counter easy hit

”چاند وزیراعظم اور سِتارے ساتھی!“

 اثر چوہان

جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ نے جنابِ وزیراعظم کی طرف سے کابینہ کو  کرنے کے حوالے سے کیس کی سماعت کے بعد وفاق کی طرف سے پیش کی گئی نظر ثانی کی درخواست خارج کردی اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ ۔ ”وزیراعظم (کابینہ ) سے ( بالا) نہیں ہیں اور وہ مالی مسائل سے متعلق   ( تنہا پرواز) نہیں کرسکتے، اِس لئے کہ ۔ ” آئین میں کہیں ذکر نہیں کہ وزیراعظم یا وفاقی حکومت کو کوئی ایک رکن ”رولز آف بزنس “ 1973ءکو آئین سے  ( برتر ) قرار دے ۔ قبل ازیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے فاضل جج صاحبان کو بتایا کہ ” 1956-58 ءکے تجربات کی وجہ سے آئین سازوں کا مقصد  ۔ تھا۔ اِس پر جسٹس میاں ثاقب نثار نے پوچھا کہ ۔ ” کیا وزیراعظم کابینہ کی منظوری کے بغیر کوئی فیصلہ کرسکتا ہے؟“۔

آئین سازی اور اس میں ترامیم پارلیمنٹ کا حق ہے اور آئین کی تشریح سپریم کورٹ کا ۔ کا تصور بادشاہت ہے ۔ جنرل ایوب خان ، جنرل محمد یحییٰ خان ، سِولین چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل ضیاءاُلحق اور جنرل پرویز مشرف  تھے ۔بھٹو صاحب نے 1973ءکا آئین منظور کرایا ۔ اُنہوں نے قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی عددی اکثریت کی طاقت سے ”متفقہ آئین“ میں سات ترامیم کرائیں اور جب حزبِ اختلاف کے قائدین نے احتجاج کِیا تو انہیں قومی اسمبلی کے ایوان سے باہر پھنکوا دِیا۔ جنرل ضیاءاُلحق نے کہا تھا کہ ۔ ” آئین کیا ہے؟۔ چند صفوں کی کتاب، جِسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں“۔ جب تک 1973ءکے آئین میں آٹھویں ترمیم ختم نہیں ہُوئی ۔ صدرِ مملکت  تھے ۔ 1973ءکے آئین کے تحت پہلے منتخب صدر چودھری فضل الٰہی  تھے ۔ وزیراعظم بھٹو کا بیرونی دورے سے واپس آنے کا پروگرام تھا ۔ چودھری صاحب اُن کے استقبال کے لئے ائیر پورٹ جانا چاہتے تھے ۔ اُنہیں ایوانِ صدر کے اعلیٰ افسران نے بتایا کہ ۔ ” سر ! یہ پروٹوکول کے خلاف ہے ۔ آپ نہیں جاسکتے! “۔ تو صدرِ مملکت نے کہا ۔ ” یار ! کِتے بھٹو صاحب بُرا نہ منا جاون!“
وزیراعظم بھٹو حکومت اور اپنی پارٹی کے  تھے ۔ اُنہیں برطرف کِیا گیا اور قتل کے مقدمے میں پھانسی دی گئی۔ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے دور میں بننے کی کوشش کی ۔ اُنہیں بھی برطرف اور جلا وطن کِیا گیا ۔ صدر آصف علی زرداری بھی تھے اور اُن کے دونوں وزرائے اعظم سیّد یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف کی وہی حیثیت تھی جو جنرل ضیاءاُلحق کے دَور میں وزیراعظم محمد خان جونیجو کی اور صدر پرویز مشرف کے دور میں میر ظفراللہ جمالی ‘ چودھری شجاعت اور جناب شوکت عزیز کی۔
پانامہ لِیکس کے انکشافات کے بعد سپریم کورٹ میں حزبِ اختلاف کی درخواستوں کی سماعت ، مسلم لیگ ن میں متبادل وزیراعظم کے بارے میں چہ مگوئیوں اور سینیٹر پرویز رشید سے وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے قلمدان کی واپسی کے بعد وزیراعظم نواز شریف کی پوزیشن پہلے ہی بہت کمزور ہو گئی ہے اور سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے کے بعد وہ  نہیں رہے۔ اُس وقت تک جب کابینہ کے کسی اجلاس میں کابینہ کے تمام ارکان بیک وقت یہ نعرہ نہ بلند کریں کہ ….
” قدم بڑھاﺅ نواز شریف ، ہم تمہارے ساتھ ہیں“
برطانیہ کے وزیراعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ۔ (یعنی۔ ستاروں کے جھرمٹ میں چاند) ۔ اگر پاکستان میں بھی برطانوی طرز کی جمہوریت ہوتی تو وزیراعظم نواز شریف کو بھی  ( چاند) اور اُن کی کابینہ کے ارکان کو کہا اور سمجھا جاسکتا تھا ۔ مَیں حیران ہُوں کہ برطانوی دانشوروں نے برطانوی عوام کو  (سُورج یا آفتاب کیوں نہیں کہا؟) ۔ سُورج۔ جو حرارت اور روشنی کا منبع ہے اور چاند بھی سُورج سے ہی روشنی لیتا ہے ۔ ہمارے یہاں جنابِ بھٹو کے بعد کئی حکمرانوں کو سُورج سمجھا گیا ۔ سُورج کو سوا نیزے پر بھی دیکھا گیا اور سُورج گرہن بھی۔ شاعر نے کہا تھا ….
حُسن والے، حُسن کا انجام دیکھ
ڈُوبتے سُورج کو وقتِ شام دیکھ
عربی زبان میں ” وزیر“ کے لغوی معنی ہیں ۔ بوجھ اٹھانے والا ۔ اِس لحاظ سے ” وزیراعظم “ کا مطلب ہُوا ۔ بہت زیادہ بوجھ اٹھانے والا ۔ اگر ہماری کابینہ کے سبھی ارکان ذمہ داری سے امورِ مملکت کا اپنا اپنا بوجھ اٹھا لِیا کریں تو جنابِ وزیراعظم کو بہت کم بوجھ اٹھانا پڑے ۔ کم از کم مجھے تو وزیراعظم صاحب کے ” خلوص“ پر اعتبار ہے۔ ممکن ہے کہ وہ خود کو ظاہر کرنے کے لئے نہیں بلکہ قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہوں؟۔ مَیں نے ” آکسفورڈ انگلش ، اردو ، ڈکشنری “کل پھر دیکھی ۔  کے معنی ہیں ۔ ” وزیراعظم ۔ منتخب حکومت کا سربراہ ۔ بادشاہ اور ریاست کا سب سے بڑا وزیر“۔ اب مَیںکیا کروں؟۔ ہماری سپریم کورٹ تو پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ” پاکستان میں بادشاہت ہے“۔    کے تحت تو کوئی بھی عہدیدار ہوتا ہے ۔
( کابینہ) کا مفہوم ہے ۔ ” بزرگ وزیروں کی مجلس جو حکومت کی پالیسی وضح کرنے کی ذمہ دار ہو “۔ یہ انگریز قوم بھی خوب ہے۔ ” خانے دار الماری جِس میں چیزیں رکھی یا سجائی گئی ہوں “۔ اُسے بھی  ہی کہتے ہیں ۔ اِس لحاظ سے محض سجاوٹ کے لئے کابینہ بنانے کا کچھ نہ کچھ فائدہ تو ضرور ہوتا ہوگا ۔ ایک بھی ہوتی ہے ۔ جِس کا مطلب ہے با اثر غیر سرکاری افراد کا گروہ“ یعنی صدر / وزیراعظم صاحبان با اثر سرکاری افراد اپنی کچن کیبنٹ میں شامل کرلیں تو کوئی اُن کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟۔ قدیم ہندوستان میں کچن کیبنٹ کے ارکان کو بادشاہ کے ” رتن “ کہا جاتا تھا ۔ ” رتن “ کے معنی ہیں بہت ہی قیمتی پتھر ۔ ”الماس ، زمرد، نیلم ، یاقوت، لہسنیہ ، پُکھراج، گو میدک ، موتی اور مونگا“۔ اِس کا فیصلہ بادشاہ ، صدر یا وزیراعظم کو کرنا ہوتا ہے کہ کون شخص رتن ہے اور کچن کیبنٹ میں شامل کئے جانے کے قابل!۔ قیامِ پاکستان کے وقت ملکہ¿ ترنم نور جہاں کا ایک فلمی گیت بہت مقبول ہُوا تھا جِس کا مُکھڑا ( مطلع ) تھا ….
تُو کون سی بدلی میں ، میرے چاند ہے آ جا
تارے ہیں، میرے زخمِ جِگر، اِن میں سما جا
اُن دنوں الیکٹرانک میڈیا نہیں تھا۔ اِس لئے ہمارے چاند (وزیراعظم میاں نواز شریف) پر یہ مُکھڑا صادق نہیں آتا ۔ البتہ جو لوگ وزیراعظم صاحب کو دَور سے دیکھتے ہیں وہ گا سکتے ہیں کہ ….
بھاویں بول تے، بھاویں نہ بول
وے چنّا، وَس اکھّیِاں دے کول
مجھے یقین ہے کہ جب وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بعد منتخب وزیراعظم چاند بن کر اپنے ساتھی ستاروں ( کابینہ کے ارکان کے ) ساتھ مِل جل کر بھوکے ، ننگے اور بے گھر عوام کو اپنی روشنی سے منور کریں گے تو ” آسمانوں اور زمین کے نور“
(خیر اُلرازقین) کو بہت خوشی ہوگی۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website