counter easy hit

مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد کمرے میں توڑ پھوڑ اورمشروب کی بوتلیں ۔۔۔تمام افواہوں کا ڈراپ سین کر دینے والی خبر آ گئی

لاہور (ویب ڈیسک) ضیا شاہد نے پوچھا کہ ابھی تک پولیس انکوائری کر رہی ہے اور خصوصی ٹیم نہیں بنی اگرچہ آپ کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ آئی ایس آئی کی ٹیم اس ہائی پروفائل قتل کے کیس کی تحقیقات کرے یا کم از کم کوئی ایسی جس طرح سے عدالتی معاملات میں جے آئی ٹی بناتے ہیں ،
اس معاملے میں کوئی بھی سپیشل انکوائری ٹیم ہونے چاہئے جس میں آئی ایس آئی کا نمائندہ بھی شامل ہو آئی بی کا بھی شامل ہو اور اس طرح سے کوئی جو کریڈیبلٹی ہو اب تک کی تحقیقات کا کوئی نتیجہ فی الحال سامنے نظر نہیں آیا۔ اور ابتدائی رپورٹ تک سامنے نہیں آئی اور اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ جو ماحول اور مزاج وہاں دیکھ رہے تھے لوگوں کا۔ اس کی روشنی میں آپ کیا اکوڑہ خٹک کے سارے ان کے حامی ان کے چاہنے والے ان کے مداح، ان کے شاگرد کیا ان کے قتل کی تحقیقات جو اب تک جتنی ہوئی ہے کیا وہ اس سے مطمئن ہیں۔عبداللہ گل نے کہا کہ ان کے شاگرد مداح تحقیقات سے مطمئن نہیں ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی بات جو میں اپنی پریس کانفرنس میں کہی ہے کہ اس میں یہی کہا کہ اگر وہ فرانزک فوٹو گرافر وہاں گیا تھا اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر لیک ہو گئیں۔ پولیس کی سب سے بڑی ناکامی موجود ہے۔ اس کا مطلب ہے پولیس کے اندر کوئی کالی بھیڑ موجود ہے۔ جو یہ خبریں دے رہی ہے اس کا مطلب ہے کہ شواہد کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ پیسہ جو ہے وہ ایک بڑی چیز ہے اس ٹائم پر بھارت اور افغانستان کی کابل کٹھ پتلی حکومت جو ہے وہ پیسہ جو ہے وہ کسی بھی قیمت پر خریدنا جانتے ہیں۔ ماضی کے اندر بھی دیکھا گیا اس سے ہٹ کر مطمئن تو نہیں ہیں اس لئے میں چیف آف آرمی سٹاف سے درخواست کی کہ جناب آئی ایس آئی کی ایک ٹیم کو جو ہے اس کو تشکیل دیا جائے تا کہ اس کی جو ہے کریڈیبلٹی شامل ہو، آئی بی کو شامل ہونا چاہئے لیکن ابھی پولیس نے جو دو باتیں۔ ایک تو کوئی وضاحت نہیں کی کہ یہ تصاویر کیسے باہر آ گئیں۔ دوسری اس کے اندر یہ بات ہے کہ یہ کہا گیا کہ ان کے ملازمین کو گرفتار کر لیا گیا۔ضیا شاہد نے کہا کہ سوشل میڈیا پر پوری دنیا میں جو تصاویر پھیلائی گئی ہیں پوری دنیا میں اس وقت وہ پھیلی ہیں ان کے کمرے کی تصویریں اور توڑ پھوڑ کی جو اس میں وہاں ہوا اور اس ضمن میں بہت سے افسانے بھی بنائے گئے، کہانیاں بھی گھڑی گئیں۔ مولانا کی عمر 80 سال سے اوپر ہی تھی اس عمر میں تو گناہگار سے گناہگار آدمی جو ہے ،
وہ بھی بہت ساری دنیاوی چیزوں سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اس سے الگ ہوتا ہے مولانا تو اتنے بڑے عالم دین تھے کہ 80 سال کی عمر سے زیادہ شخص کے حوالے سے جھوٹی کہانیاں پھیلانا اور غلط قسم کے الزامات اور جس نے بھی وہ تصویریں بنائی ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا وہ اصلی ہیں اور اگر اصلی ہیں بھی تو یہ کتنا آسان ہے کہ مولانا کو شہید کرنے کے بعد دو بوتلیں چھوڑ کر ایک بوتلیں وہاں مشروبات کی رکھ دیں تو اس سے ہر گز یہ بات ثابت نہیں ہوتی اس قسم کی حرکت میں تو مولانا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کا تو کوئی شرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس مسئلے پر آپ کی ان کے صاحبزادے سے باقی قریبی دوستوں سے بات چیت ہوئی کہ یہ پوری دنیا کس طرف شروع ہو گئی ہے کہ اسی سال کے اوپر ایک بزرگ اور ملی یکجہتی کے ایک علمبردار اور عالم دین کے حوالے سے اس طرح کی نامناسب، نازیبا الفاظ میں ٹوئیٹر کئے جا رہے ہیں اور بہت پھیلایا جا رہا ہے۔ یہ تو ایک ٹیپیکل این جی او کلچر جو پاکستان میں ہے اور پوری دنیا میں ہے جو اسلام کے خلاف جو لوگ ہیں وہ اس کو بنیاد بنا کر اس کے گرد قصے کہانیاں گھڑ رہے ہیں۔ اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں۔