counter easy hit

صف اول کے صحافی نے تاریخی واقعہ بیان کرکے بڑی بات کہہ ڈالی

The first-ever journalist, describing the historical event, said a big thing
لاہور (ویب ڈیسک) وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ دنوں میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اور ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے ٹیپو سلطان کا ذکر کیا تھا ۔ انھوں نے بابانگ دہل کہا ’’پاکستان کی تاریخ میں جب ہم پیچھے دیکھتے ہیں تو ٹیپو سلطان اور بہادر شاہ ظفر دو حکمران گزرے ہیں۔ نامور کالم نگار علی احمد ڈھلوں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔بہادر شاہ ظفر نے موت کے بجائے غلامی کو چنا تھا جب کہ ٹیپو سلطان نے غلامی کو نہیں چنا۔ اس قوم کا ہیرو ٹیپو سلطان ہے۔ ہم امن چاہتے ہیں، غلامی نہیں‘‘ یہ اچھی بات ہے کہ کچھ حاصل کرنے کے لیے کسی چیز کو آئیڈیلائز کر لینا چاہیے تاکہ آپ کو کم از کم اپنی منزل کا علم تو ہو ورنہ تو لوگ بغیر منزل کے نکل جاتے ہیں اور پھر ہمیشہ بھٹکے ہی رہتے ہیں۔ اور جب آپ کچھ کرنے کا سوچ لیتے ہیں تو یقینا یہ کچھ کر بھی لیتے ہیں جیسے انگریزی کا ایک مشہور محاورہ ہے کہIf you think you can, Yes you can۔۔۔and If you think You can’t … Yes you can’t۔۔۔یعنی اگر آپ زندگی یہ سوچ لیتے ہیں کہ یہ میں کرسکتا ہوں تو واقعی آپ اُسے کر لیتے ہیں، لیکن اگر آپ یہ سوچ لیں کہ میں یہ نہیں کر سکتا تو یقینا آپ وہ کام نہیں کر سکیں گے۔ عمران خان میں بھی یہی خاصیت پائی جاتی ہے کہ انھوں نے سوچ لیا ہوا ہے کہ وہ کر سکتے ہیں اس لیے وہ کر بھی سکتے ہیں اور رہی بات ٹیپو سلطان کی تو ان دونوں شخصیات میں ایک قدر مشترک ضرور نظر آرہی ہے کہ دونوں بہادر ہیں اور دونوں ہی کے مصاحبین نااہل ہیں۔ آئیے پہلے ٹیپو سلطان کی زندگی کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔آج سے ٹھیک 220سال پہلے سرنگا پٹم میں ریاست میسور کا پرچم ہمیشہ کے لیے سرنگوں ہوا تھا اور مغرب کے وقت فتح علی ٹیپو سلطان کے جسد خاکی کو دیکھ کر انگریز جنرل ہیرس بے اختیار پکار اٹھا تھاکہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘ اور صرف 4برس بعد شہنشاہ دہلی شاہ عالم نے انگریزی سرپرستی میں رہنا قبول کر لیاتھا۔سلطان کو اپنوں کی غداری نے شکست دی، ٹیپو سلطان ایک بہت بڑے مدبر بھی تھے، وہ سمجھ چکے تھے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے عزائم کیا ہیں، انھیں یہ بھی اندازا تھا کہ شاہان مغلیہ میں اب اتنی سکت نہیں کہ وہ اکیلے انگریزی سامراج کا مقابلہ کر سکیں، دوسری طرف انگریز بھی جان چکے تھے کہ اگر ٹیپو سلطان کو اپنے ارادوں میں کامیاب ہونے دیا گیا تو ہندوستان پر قبضہ نہیں ہوسکے گا، چنانچہ اس خطرے کو ختم کرنے کے لیے انگریز، نظام اور مرہٹے متحد ہوگئے۔انگریز سلطان کو ہندوستان پر اپنے اقتدار کی راہ میں واحد رکاوٹ سمجھتے تھے، انھوں نے نظام حیدر آباد کو اپنے ساتھ ملا لیا، مرہٹے تو غیر مسلم تھی، یہاں اپنوں نے ہی ساتھ نہ دیا، اسی پالیسی کے تحت سلطان کے قریبی ساتھیوں کو بھی ساتھ ملا لیا گیا، ہم کب تک دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو الزام دیتے رہیں گے، اپنوں نے جو کچھ کیا وہ ہم کیوں بھلا دیتے ہیں۔سلطان اپنے وقت سے آگے کی سوچتے تھے، انھوں نے اپنی مملکت سے بے روزگاری ختم کرنے کے لیے چھوٹی صنعتوں کو فروغ دیا، چھوٹے بڑے ڈیم بنوائے اور شاندار مساجد تعمیر کرائیں، مسجدوں کے علاوہ ہندو مندروں کی دیکھ بھال کے اخراجا ت بھی سرکاری خزانے سے ادا ہوتے تھے۔مسلمان اور ہندو ریاست کے برابر کے شہری تھے اور کسی میں اقلیت یا اکثریت ہونے کا احساس نہیں تھا۔1787ء میں انگریزوں کی حمایت سے مرہٹوں اور نظام حیدرآباد نے میسور پرحملہ کر دیا مگر شکست کھائی، پھر 1789ء میں تینوں نے مل کر میسور پرحملہ کر دیا، یہ میسور کی تیسری جنگ کہلائی جو تین سال جاری رہی، انگریزوں کی چالوں اور اپنوں کی غداری اور بے وفائی سے ٹیپو کو انگریزوں سے صلح کرنی پڑی، اس کے مطابق میسور نے تین کروڑ روپے تاوان ادا کیا، نیز سلطان کو اپنے دو شہزادے عبدالخالق اور معز الدین انگریزوں کی تحویل میں دینا پڑے جو دو سال بعد واپس آئے، لوگ سلطان سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس موقع پر انھوں نے اپنی خون پسینے کی کمائی سلطان کے قدموں میں ڈھیر کردی حتیٰ کہ عورتوں نے اپنے زیورات تک خزانے میں جمع کرا دیے۔ سلطان ٹیپو کو انگریزوں سے اس قدر نفرت تھی کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا بنا ہوا نمک استعمال نہیں کرتے تھے، وہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرناچاہتے تھے، چونکہ اس زمانے میں برطانیہ اور فرانس میں سخت دشمنی تھی، لہٰذا ٹیپو نے فرانسیسی فوجی دستے کو میسور میں تعینات کر رکھا تھا۔سلطان نے فرانس کے حکمران نپولین بونا پارٹ سے بھی خط وکتابت کی تاکہ انگریزوں کے خلاف مل کر کارروائی کی جائے، علاوہ ازیں سلطان نے ترکی کے عثمانی خلیفہ، ایران اور افغانستان کے حکمرانوں اور نظام حیدر آبادسے بھی مدد کی درخواست کی، انھوں نے نواب حیدر آباد میر نظام علی خان کو خط لکھا کہ ’’اگر مسلمان اب بھی متحد ہوجائیں تو گزشتہ شان و شوکت پھر آسکتی ہے۔لہٰذا ہمیں ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے کہ روز محشر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمسار نہ ہونا پڑے۔‘‘ افسوس صد افسوس مسلم حکمرانوں نے سلطان کی پکار پر کان نہ دھرے، افغانستان کا زمان شاہ فوج لے کر آیا، ابھی لاہور میں تھا کہ انگریز کی ایماء پر ایران نے حملہ کردیا تو اسے واپس جانا پڑا، آخرکار فروری 1799ء میں انگریزوں، نظام اور مرہٹوں کی متحدہ افواج نے تین اطراف سے میسور پر چڑھائی کی، انگریزوں نے میسور کے وزراء میر صادق، میر غلام علی لنگڑا، میر قمر الدین، میر معین الدین اور وزیر مالیات پورنیا کو سازش سے ساتھ ملا لیا تھا، ان کی غداری سے دشمن کی افواج نے سرنگا پٹم کا محاصرہ کیا،اس وقت سلطان انگریزوں کی شرائط مان کر اپنے آپ کوبچا سکتے تھے۔ان کے خادم خاص راجہ خان نے جب ایسا کرنے کو کہا تو سلطان نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ انگریز بھی چلے گئے، نظام حیدر آباد کی سلطنت بھی ختم ہو گئی اور آج اس کا نام بھی کوئی نہیں جانتا، مرہٹے بھی بکھر گئے، میر صادق کو لوگ آج نفرت سے یاد کرتے ہیں اس کا نام ایک گالی بن چکا ہے لیکن شہید میسور کا نام قیامت تک زندہ رہے گا۔ٹیپوسلطان اس قدر غداروں اور دشمنوں میں پھنسا ہوا تھا کہ اُسے ہوش ہی نہ رہی کہ اُس کے اپنے محل میں کیا سازشیں رچائی جا رہی ہیں حالانکہ اُس کے باپ حیدر علی سلطان نے ٹیپو سلطان کو انتباہ بھی کیا تھا کہ وہ ان اصحاب کو ختم کر دیں، یہ اُسے دھوکا دے سکتے ہیں مگر ٹیپو نے اُن کی بات سنی ان سنی کر دی۔ وہ آخری وقت میں صبح نکلتا اور شام تک انگریزوں سے شیر کی طرح لڑتا اور شام کو واپس اپنے قلعہ میں آجاتا۔ پھر نکلتا ، لڑتا اور واپس آجاتا، ایک بار آخری دفعہ قلعہ سے نکلا اور غداروں نے پھر اُسے واپس نہ آنے دیا۔ اور یہی اُس کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔اب آپ آجائیں عمران خان کی حکمرانی کی جانب، تو جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ عمران خان بھی دلیراور نڈر شخصیت کا مالک ہے، وہ روزانہ مسائل سے لڑ رہا ہے، وہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ چاہتا ہے، وہ ملک کی معیشت کو درست سمت جاتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے، وہ ملک کے عوام کو چھت فراہم کرنا چاہتاہے، انھیں خوشحال دیکھنا چاہتا ہے، وہ عوام کو ایجوکیٹ کرنا چاہتا ہے، وہ قانون کی پاسداری کروانا چاہتا ہے، وہ حکمرانوں کی فضول خرچیاں روکنا چاہتا ہے، وہ دنیا سے اچھے تعلقات کا خواہاں رہتا ہے، وہ امن سے رہنا چاہتا ہے۔وہ صحت کی سہولیات کو ڈور اسٹیپ پر دینا چاہتا ہے، وہ مفاہمت پر یقین رکھتا ہے، وہ عوام رائے کا احترام کرتا ہے، اور ملکی مفاد میں ہر وہ کام کرنے سے گریز نہیں کرتا جو اسے مناسب لگے اور وہ پاکستان کے عوام کے لیے دنیا سے لڑنا بھی چاہتا ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ انھوں نے اپنی ٹیم کے چناؤ میں کہیں نہ کہیں غلطی ضرور کی ہے۔ یہ کچھ کرنے لگتا ہے تو اس کے مشیر اور مصاحبین اسے لے کر پرانے حکمرانوں کی ڈگر پر چلانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔معاشی نظام ہی کو دیکھ لیں جس نظام میں رہ کر نواز شریف اور بے نظیر ترقی نہ کر سکے‘ مہاتیر محمد کا ملائیشیا قرضے میں ڈوب گیا تو عمران خان کے ساتھی انھیں اس دلدل میں دھکیلنے کے لیے زور لگا رہے ہیں۔ عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہو تا ۔کو چہ سیاست اگر کسی کو آنکھوں پر بٹھا تی ہے تو گر دش ایام اور ناکام طرزِ حکومت سے آنکھوں سے گرا دیتی ہے۔ یہ وہ کو چہ ہے جہاں کروڑوں دلوں پر راج کر نے والے آئے لیکن مصاحبین نے انھیں کہیں کا نہ چھوڑا۔لہٰذاعمران خان ایسے مصاحبین سے جان چھڑا لیں جو عوام کے لیے سود مند نہیں ہیںورنہ یہ بھی انھیں سیاسی شہید کرواکر ہی دم لیں گے۔ اور اس حوالے سے تو آ ج بھی عمران خان سے محبت کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ اپنی کابینہ میں کانٹ چھانٹ کرکے قابل لوگوں کو سامنے لائیں، مگر عمران خان ایسا کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔لیکن ٹیپو سلطان کی طرح انتظار کرنے سے بہتر ہے، عمران خان اس حوالے سے سوچ ضرور لیں، آگے اﷲ کی

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website