counter easy hit

خان صاحب ! آپ وزارت داخلہ سے الگ ہی رہیں تو آپ کے لیے اچھا ہو گا کیونکہ۔۔۔۔۔۔ نامور صحافی نے عمران خان کو خبردار کر ڈالا

لاہور(ویب ڈیسک) معروف صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود نے وزیراعظم عمران خان کووزارت داخلہ سے الگ ہونے کا مشورہ دے دیا۔ انہوں نے کہا کہہ وزارت داخلہ کی باتیں باہر آنے سے مخالف سیاسی قوتیں احتساب کے عمل کو سیاسی بنانے میں کامیاب ہورہی ہیں، عمران خان کا پارلیمنٹ میں آنا، گرین پاکستان، نوکریاں ، صفائی مہم ،پروٹوکول ختم کرنا، سادگی مہم چلانا ،یا دیگر کام ہیں۔
وہ ذرا یاد کریں اطلاع ہے کہ ایک گڑھے کی اطلاع آرہی ہے کہ اس میں پرانی لاشیں برآمد ہوئی ہیں ،یہ لاشیں پرانے وقت میں دفنائی گئی تھیں۔ یہ معاملہ بہت آگے جا رہا ہے۔میں نے کہا تھا کہ اس گڑھے میں سے جو چیزیں نکلی ہیں پھر ٹیلیفون کالز، بھتہ، زمینیں ، باہر پیسا گیا، ملازمین کے نام پر جائیدادیں یہ سب ایسا معاملہ ہے کہ زرداری کو یقین ہے کہ اس کو کسی بھی وقت گرفتار کرلیا جائے گا۔ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ یہ بڑا خوفناک معاملہ ہے جو کہ بطور وزیرداخلہ عمران خان کے سامنے آرہا ہے۔ لیکن جب عمران خان اپنے رفقاء سے وہ چیزیں بیان کرتے ہیں تو باتیں باہر نکل آتی ہیں۔میرا عمران خان کو مشورہ ہے کہ وہ وزیرداخلہ سے خود کو الگ کرلیں۔احتساب کا عمل پہلے بھی چل رہا ہے آئندہ بھی چلتا رہے گا۔انہوں نے کہا کہ جب چیزیں باہر آتی ہیں تومخالفین کی اسٹریٹجی کامیاب ہورہی ہے مخالفین کہتے ہیں دیکھیں یہ توعمران خان کہہ رہا ہے۔اب عدالت تو بالکل آزاد ہے۔ زلفی بخاری یا اعظم سواتی کا معاملہ ہو، عدالت اپنا کام کررہی ہے۔عدالت توآزاد ادارہ ہے اسی طرح نیب میں بھی ہرمعاملے کا نیب کے ترجمان کو جواب دینا چاہیے۔ فیاض الحسن چوہان کو نیب سے متعلق بیانات دینے کی ضرورت نہیں ہے۔وزیراعظم عمران خان کا اصل کامپارلیمنٹ میں آنا، گرین پاکستان، نوکریاں ، صفائی مہم ،پروٹوکول ختم کرنا، سادگی مہم چلانا ہے۔یہ وزیراعظم کا اپنی منصوبہ بندی ہے وزیراعظم یہ سب کرنا چاہتے ہیں۔لیکن عمران خان کے قریبی رفقاء کو باتیں بتانے سے مخالف سیاسی قوتیں احتساب کے عمل کو سیاسی بنانے میں کامیاب ہورہی ہیں۔ جبکہ انہوں نے ویسے ہی ڈبردوس ہونا ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کو یہ کبھی نہیں کہنا چاہیے کہ اس شخصیت کے بغیر یہ صوبہ نہیں چلے گا، یا وزارت نہیں چلے گی۔پھر اگر انہیں آنے والے دنوں میں اس شخصیت کو ہٹانا پڑ گیا توپھر کیا کہیں گے؟ جبکہ ان کوہٹا پڑے گا۔یہ نہیں کہ سوچا جائے گا بلکہ ہٹا نا پڑے گا۔