہ یہی جج ہیں جن کے پاس یہ کیس ہے، اس واردات والی گلی اور پورے محلے میں مشہور تھا کہ گھر کے کسی فرد ہی نے یہ قتل کیا ہے، اور شاید پرچہ درج کرانے والا ہی قاتل تھا، اور اس طرح سے صحیح مجرم تختہ دار پر لٹکایا گیا اب اس حساس معاملے میں، آسیہ والا فیصلہ سنانے والا کوئی ایک جج موقعہ واردات پہ نہیں جاسکتا تھا، کیونکہ یہاں تو درجنوں آدمی خاک وخون میں نہلا دیئے گئے ہیں، میں نے پہلے بھی یہی عرض کی تھی کہ ہمارے وزیراعظم یہ نہ سمجھیں کہ ان کے مخالفین کمزور ہیں، اور نہ ہی وہ یہ بیان دہرایا کریں،
کہ اپوزیشن کمزور ہے اب پتہ چلا کہ ایک ”ملا معذور“ نے پورے ملک کے اداروں کو معذور کرکے رکھ دیا، اب دوسری غلطی وہ یہ نہ کریں، کہ تحریک لبیک والوں کو پرچے کٹوا کر مقدمات میں پھنسوا دیں، کیونکہ جن لوگوں کا واقعی نقصان ہوا ہے، کسی کی موٹرسائیکل کسی کی گاڑی، اور کسی کیجائیداد کو نقصان پہنچا ہے، کیا ان لوگوں کے دھرلینے سے موٹرسائیکل اور کاروں والوں کو آپ ان سے پیسے لے کر گاڑیاں اور نئی موٹرسائیکل دلوا دیں گے ؟ اگر تو تحریک انصاف ایسا انصاف کرسکتی ہے تو بڑے شوق سے کرے، ورنہ ان عناصر کی گوشمالی کے لیے کوئی قانون منظور کرایا جائے۔ ایک اور سوال جو ذہن میں آتا ہے، وہ ادارے جن کی آئینی ذمہ داری ہی ملک میں امن وامان کا نفاذ ہے، وہ بیک وقت اپنی کمزور وناقص حکمت عملی کی بدولت کیوں ناکام رہے ؟ اگر تھوڑا سا بھی ”شوق تیموری“ موجود ہو، تو سب کے خلاف کارروائی کرنا، عین عدل ہے۔ مجھے میرے ایک دوست حضرت مولانا محترم مختار عالم صاحب نے فون کیا، بلکہ میں نے انہیں فون کرکے کہاکہ اگر اس سانحے کے بارے میں کچھ معلومات حقیقی ، ان کے پاس ہوں، تو ان سے رہنمائی چاہی، مگر انہوں نے اس سے تو قطعی لاعلمی کا اظہار کیا، البتہ ملک میں جو تین دن دھما چوکڑی رہی ،
اس حوالے سے انتہائی رنجیدہ وسنجیدہ تھے، اور مجھ سے ”مختارعالم“ ہونے کے باوجود عاجزانہ وفقیرانہ انداز میں ”استدعا“ کیکہ آپ مولانا خادم حسین رضوی کے خلاف کیوں نہیں لکھتے، اس وقت آپ کا ”کلمہ حق“ کہاں چلا جاتا ہے، میں نے ان سے مودبانہ عرضکی ،کہ آپ بھی تو ملک کے مستند لکھاری ہیں، آپ کی زبان کیوں گنگ، اور قلم کانپنے لگتا ہے؟میں نے ان کے علم میں اضافہ کیا، اور بتایا کہ کلمہ حق ، تو جابر سلطان کے سامنے کہا جاتا ہے، اور الحمد للہ میں سچے مومن کی طرح سلطان وقت کے خلاف لکھتا رہتا ہوں اور ایک اور بھی پکے مسلمان کی خصوصیت میرے اندر موجود ہے، کہ میں لڑائی کو دل میں برا سمجھتا ہوں، اب آپ مولانا خادم حسین رضوی کے بارے میں دیکھ لیں میں ان کے دھرنوں، لاحول ولا، دھرنے کے الفاظ میں واپس لیتا ہوں، بانی دھونس ودھرنا، ناراض نہ ہو جائیں، مولانا کے احتجاج خون ریزی کو دل میں برا سمجھتا ہوں، حتیٰ کہ انہیں فائدہ نظریہ ضرورت بھی دینے سے گریزاں ہوں۔ دراصل میں اپنے والدین اور دودھ شریکوں کا نام چوکوں، اور چوراہوں میں کورس کی صورت بغیر راگ رنگ کے بے سرے گلوکاروں کے منہ سے نہیں سننا چاہتا۔
ویسے آج کل کے دور میں جب عوام کو وارننگ دے کر مشرف کے بیان کو دہرایا جاتا ہے کہ ہم آپ کو ایسی جگہ سے ہٹ کریں گے جہاں آپ کا خیال بھی نہیں ہوگا، اور چین کے دورے کی کامیابی کی اطلاع یوں دی جارہی ہے کہ خود سیاستدان ہوکر سیاستدانوں کو خلا میں بھیجنے کیتجویز دی جارہی ہے جہاں کے لیے ریڑھی، جس کو شرپسندوں نے لوٹ لیا تھا، ریڑھی والے بچے کو بھی اپنی پریس کانفرنس میں دکھانا، اخلاق باختہ لوگوں کی بے حسی کی مشتہر کرنا بہت اچھا ہے، وہاں اگر کھوتے پہ بارات لے کر جانے والے کو بھی دکھا دیا جاتا، تو انصاف کا ترازو جھکنے نہ پاتا۔ تین دن کی تخریب کاری کا نقصان ڈیڑھ ارب سن کر میرادل یہ مثبت خبر سن کر باغ باغ ہوگیا کہ خوا مخواہ پاکستان کو دیار غیر میں غیروں کے سامنے پاکستان کو بدعنوان اور غریب ثابت کیا جارہا ہے ماشاءاللہ پاکستان تو امیر ملک ہے جہاں اربوں کا نقصان ہوتا ہے وہاں کھربوں کا فائدہ بھی ہوتا ہوگا۔ قارئین پہلے پاکستانی حکمران چین کے تندرست وتوانا صدر سے ”موٹی تازی“ امداد لے کر لوٹتے تھے مگر اب تو مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر لگتا ہے کہ کسی کالم نگار نے لکھا ہے جس میں کمال کی نہیں معمول کی لفاظی ہے، مثلاً دونوں ملک دفاعی تعاون میں اضافہ، فوجی مشقیں، عوامی سطح پہ رابطہ چینی قیادت کی پاکستان آمد 2005کے دوستی کے معاہدے پہ کاربند، اور وائٹ کالر کرائم کا ماڈل دینے پر آمادہ ہوگیا۔ چین میں بدعنوانی کی سزا مجرموں کو پھانسی پہ لٹکانا تھی۔ ہمت وجرا¿ت ، اور اگر عدل کرنا ہے تو چند بدعنوان سیاستدانوں کو پھانسی پہ آپ بھی لٹکا دیں، بدعنوانی خود بخود قابو میں آجائے گی۔