counter easy hit

زندہ ہیں صحافی

قارئین کرام! آج کچھ بات کرتے ہیں علاقائی صحافیوں کو درپیش مسائل کی. صحافت ایک مقدس پیشہ ہے. صحافی The journalist is aliveملک یا ریاست کا آئینہ ہوتے ہیں. علاقائی مسائل کو اعلی حکام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. صحافی مظلوم کا ساتھ دیتے ہیں. مظلوم عوام کا سہارا ہوتے ہیں. لیکن اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے نجانے کتنے لوگوں سے دشمنیاں پال لیتے ہیں نجانے کتنی دھمکیاں سہہ لیتے ہیں نجانے کتنے صحافيوں کو قتل کیا گیا. کتنے صحافيوں کو انصاف ملا. صحافی معاشرے کی آنکھ ہوتے ہیں. مقامی لوگوں کی جان صحافیوں میں ہوتی ہے. لیکن حکومت نے ابتک کتنے علاقائی صحافیوں کا تحفظ کیا. کتنے صحافیوں کو سیکورٹی دی گئی. کتنے علاقائی صحافیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی. میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں اپنے ان بھائیوں کو کہ جنہوں نے حق پر رہ کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا.بے شک یہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں کہ جو ڈٹے رہے ان روپوں پہ نہ بکے. ہاں میں مانتا ہوں کہ جیسا کہ ہر شعبے میں کالی بھیڑیں موجود ہیں ایسے ہی کچھ قلم فروش صحافت کی آڑ میں اپنی دوکان سجائے ہوئے ہیں. انہی کی وجہ سے صحافت بدنام ہوکر رہ گئی ہے. یہ ذرد صحافت کے شوقین صرف ذر پر نظر جمائے رکھتے ہیں. ان کے سامنے عزت سے زیادہ پیسے کی اہمیت ہے. جہاں ایک طرف یہ قلم فروش ہیں تو دوسری جانب خراج تحسین ہے بے باک صحافیوں کو کہ جنہوں نے غریبی و امیری کو اہمیت نہ دی.ظالم خواہ جتنا ہی طاقتور کیوں نہ تھا اسے ظالم کہا اور مظلوم خواہ جتنا ہی غریب کیوں نہ ہوتا اسے مظلوم ہی کہا جاتا.
یہ وجہ بھی رکھتی ہے مجھے لوگوں سے بہت دور
پیسوں کے عوض سچ کو بدلنا نہیں آتا
بےباک صحافیوں میں سرفہرست نام فرزند روڈو سلطان بابائے صحافت بابا لعل خان ندیم کا بھی ہے کہ جنہوں نے عرصہ 20 سال صحافت کے لیے وقف کیے اور وفات کے وقت بھی وہ ایک نجی چینل اور اخبار سے منسلک تھے. لیکن سلام اس ہیرو کو کہ جس پر اتنے طویل عرصے میں ایک بار بھی کسی قسم کا کوئی الزام نہیں لگا. انہوں نے صحافت کو عبادت سمجھا. دولت کی حرص کو اپنے آپ سے دور رکھا. محنت مزدوری کرکے ہمیشہ حلال کھایا. اس کی گواہی اہلیان روڈو سلطان سے لی جاسکتی ہے. بے شک ان کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے کہ ظالم ظالم ہوتا ہے خواہ وہ کتنا ہی عزیز ہو اور مظلوم مظلوم ہوتا ہے خواہ وہ کتنا ہی تنگ دست کیوں نہ ہو. آج کل تو علاقائی صحافیوں کو دشمن کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے. ان کو اداروں کی طرف سے تنخواہ تک نہیں جاتی. ہمت ہے ان کی کہ جو تنخواہوں کے بغیر بھی کام کررہے ہیں. ان صحافیوں کو بندہ ناچیز کی طرف سے خراج تحسین. حکومت کو چاہیے کہ ان کی حوصلہ افزائی کرے. بابائے صحافت بابا لعل خان ندیم جیسے بے باک صحافی بھی اس ملک میں موجود ہیں بے شک یہ سرمائیہ ملت ہیں. اگر ہم علاقائی صحافیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور ان کے ہمراہ ظلم اور رشوت کے خلاف ڈٹے رہیں. تبدیلی ہم سب نے مل کر لے آنی ہے. انشاء اللہ حق کا بول بالا کرنا ہے