counter easy hit

وہ شخص جس کے پاس بیٹھوں تو میرا دل کرتا ہے بس بیٹھا ہی رہوں ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اجمل نیازی

لاہور(ویب ڈیسک)برادرم فاروق الطاف کے انہی کے جیسے صاحبزادے سلمان فاروق مجھے اورشاہد رشید کو ایک بہت معروف سڑک سے گزارتے ہوئے پیر محمد سلیم قاسمی صاحب کے پاس لے گئے۔ ایک بہت صاف شفاف شخصیت کے مالک سفید لباس میں ملبوس محبوب شخصیت جناب پیر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ایک چھوٹا سا کمرہ ان کی موجودگی سے ایک روحانی آسودگی کا گہوارہ لگ رہا تھا۔ معروف صحافی اجمل خان نیازی اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ بہت شفیق اور رفیق جذبات سے بھرے ہوئے تھے۔ برادرم فاروق الطاف ان کے بہت قائل ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر مجھے اور شاہد رشید کو ان کی خدمت میں بھیجا۔ سلمان فاروق ہمیں ان کے پاس لے گئے۔ پہلی نظر میں وہ ولی اللہ لگے۔ ان کا طرز گفتگو دل میں اترجانے والا تھا۔ جب تک ہم ان کے پاس بیٹھے رہے وہ دین دنیا کے حوالے سے بہت اچھی باتیں کرتے رہے۔ صاف لباس میں ایک شفاف مزاج کے وہ خود ایک نرالے آدمی ہیں۔ جی چاہتا تھا کہ بس ان کے پاس بیٹھے رہیں وہ بولتے رہیں اوردلوں کے دروازے کھولتے رہیں۔ بہت دیر ہم ان کے پاس رہے وہاں سے آنے کو جی بھی نہیں چاہتا تھا اتنی روانی اورآسانی سے انہوں نے کلام کیا۔ جس پر ہمکلام ہونے کا یقین ہوتا تھا۔ ہم خاموش تھے مگر ہمارے اندر سے کوئی بول رہا تھا اور وہی ان سے ہمکلام تھا۔بڑے دنوں کے بعد ایسے کسی شخص کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا اور یہ آرزو پیدا ہوئی کہ ان کے ساتھ کبھی کبھی ملاقات ہونا چاہئے۔ مجھے یاد ہے کہ بہت سال پہلے ہمارے گاﺅںموسیٰ خیل ضلع میانوالی میں ہمیں کوئی دم کرتا تھا۔ ہم مطمئن ہو جاتے کہ ہمیں کوئی دوا مل گئی ہے اور ہم ٹھیک ہو جائیں گے۔

مجھے یاد ہے بہت پہلے ہمارے گاﺅں میں ایک بزرگ تھے۔ شیخ محمود صاحب ان کے والد صاحب شیخ عثمان صاحب بھی واقعی بزرگ تھے۔ شیخ عثمان سے میری والدہ محترمہ نے قرآن پڑھا ہے۔ میں نے اتنا شفیق سادہ اور منکسرالمزاج شخص عمر بھرنہیں دیکھا۔ لوگ ان کو اپنے گھر بلا لیتے وہ آتے اور دم کر دیتے دم کرنے والا خود چل کر گھر آ جاتا تھا اور بندہ ٹھیک ہو جاتا۔ انہیں جو کچھ دے دیا جاتا معمولی اور غیر معمولی وہ قبول کر لیتے۔ انہوں نے کبھی انکار نہ کیا نہ کبھی کچھ مانگا۔ وہ غریب سے غریب آدمی اور امیر سے امیر آدمی کے گھر خوشی خوشی چلے جاتے۔ آبادی کے بہت لوگ ان کی ایک جیسی عزت کرتے وہ غریبوں کے گھر بھی مزے سے بیٹھتے جو مل جاتا خوشی سے کھا لیتے نہ ملتا تو بھی ان کا شکریہ ادا کرتے اور اللہ کا شکر بھی ادا کرتے۔ امیروں کے گھر بھی اسی کیفیت میں چلے جاتے اور چلے آتے۔ میں نے اتنی عزت پوری آبادی میں کسی کی نہ دیکھی۔ایک دفعہ میرے دادا بابا جان خان انہیں کہیں لے گئے۔ ایک گھوڑی تھی کبھی وہ خود بیٹھتے اور کبھی ان کو بٹھاتے۔ جب وہ گھوڑی کی لگام پکڑ کر چلتے بابا جی بہت کہتے کہ آپ اوپر گھوڑی پر آ جائیں۔ وہ کہتے تھے کہ چنگے آنے پے آں (اچھے آ رہے ہیں) وہ خود گھوڑی سے اترتے اور انہیں بٹھاتے اور خود پیدل چلتے جب تھک جاتے تو ان سے کہتے کہ اب آپ گھوڑی سے اتر آئیں تو وہ کہتے چنگے آنے پے آں۔ اسی طرح کئی میلوں کا فاصلہ طے کیا جاتا اور منزل آ جاتی۔ وہ ترو تازہ نظر آتے اور خدا کا شکر ادا کرتے۔ ہرحال میں خوش رہنا ان کی فطرت تھی۔آج پیر کرم کی شکل میں شیخ محمود صاحب کا عکس نظر آیا۔ ہم اس کے برعکس زندگی گزارتے گزارتے تھک گئے۔مگر ہم اس کے عادی ہو گئے ہیں۔ اے خدا ہم پر رحم فرما ہمیں اچھی اور سوہنی زندگی عطا فرما اور ہماری دنیا میں دعا کرنے والے لوگوں کو موجود رکھ۔ دعا اور دوا میں فرق مٹا دے۔ آمین۔ مجھے توفیق دے کہ میں بزرگوں کو تلاش کرتا رہوں اور اس کے لئے سلمان فاروق جیسے دوست ملاتا رہے جو امریکہ میں ایک عمر گزار کر بھی ایک درد مند اور محبت کرنے والے دوسروں کی خدمت کرنے والے آدمی ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہماری دنیا میں ہیں۔ ایسے لوگوںکی تعداد میں اضافہ کرنا۔ آمین، شاہد رشید ایسے اعلیٰ دوست ہیں کہ ان کی وجہ سے دوستوں کے ہجوم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اے اللہ ہمیں گم ہونے سے بچا آمین۔ ہم ہمیشہ اللہ والوں کی تلاش میں رہیں۔