counter easy hit

وفاقی محتسب ِ اعلیٰ کا ادارہ ہی بروقت انصاف مہیا کرسکتا ہے

انصاف اور احتساب کا نظام انسانی معاشرے میں ابتدائے آفرینش ہی سے چلا آرہا ہے‘ باہمی آویزش، چپقلش اور قضیے انسانی فطرت کی پیداوار ہیں‘ سماجی جرائم کے سدِباب کے لیے اخلاقیات کے ضوابط ہردور میں منضبط ہوتے رہے ہیں جو بعد میں محلے، پنچایت اور کچہری کی حد تک پھیل کر قانون وانصاف کا درجہ اختیار کرگئے۔

آج کے ریاستی قوانین انھی بنیادی اخلاقی ضابطوں کی جدید شکل ہیں‘ جب تک انصاف کا نظام نچلی سطح تک محدود رہا اس کا دائرہ کار اتنا ہی کامیاب وموثر رہا‘ جیسے جیسے معاشرہ ارتقائی مراحل طے کرتا گیا، عمرانی اور مدنی مدارج میں تبدیلیاں رونما ہوتی گئیں، ویسے ویسے انصاف کے حدود ودوائر بھی بدلتے گئے۔

موجودہ دور کا احتسابی ڈھانچہ کلی طور پر ریاستی انصرام کا مرہونِ منت ہوکر رہ گیا ہے اور آبادی میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے ریاستی انصاف کا معیار اسقدر پست ہوچکا ہے کہ سستے اور فوری انصاف کا تصور ہی ناپید ہوچکا ہے‘ اس پر مستزاد بالادست طبقوں کے اجارہ کے باعث انصاف صرف طاقتور کے گھر کی باندی بن کر رہ گیا ہے۔ عدالتوں میں لاکھوں کروڑوں مقدمات برسوں سے التواء میں پڑے ہیں۔ عام شہری کی سستے اور فوری انصاف تک رسائی کے لیے دنیا کے دیگر 75 ممالک کی طرح پاکستان میں بھی وفاقی محتسب کا ادارہ قائم کیا گیا۔

وفاقی محتسب اہم قومی ادارہ ہے‘ یہ 1983ء میں قائم ہوا، اس کا مقصد چھوٹے چھوٹے معاملات میں لوگوں کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی ہے۔ پہلے پہل اس ادارہ کا سربراہ سپریم کورٹ کا جج (ریٹائرڈ) یا ہائیکورٹ کا چیف جسٹس ہوا کرتا تھا۔ مشرف دور میں آئین معطل کرکے اس ادارے کا اختیار ایک کیبنٹ سیکریٹری کو دے دیا گیا۔

جنرل ضیاء الحق کو ایک کریڈٹ تودینا پڑیگا کہ اس نے وفاقی محتسب کا تقرر کرکے طاقتور اداروں کی ظلم وزیادتی کے خلاف دادرسی کا ایک ایسا نظام متعارف کروایا جس کے تحت لوگ،واپڈا، سوئی گیس، ٹیلیفون سمیت تمام وفاقی محکمہ جات کے خلاف ان کے دروازے پر دستک دے سکتے اور چند دنوں کے اندر اندر انھیں انصاف مل جاتا،یعنی وفاقی محتسب کے پاس افسر شاہی کے ستائے ہوئے عوام ایک سادے کاغذ پر درخواست تحریر کرکے ارسال کرکے بغیر کسی وکیل کے اپنا مسئلہ حل کروانے کی پوزیشن میں آ گئے۔

وفاقی محتسب کے ابتدائی ماہ وسال میںتو ہم نے بڑے بڑے دبنگ قسم کے افسروں کی پتلونیں اترتی اور گیلی ہوتی دیکھیں، کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ وفاقی محتسب کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کرتا، موجودہ حکمرانوں نے اس کی افادیت اور اس کے پرگرام و مقاصد سے روگردانی کرنا شروع کردی‘ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب وفاقی محتسب کے ایڈوائزر کے روبرو محکموں کی جانب سے اسکیل سات کے ملازم پیش ہو رہے ہیں جس کے باعث غریب عوام خوار ہو رہے  ہیں۔

اسلام آباد سے اب پریشان کن اطلاعات آرہی ہیں‘ سب سے حیران کن اطلاعات یہ ہیں کہ ایوانِ صدر میں عام عوام سے تعلق رکھنے والے ممنون حسین بحیثیت صدر مقیم ہیں، اگر تو اس ایوانِ صدر میں سردار فاروق لغاری، جنرل پرویز مشرف یا آصف علی زرداری جیسے سرمایہ دار اور جاگیردار مقیم ہوتے تو پریشانی کی کوئی بات نہ ہوتی اور نہ ہی حیرانی والی کوئی بات تھی، حیرانی اور پریشانی تو اس بات کی ہے کہ عام پاکستانی جو عوام کو درپیش مسائل اور مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے۔

اس کے حوالے سے اطلاعات گردش میں ہیں کہ ایوانِ صدر نے وفاقی محتسب کے آفس کو محکمہ سوئی گیس کے خلاف عوامی شکایات وصول کرنے اور ان پر کسی قسم کی کارروائی اور پیش رفت کرنے سے منع کردیا ہے‘ایوانِ صدر سے وفاقی محتسب کے دروازے سوئی گیس کی شکایات کے حوالے سے عوام کے لیے بند کردینے سے عام شہری جو ظلم و زیادتی کی چکی میں پس رہے تھے۔

اب اس محکمہ کے رحم و کرم پرہیں اور دفاتر میں چکر لگا کر ذلیل و رسوا ہونے پر مجبور ہیں لہٰذا حکومت کو وفاقی محتسب کے کام میں بے جا مداخلت کرنے سے بازرہنا چاہیے اور وفاقی محتسب کو محکمہ سوئی گیس کے ظلم و زیادتی کے خلاف عوامی شکایات کے ازالہ کے لیے اپنا کام جاری رکھنا چاہیے، اسی طر ح ہی عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم ہوسکتا ہے، بصورتِ دیگر عوام میں اضطراب اور تشویش پیداہونا یقینی سی بات ہے۔

یہ بات بھی سچ ہے کہ وفاقی محتسب کے فیصلوں کے خلاف اپیل بھی صرف صدر ِمملکت ہی سننے کے مجاز ہیں، اگر صدرِ مملکت کو لگے کہ وفاقی محتسب کے فیصلوں میں کوئی کمی رہ گئی ہے یا کسی فریق کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ اپیل کو منظور یا مسترد کرکے اس زیادتی کا مداوا کرسکتے ہیں لیکن وفاقی محتسب کو سرے سے عوامی شکایات کی شنوائی سے روک دینا قرینِ انصاف نہیں۔

گزشتہ دنوں وفاقی محتسب اعلیٰ سلمان فاروقی سی پی این ای کے صدر جناب ضیاء شاہد کی دعوت پر لاہور تشریف لائے اور انھوں نے سی پی این ای کے عہدیداروں کو جو محتسب اعلیٰ کے ادارے کی کارکردگی بتائی وہ ہمارے لیے واقعی ناقابلِ یقین حد تک غیر معمولی تھی‘ اگر اسی ادارے کو مزید سہولتیں اور اختیارات دے دیے جائیں تو پاکستان میں عوام کی تقریباً تمام شکایات کا ازالہ ہوسکتا ہے۔

موجودہ وفاقی محتسب اعلیٰ سلمان فاروقی نے ہمیں محدود وسائل کے باوجود ادارے کی جو بھی مثالی کارکردگی بتائی وہ واقعی قابلِ قدر ہے مگر زمینی حقائق کا ادراک رکھنے والوں کے کچھ تحفظات بھی تھے۔سلمان فاروقی کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے وفاقی محتسب اعلیٰ کا عہدہ 2013 میں جب سنبھالا تو 75ہزار شکایات معرضِ التواء میں تھیں۔

سب سے پہلے وفاقی محتسب اعلیٰ کے قوانین میں اصلاحات تجویز کیں اور پارلیمنٹ نے ایک نیا قانون منظور کیا کہ ہر شکایت کا فیصلہ 7دن میں کیا جائے گا‘ 2014 کے آخر تک ہر شکایت کا فیصلہ 60دن میں کیا جاتا رہا اور تمام زیرالتواء شکایات کا فیصلہ بھی کرلیا گیا‘ 2015 میں شکایات کو مزید تیزی سے نمٹانے کا فیصلہ کیا گیا اور اب ہر شکایت کا فیصلہ صرف 45 دن میں کرکے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جارہا ہے۔

وفاقی محتسب نے ملک کے 36اضلاع میں عوام کو ان کے گھر کی دہلیز پر انصاف فراہم کرنے کے لیے ایس سی آر (سوِفٹ کمپلینٹ ریزولیوشن) یعنی ’’بروقت ازالہ شکایات‘‘ کے نام سے ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا جہاں ہر شکایت کا فیصلہ 15دن میں کیا جارہا ہے‘ وفاقی محتسب کے اس انقلابی قدم کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں سراہا جارہا ہے جب کہ حکومت کی منظوری کے بعد ملک کے تمام اضلاع اور تحصیلوں میں بھی متذکرہ پائلٹ پروجیکٹ کو توسیع دی جائے گی۔

وفاقی محتسب کے ادارہ نے تین سالوں میں 2لاکھ 27ہزار شکایات کا فیصلہ کیا‘ صدرِ پاکستان کو کی جانے والی اپیلوں کی شرح 0-37 فیصد سے بھی کم رہی جب کہ صدرِ پاکستان کے 90فیصد فیصلوں کو بحال رکھا گیا‘ وفاقی اداروں کے خلاف جہاں شکایات کی تعداد زیادہ تھی وہاں خصوصی توجہ دے کر شکایات کمشنر مقرر کیے گئے جن میں قومی وصوبائی کمشنر برائے چلڈرن، بیرون ملک پاکستانیوں، پنشنرز اور فاٹا کے لیے شکایات کمشنر قابلِ ذکر ہیں۔

فاٹا میں ایک خاتون سمیت تین شخصیات کو شکایات کمشنر مقرر کیا گیا جہاں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فاٹا کے لوگ وفاقی اداروں یا پولیٹیکل ایجنٹ کے خلاف شکایات کرسکتے ہیں‘ وفاقی محتسب کی خصوصی ہدایت پر بیرون ممالک مقیم 81لاکھ پاکستانیوں کی شکایات کے ازالہ اور ان کو سہولیات بہم پہنچانے کے لیے پاکستان بھر میں 8ہوائی اڈوں (اسلام آباد، کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور، فیصل آباد، ملتان اور سیالکوٹ) میں ون ونڈو ڈیسک کا قیام ہے جہاں پر وفاقی اداروں کے افسران چوبیس گھنٹے موجود رہتے ہیں جو تارکینِ وطن کی شکایات کو ایک ہی چھت تلے فوری حل کررہے ہیں۔

بیرون ممالک تمام پاکستانی سفارتخانوں کے سربراہ بھی ہفتہ میں ایک دن عام پاکستانیوں کی شکایات سننے کے لیے موجود رہتے ہیں جب کہ آن لائن سسٹم پر بھی فوری کارروائی ہورہی ہے اور وہاں سفارتخانوں میں فوکل پرسن بھی مقرر کردیے گئے ہیں‘ سپریم کورٹ کی ہدایت پر وفاقی محتسب نے جیلوں کے نظام کی اصلاح اور قیدیوں کے لیے بہتر سہولیات کی فراہمی خصوصاً قیدی بچوں اور خواتین کو درپیش مشکلات کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔

جس نے مختلف جیلوں کے دورے کرکے بچوں کے لیے سویٹ ہوم، قیدیوں کے لیے مفت تعلیم، مناسب خوراک کی فراہمی کاخاص طور پر اہتمام کیا‘ اس میں متعدد یونیورسٹیاں تعاون کررہی ہیں‘ وفاقی محتسب نے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے وفاقی اداروں کو ہدایت کی کہ وہ ملازمین کی پنشن کے کیسز ریٹائرمنٹ سے پہلے مکمل کریں اور ان کی تکمیل کے لیے فوکل پرسن مقرر کریں‘ بہ ایں ہمہ اے جی پی آر کو بھی پنشن کیسز تین دن کے اندر نمٹانے کی ہدایت کی۔

موجودہ محتسبِ اعلیٰ کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ ادارے نے اپنے قیام کے فوراً بعد 1983ء میں محض 587 درخواستوں کو نمٹایا ‘ 1998 میں تقریباً 37ہزار درخواستیں نمٹائی گئیں۔ بعدازاں تقریباً ہر سال بیس پچیس ہزار درخواستوں کو نمٹایا جاتا رہا مگر 2013 میں نمٹائی جانے والی درخواستوں کی تعداد 68 ہزار سے زائد تھی‘ دسمبر 2013 میں درخواستوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ تیرہ ہزار کے لگ بھگ تھی جن میں سے 68 ہزار کو نمٹا دیا گیا‘ عوام کے لیے بجلی اور گیس کی تقسیم کار کمپنیاں ’’بڑے ملزم‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

سب سے زیادہ شکایات عوام کو انھی سے ہیں‘ 2013 میں 5694 درخواستیں لیسکو کے خلاف دائر ہوئیں جب کہ پیسکو کے خلاف ساڑھے تین ہزار، سکھر الیکٹرک کے خلاف ڈھائی ہزار، ملتان الیکٹرک کے خلاف پونے دو ہزار، فیصل آباد الیکٹرک کے خلاف 982، حیدرآباد الیکٹرک کے خلاف 707، گوجرانوالہ الیکٹرک کے خلاف 570، اسلام آباد الیکٹرک کے خلاف 346 اور کوئٹہ الیکٹرک کے خلاف تین شکایات پیش کی گئیں‘ یوں برقی رو کی تقسیم کارکمپنیوں کے خلاف 2013 میں سولہ ہزار سے زائد افراد نے وفاقی محتسب کے آسان طریقہ کارکا فائدہ اٹھایا۔

زیادہ تر شکایات کا تعلق اووربلنگ، ناجائز جرمانے، کنکشنوں کی بحالی یا خراب میٹر کی تبدیلی میں تاخیر سے تھا‘ 2009 میں بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کے خلاف سوا گیارہ ہزار شکایات کو سنا گیا جب کہ 2010 میں 19ہزار، 2011میں 21 ہزار، 2012میں 14ہزار اور 2013 میں 16ہزار شکایات پیش کی گئیں‘ یوں برقی رو کی تقسیم کارکمپنیوں نے گزشتہ چار سال میں عوام کو شکایات کے علاوہ لوڈشیڈنگ سے بھی نوازا۔جہاں تک سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس کمپنیوں کے خلاف شکایات کا تعلق ہے تو 2009 میں ڈھائی ہزار، 2010 میں ساڑھے تین ہزار، 2011 میں 4668، 2012 میں 4176 اور 2013 میں 4665 درخواستوں کو سنا گیا۔

سوئی نادرن اور سدرن گیس کمپنیوں کے خلاف بھی عوام کی شکایت میں گزشتہ پانچ سال میں اضافہ ہوا‘ گیس کمپنیوں کے خلاف بھی زیادہ تر شکایات کا تعلق کنکشنوں کی تنصیب میں سالہا سال کی تاخیر بتایا جاتا ہے‘ ایسی شکایات گزشتہ پانچ سال میں تقریباً دوگنی ہوگئیں‘ سوئی نادرن کے ارباب اختیار کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے پورے سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کردیا ہے‘ اب کوئی ہیرا پھیری ممکن نہیں لیکن کمپیوٹر کو کھول کر کون دیکھے کہ کوئی ہیرا پھیری ہوئی یا نہیں‘ اتنا وقت کس کے پاس ہے۔

ان گیس کمپنیوں کے خلاف بھی اوور بلنگ اور بلاجواز ڈس کنکشن کی شکایات میں بھی تین گنا اضافہ ہوا‘ گیس کی بلاجواز لوڈشیڈنگ اور پریشر کی کمی اور خراب میٹروں کی بلا اطلاع تبدیلی جیسی شکایات بھی عام تھیں۔ان پانچ سالوں میں نادرا کے خلاف سیکڑوں شکایات کی گئیں‘ 2009 میں 845، 2010 میں 1400، 2011 میں 2ہزار، 2012 میں 1958 اور 2013 میں 1941 درخواستیں بھیجی گئیں‘ اسٹیٹ لائف کے خلاف بھی پانچ سالوں میں بالترتیب 294، 255، 252، 348 اور 356 شکایات کی گئیں۔

مارچ 2013 سے 2014 تک وفاقی محتسب کے پاس ایک لاکھ 38 ہزار 327 درخواستیں زیرالتوا تھیں‘ وفاقی محتسب کے فیصلوں پر عملدرآمد کی شرح قابل تعریف رہی‘ 2013 میں 94 فیصد سے زائد فیصلوں پر فی الفور عملدرآمد ہوا جب کہ 2014 میں وفاقی محکموں میں بڑھتی ہوئی بے حسی نے رنگ دکھایا اور محض 73 فیصد فیصلوں پر عمل ہوا‘ بہرکیف یہ شرح بھی قابل ذکر ہے‘ بعض افسران کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بیمار بیوہ نے بہبود سیونگ فنڈ میں 48لاکھ 50ہزار روپے جمع کروائے۔

نیشنل سیونگ 6سال اس فنڈ پر منافع دیتا رہا اور یہ فنڈز استعمال بھی کرتا رہا‘ 6سال فنڈز استعمال کرنے کے بعد نیشنل سیونگ لاہور کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو اچانک خیال آیا کہ مذکورہ فنڈ میں زیادہ سے زیادہ تیس لاکھ روپیہ انویسٹ کیا جاسکتا ہے لہذا باقی ساڑھے اٹھارہ لاکھ روپیہ بیوہ واپس لے لے اور چھ سالوں میں لیا گیا منافع بھی بہبود فنڈ کو لوٹا دے‘ بیوہ نے کہا کہ وہ پارکنسن کی مریضہ ہے اور منافع علاج پر خرچ ہوچکا ہے‘ محکمہ تنگ کرتا رہا اور قریب تھا کہ اس کا سرمایہ بحق سرکار ضبط کرلیا جاتا، اس نے وفاقی محتسب لاہور کے آفس سے رجوع کیا۔

بہبود سیونگ سرٹیفکیٹ کے اربابِ اختیار نے فنڈ کے رولز مجریہ 2003 کا حوالہ دینے کے بعد کہا کہ ’’اگنورس آف لاء از نو ایکسکیوز‘‘ اگر بیوہ کو قانون کا نہیں پتہ تھا تب بھی اس کی دلیل خلافِ قانون ہے لیکن یہی ضابطہ بہبود سیونگ سرٹیفکیٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور دیگر حکام پر بھی عائد ہوتا تھا‘ اگر ضابطہ موجود تھا تو اضافی ساڑھے اٹھارہ لاکھ روپے کیوں لیے گئے؟ بیوہ کو بروقت واپس کیوں نہیں کیے گئے؟ ساڑھے اٹھارہ لاکھ روپے پر بہبود سیونگ سرٹیفکیٹ نے کتنا منافع کمایا؟

ان تمام نکات کی وضاحت مانگ لی گئی‘ بالآخر نیشنل سیونگ سرٹیفکیٹ کے حکام نے بیوہ کی دلیل مان لی اور یوں چھ سال کا منافع واپس کرنے سے بچ گئی‘ یہ وہ لوگ ہیں جو وکیل کرنے یا بار بار سرکاری محکموں یا کمپنیوں کے چکر لگانے کی سکت نہیں رکھتے‘ اب یہ لوگ کونسا دروازہ کھٹکھٹائیں گے؟

وفاقی محتسب نے سپریم کورٹ کی ہدایت اور متعلقہ قوانین کے تحت مختلف سرکاری اداروں کے نظام میں اصلاح کے لیے متعدد کمیٹیاں تشکیل دے رکھی ہیں‘ ان کمیٹیوں میں سابق قائم مقام صدر چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد، سابق وزیرقانون ایس ایم ظفر، ڈاکٹر عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ، سابق وزیرخزانہ عبدالحفیظ پاشا، سابق وزیر اعلیٰ کے پی کے شمس الملک اور شعیب سلطان خان سمیت ملک کی نامور شخصیات شامل ہیں جو ان کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے بلامعاوضہ دور دراز سے سفر کرکے آتے ہیں اور اپنے قیمتی مشوروں اور تجربات سے نوازتے ہیں۔

ان کمیٹیوں کی وجہ سے بچوں کی ایڈوائزری کمیٹی، تھانوں کے نظام اور جیلوں کی اصلاح، ملازمین کے رہائشی مسائل، سرکاری افسران کی تربیت، بیرون ممالک پاکستانیوں کے مسائل، زندگی بچانے والی ادویات کی فراہمی، ریگولیٹری باڈیز اور نادرا کے بارے میں شکایات کے متعلق کمیٹیاں قابلِ ذکر ہیں‘ ان کمیٹیوں نے قبل ازیں خسرہ سے بچوں کی اموات، پاسپورٹ کے اجراء میں تاخیر، ٹریفک حادثات میں اموات،سڑکوں پر تحفظ، اسٹیٹ لائف میں بیمہ رقوم کی عدم ادائیگی، ڈاکخانہ کے نظام، پمز اسپتال کی اصلاح، قومی بچت کی کارکردگی۔

ای او بی آئی کے تحت ملک بھر میں ملازمین کے ساتھ ناانصافی جیسے مسائل پر رپورٹیں مرتب کی ہیں اور ان کی سفارشات پر عملدرآمد کرایا جارہا ہے‘ مذکورہ کمیٹیوں کی رپورٹس سپریم کورٹ اور حکومتِ پاکستان کے متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کو بھی ارسال کی جاتی ہیں تاکہ نظامِ حکومت میں اصلاح کے لیے قانون سازی میں بھی آسانی ہو‘ نومبر 2015 میں ایشین اومبڈ سمین ایسوسی ایشن کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ایشیاء کے 23 ممالک کے 82 محتسبین اور ان کے نمایندوں نے شرکت کی ‘ کانفرنس کے دوران وفاقی محتسبِ اعلیٰ پاکستان محمد سلمان فاروقی کو ایشین اومبڈ سمین ایسوسی ایشن کا چار سال کے لیے صدر منتخب کیا گیا۔

سلمان فاروقی اپنی کارکردگی کی فہرست کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید اعدادوشمار گنواتے نہیں تھکتے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے ان کے پرکاٹنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی‘جب وفاقی حکومت نے 2002میں اطلاعات کے حصول کا قانون نافذ کیا تو اس قانون کے تحت متعلقہ وزارت سے اطلاعات فراہم نہ کرنے پر وفاقی محتسب سے اپیل کا حق دیا گیا‘وفاقی محتسب سلمان فاروقی نے درخواستوں کو نمٹانے کے لیے جدید طریقہ کار اختیار کیا، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال محتسب نے 94 ہزار درخواستوں پر فیصلے کیے، یعنی روزانہ اوسطاً 310 درخواستیں داخل دفتر ہوئیں۔

وفاقی محتسب نے گزشتہ سال قومی اسمبلی کے اسپیکر کو حکم دیا کہ اراکینِ قومی اسمبلی کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی حاضری کو ویب سائٹ پر ظاہر کیا جائے‘ اسپیکر قومی اسمبلی اراکین کی حاضری ظاہر کرنے کے حق میں نہیں تھے‘ انھوں نے وفاقی محتسب کے فیصلے کے خلاف صدرِ پاکستان سے اپیل کی تھی‘وفاقی محتسب کے جیل اور پولیس اصلاحات کے فیصلوں کی سپریم کورٹ نے تعریف کی‘ وفاقی محتسب کے آزادانہ فیصلے وفاقی حکومت کو پسند نہیں آئے چنانچہ حکومت نے محتسب کے اختیارات میں کمی کے لیے قانون کا مسودہ تیارکرلیا۔

اس مسودہ قانون کے تحت وفاقی محتسب کی غیر موجودگی میں محتسب ٹیکس کے وفاقی محتسب کا عہدہ سنبھالنے پر پابندی عائد ہوجائے گی‘ اسی طرح محتسب کو دیگر شہروں میں اپنے دفاتر قائم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی‘ وفاقی محتسب کی عدم موجودگی میں محتسب ٹیکس کے عہدہ نہ سنبھالنے کی بناء پر وفاقی محتسب کا ادارہ معطل ہوجائے گا۔ جسٹس افتخار چوہدری کی مایوس کن کارکردگی سے عام آدمی کا انصاف کی عوامی تحریک پر سے اعتماد ختم ہوا‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتوں نے سستے اور آسان عدالتی نظام کی بحالی کے لیے کچھ نہیں کیا۔

آج کل کراچی، کوئٹہ، لاہور اور پشاور میں محتسب کے ذیلی دفاتر موجود ہیں‘ چاروں صوبوں کے دور دراز کے علاقوں سے عام آدمی کا صوبائی دارالحکومت سے رابطہ کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے‘ لوگوں کے لیے اسلام آباد پہنچنا تو مزید مشکل ہے، یوں وفاقی محتسب کے ادارے کے قیام کا مقصد فوت کرنے کی تیاریاں زوروں پر ہیں‘ وفاقی محتسب سلمان فاروقی جو سینئر بیوروکریٹ ہیں ان کی زندگی کا آغاز نچلی سطح سے ہوا تھا، اسی بناء پر انھوں نے یونین کونسل کی سطح پر محتسب کے دفاتر کھولنے کا منصوبہ بنایا‘ اس فیصلے کی بناء پر عام آدمی کو اپنے گھر کے نزدیک انصاف مل سکتا تھا۔

وفاقی حکومت کو سلمان فاروقی کی اس تجویزکا خیرمقدم کرنا چاہیے تھا مگربدقسمتی سے حکومت تومحتسب کے اختیارات پر پابندی عائد کررہی ہے حالانکہ جس طرح یورپی ممالک نے محتسب کے ادارے کے ذریعے عام آدمی کو انصاف دلایا ہے ہماری حکومت بھی چاہے تو یوں عام آدمی کو با آسانی انصاف مل سکتا ہے۔سلمان فاروقی ہماری دانست میں تو ایک متحرک شخصیت کے مالک ہیں اور اب تک انھوں نے وفاقی محتسب کے طور پر جو بھی سنگ ہائے میل طے کیے ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔

ان کے ادارے نے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے محکمہ جات اور ہمہ نوع مسائل کا احاطہ کیا ہے مگر سب سے زیادہ محتسبِ اعلیٰ کی اس عدالتِ عاجلہ نے خواتین کی ہراسانی پر کام کیا ہے جو قابلِ داد ہے۔گذشتہ چار برسوں میں خواتین نے جنسی ہراس کے تین ہزار سے زیادہ کیس درج کرائے ہیں۔وفاقی محتسب کے پاس جانے والے ان مقدمات میں سے تقریباً 80 فیصد کا تعلق سرکاری دفاتر سے ہے۔پاکستانی دفاتر میں خواتین کو جنسی ہراس سے محفوظ رکھنے کے لیے 2010 میں قانون منظور ہوا تھا۔

اس قانون کو بنوانے اور اس کے نفاذ کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم مہرگڑھ کے مطابق، گذشتہ چار برسوں میں جنسی ہراس کے تین ہزار سے زیادہ کیس مختلف اداروں کی اندرونی انکوائری کمیٹیوں کے پاس جا چکے ہیں۔ان اداروں میں سرکاری دفاتر، یونی ورسٹیاں، کثیرالقومی ادارے، اور اسپتال شامل ہیں۔ یہ وہ کیس ہیں جن کے بارے میں اعدادوشمار منظرعام پر ہیں، اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔اس قانون کے تحت، اگر کوئی خاتون انکوائری کمیٹی کے فیصلوں یا تشکیل پر اعتماد نہیں رکھتی تو وہ دفاتر میں خواتین کے جنسی ہراس سے تحفظ کے لیے قائم کیے گیے وفاقی محتسب سیل میں درخواست دے سکتی ہیں۔

محتسب کے اعداد و شمار کے مطابق، جولائی 2011 سے اپریل 2014 تک، 173 کیس درج ہوئے، جن میں سے 77 فیصد کا تعلق سرکاری دفاتر سے تھا۔تعجب کی بات یہ نہیں کہ پاکستان میں جنسی ہراس کے واقعات پیش آتے ہیں، تعجب یہ ہے کہ شرمندگی، بدنامی اور نوکری جانے کے ڈر کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں خواتین اس قانون کا استعمال کر رہی ہیں۔ بعض ایسے سرکاری دفاتر ہیں جہاں اس قانون کے خلاف ایک طرح کی مزاحمت نظر آتی ہے۔

پاکستان ائر ویز اور پنجاب یونیورسٹی ایسے ادارے ہیں جہاں کئی خواتین کوہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک جانا پڑا۔ جو مرد خواتین کو ہراساں کرتے ہیں، وہ بہت بے شرم لوگ ہیں‘ وہ اپنی نوکریاں بحال کرانے کے لیے سیاسی مداخلت کا استعمال کرتے ہیں اور سفارشیں کرواتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ابھی معاشرہ اتنا تبدیل نہیں ہوا کہ ملزم اپنے کیے پر شرمندہ ہو۔وفاقی محتسب کے ادارے کی خامیوں کے بارے میں بہت کچھ آتا رہتا ہے‘ محتسب اعلیٰ کی اس ادارے کو مضبوط کرنے کے لیے ان میں پائی جانیوالی خامیوں کو بھی دور کرنا چاہیے۔

گزشتہ ایک ورکشاپ میں ایڈیشنل سیکریٹری وفاقی محتسب ثاقب سلیم نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ سلمان فاروقی کے دور میں زیرالتواء 58ہزار شکایات سے نمٹنے کے حوالے سے تفصیلات سن کر وفاقی ٹیکس محتسب کے سردار ارشاد شاہین نے یہ دلچسپ سوال اٹھایا کہ زیرالتواء 58 ہزار کیسز چند ماہ میں کیسے حل کرلیے گئے‘ انھوں نے اپنے موقف کے حق میں دلیل دی کہ ایک شکایات کو 10منٹ بھی دیے جائیں تو تمام شکایات کو حل کرنے میں 2سال 6ماہ کا عرصہ درکار ہے‘ وہ کونسا جادو ہوگا جو چند ماہ میں یہ مسئلہ حل کردے؟

وفاقی محتسب کے نمایندے نے اس حوالے سے جواب دیا کہ شکایات کو حل کرنے کے لیے ایک ادارہ جاتی میکانزم ہے جس میں جانچ پڑتال کے کئی طریقے ہیں اور وفاقی محتسب کو احکامات پر صرف دستخط کرنا ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب تو صاف ظاہر ہے کہ وفاقی محتسب کا عہدہ اب ایک نمائشی عہدہ بن کر رہ گیا ہے جسے شکایت کنندگان کے مسائل میں ذاتی طور پر کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

اس ادارہ میں ممبران اوردیگر ایگزیکٹو افسران ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا فوجی افسران ہیں‘ جب وفاقی محتسب خود ہی کوئی دلچسپی نہ لیں گے تو وہ صرف اتنی زحمت کریں گے کہ شکایت کنندہ کی شکایت کے حوالے سے ایجنسی سے موقف لے کر اس کے مطابق فیصلہ دیں گے‘ یہی کچھ یہاں ہورہا ہے اور یہی اس عہدے سے ناانصافی ہے۔

محتسب اعلیٰ میں ڈی جی ایڈمن سمیت متعدد عہدوں پر ڈیپوٹیشن کے افسران تعینات ہیں۔ دس بارہ ایڈوائزر ایسے ہیں جوکہ کام کررہے ہیں اور ان کے پاس باقاعدہ محکمے ہیں لیکن بقیہ سارے ایڈوائزر بغیر کسی محکمہ کے صرف فائنل آرڈر اور کمیٹیاں بنانے کے لیے بٹھائے ہوئے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر دوسرا ایڈوائزر سینئر ایڈوائزر ہے جب کہ اس سے پہلے سنیئر ایڈوائزر کی صرف ایک پوسٹ ہوتی تھی، اب زیادہ تنخواہیں دینے کے لیے ہر دوسرا ایڈوائزر سینئر ہے۔

اس ادارے میں ہمیشہ آٹھ دس ایڈوائزر رہے ہیں لیکن اس وقت سینئر ایڈوائزروں کی لائن لگی ہوئی ہے‘ ایک مخصوص پارٹی سے وابستہ ریٹائرڈ بیوروکریٹس کو قومی خزانہ سے لاکھوں روپے تنخواہ ادا کی جارہی ہے۔ ان دنوں وفاقی محتسب کا ادارہ حالتِ نزع میں ہے۔ اس طرح عملاً وفاقی محتسب کا ادارہ غیرموثر ہوکر رہ گیا ہے اور لوگ سمجھ رہے ہیں کہ شاید اس ادارے کو بھی ختم کیا جارہا ہے۔ایسے میں تو یہی سوچا جاسکتا ہے کہ جہاں ملک میں ایک طرف نااہلی اوربے ضابطگیوں میں اضافہ ہورہا ہے وہاں دوسری طرف احتساب کرنے والے ادارے مضبوط ہونے کی بجائے کمزور پڑتے جارہے ہیں۔

بلاشبہ ادارہ وفاقی محتسب سستے اور فوری انصاف کا ایک انتہائی اہم ادارہ ہے‘ جتنے اعدادوشمار وفاقی محتسب نے میڈیا میں عام کررکھے ہیں اگر صحیح معنوں میں ایسے نتائج بھی برآمد ہونا شروع ہوجائیں تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ایک عام شہری کو بھی زندگی کے کسی بھی معاملہ میںسالوں میں نہیں مہینوں اور ہفتوں میں انصاف مہیا ہوسکتا ہے مگر اس کے لیے حکمرانوں کی نیت کا باصفاء ہونا ازحد ضروری ہے اور اعلیٰ عدلیہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے وفاقی محتسب کو سوتن سمجھنے کی بجائے اس کے ہاتھ مزید مضبوط کرے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website