counter easy hit

جمال خشوگی کے قتل میں ملوث 11 افراد کی سعودی عدالت میں پہلی پیشی۔۔

دبئی(ویب ڈیسک)سعودی عرب کا کہنا ہے کہ جمعرات کو ان 11 افراد کو پہلی بار عدالت میں پیش کیا گیا جن پر صحافی جمال خشوگی کے قتل سے کسی طرح کا تعلق رکھنے کا الزام ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے نقاد خشوگی کو 2 اکتوبر کو استبول میں سعودی قونصلیٹ میں قتل کر دیا گیا تھا۔ خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتایا ہے کہ پراسیکیوٹرز نے پانچ ملزمان کے لیے موت کی سزا کی درخواست کی گئی ہے۔ ملزمان کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔ پراسیکیوٹرز کے مطابق 11 ملزمان کو پہلی بار عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان کے وکیل بھی عدالت میں موجود تھے۔ تاہم اس بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا گیا کہ 2 اکتوبر کے قتل کے واقعہ سے تعلق کے شہبے میں جن 7 دوسرے افراد کو حراست میں لیا گیا تھا، ان پر ابھی تک الزام کیوں عائد نہیں کیا گیا۔ اس سے پہلے سعودی حکومت نے کہا تھا کہ خشوگی کے قتل کے الزام میں 18 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ سعودی عرب کے سرکاری خبررساں ادارے اور سرکاری ٹیلی وژن نے مقدمے کی سماعت سے متعلق کچھ تفصیلات دیں ہیں۔ ان کے مطابق پراسیکیوٹرز کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پبلک پراسیکیوٹرز نے ملزموں کو مناسب سزائیں دینے کی درخواست کرتے ہوئے، قتل میں براہ راست ملوث 5 ملزموں کو موت کی سزا سنانے کی استدعا کی ہے۔ ملزموں نے عدالت سے خود پر عائد کیے جانےوالے الزامات کی نقول فراہم کرنے اور مقدمے کی تیاری کے لیے مزید وقت دینے کی التجا کی۔پراسیکیورٹرز نے ترکی کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترک عہدے داروں نے مقدمے سے متعلق شواہد کے حصول کے لیے بھیجی جانے والی دو باضابطہ درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے سرکاری پراسیکیورٹرز کو ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا اور وہ اب بھی ان کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس پر ردعمل جاننے کے لیے فوری طور پر انقرہ میں کسی عہدے دار تک رسائی نہیں ہو سکی۔ اس سے قبل ترک عہدے دار یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے خشوگی کے قتل سے منسلک شواہد سعودی عرب اور دوسرے ملکوں کے ساتھ شیئر کر دیے ہیں۔ ترکی سعودی عرب سے یہ مطالبہ بھی کر چکا ہے کہ خشوگی کے قتل کا مقدمہ چلانے کے لیے وہ حراست میں لیے گئے 18 مشتبہ افراد کو اس کے حوالے کر دے کیونکہ یہ جرم ترک سرزمین پر ہوا ہے اور مقدمہ بھی وہیں چلنا چاہیے۔ترک حکام سعودی حکمرانوں پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے خشوگی کے قتل سے متعلق ویڈیوز، تصاویر اور دیگر معلومات آہستہ آہستہ لیک کر رہے ہیں۔ترک میڈیا خشوگی کے قتل سے قبل ولی عہد محمد بن سلمان کے محافظوں کے استنبول کی قونصلیٹ میں اکھٹے ہونے کی تصویریں شاٰئع کر چکا ہے۔ خشوگی کی نعش ابھی تک نہیں مل سکی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ قتل کرنے کے بعد نعش کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تھا۔ 59 سالہ خشوگی گزشتہ سال 2 اکتوبر کو استنبول کی سعودی قونصلیٹ میں داخل ہوا تھا جب کہ اس کی منگیتر قونصلیٹ سے باہر اس کی واپسی کا انتظار کرتی رہی۔ ان کی آمد سے پہلے سعودی عہدے داروں کی ایک ٹیم قونصلیٹ میں داخل ہوئی اور اس دوران جب کہ وہ خشوگی کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی، سعودی ٹیم قونصلیٹ سے واپس اپنے ملک پرواز کر گئی۔ سعودی حکام خشوگی کی گمشدگی کے کئی ہفتوں بعد تک اس کے قتل سے انکار کرتے رہے۔ بعد ازاں انہوں نے اپنا بیان تبدیل کرتے ہوئے یہ تسلیم کر لیا کہ خشوگی کو بے رحمی سے قتل کیا گیا تھا۔ جس کے بعد کنگ سلمان نے اپنے ملک کی انٹیلی جنیس سروس کی تنظیم نو کرنے کا حکم دیا، لیکن وہ ابھی تک اپنے 33 سالہ شہزادے محمد بن سلمان کو بچا رہے ہیں جو بادشاہت کی قطار میں تاج کے اگلے مضبوط امیدوار ہیں۔ سعودی اقدامات کے باوجود خشوگی کے سفاکانہ قتل کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج میں کمی نہیں آئی۔ دسمبر میں امریکی سینیٹرز نے ایک قرار داد منظور کی تھی جس میں خشوگی کے قتل کا الزام ولی عہد محمد بن سلمان پر لگاتے ہوئے ریاض سے مناسب جواہدی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہو گی اگر ان افراد کو موت کی سزا دے دی جاتی ہے جن پر خشوگی کے قتل کا الزام ہے، کیونکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سعودی عرب سن 2017 میں چین اور ایران کے بعد موت کی سزائیں دینے والا تیسرا بڑا ملک تھا۔ وہاں موت کی سزا پانے والوں کا سر قلم کر دیا جاتا ہے۔