counter easy hit

تبدیلی نے پاکستانی میڈیا کو ایسا سینکا لگایا کہ اب کسی میں اختلاف کی جرات ہی نہیں ، بس اب یہ ہونا چاہیے کہ شمالی کوریا سے چند ماہرین پاکستان بلوائے جائیں اور ۔۔۔۔۔۔۔ سینیئر پاکستانی کالم نگار کی ایک روتی کرلاتی تحریر

لاہور (ویب ڈیسک) الحمرا آرٹس کونسل میں تین ہفتے قبل منعقد ہونے والے فیض میلے میں چند مقررین کو اس خدشے کی بنا پر شرکت سے روک دیا گیا کہ ان کے منہ سے ایسی ویسی بات نہ نکل جائے جس سے نئی نسل گمراہ ہو جائے۔ میڈیا نے اس خبر کو نامور کالم نگار وسعت اللہ خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ بھی بتنگڑ بنانے سے بوجوہ پرہیز کیا۔میڈیا نے پچھلے دس برس میں جس طرح زرداری اور نواز شریف حکومت کے لتے لیے اس کے مقابلے میں عمران حکومت کے لیے میڈیا کا رویہ اب تک بحثیتِ مجموعی دوستانہ یا نیم ناقدانہ ہے۔ میڈیا بھی واقف ہے کہ موجودہ حکومت پر پرانے انداز کی کھلی تنقید کا سینک کہاں کہاں پہنچ سکتا ہے اور خود میڈیا کے لیے ایسی خود سری کے کیا کیا امکانی معاشی و ادارتی نتائج نکل سکتے ہیں۔رہا سوشل میڈیا تو جب سے فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ ( آئی ایس پی آر ) کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے چند ماہ قبل سائبر سپیس میں سرگرم ریاستی بیانیے کے مخالف صحافیوں اور بلاگرز کے نام لے کر ان کے بیرونی ڈانڈے نقشوں اور گراف بنا کر بے نقاب کر دیے تب سے سائبر محاذ پر بھی سرکار اور ریاستی اقدامات کی مخالف یا ناقدانہ پوسٹوں میں خاصی کمی محسوس کی جا سکتی ہے۔ ساتھ ساتھ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ اور محبانِ وطن کی پر ہجوم غدار شناخت ٹرولنگ ایسی پوسٹوں اور ٹویٹس کا تسلی بخش قلع قمع کر رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود تین روز قبل میجر جنرل آصف غفور کو تفصیلی میڈیا بریفنگ میں کہنا پڑ گیا کہ میڈیا ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت میں کسی بھی دیگر ادارے سے زیادہ نوجوانوں کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے ۔اگر یہی میڈیا اگلے چھ ماہ اندرونی و بیرونی سطح پر پاکستان کے مثبت پہلو اور ترقی دکھائے تو دیکھیں پاکستان کہاں سے کہاں پہنچتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ مثبت تصویر دکھانے کے لیے پچھلے ایک برس میں جو اعلانیہ و غیر اعلانیہ انتظامات کیے گئے وہ بھی ناکافی لگ رہے ہیں۔اس کے بعد تو یہی راستہ ہے کہ تمام اخبارات و چینلز کے لیے ایک مرکزی نیوز روم تشکیل دیا جائے اور ایک ہی خبرنامہ اور اخباری صفحات تیار کر کے نشر اور شائع کرنے کا پابند بنا دیا جائے۔اس مقصد کے لیے برادر شمالی کوریا کے ماہرین بھی منگوائے جا سکتے ہیں جو صحافیوں، اینکروں، مدیروں اور مالکان کو تربیت دیں کہ ریاست اور میڈیا ایک ہی بانسری سے کس طرح یک رنگ و ہم آہنگ بیانئیہ دھنیں کامیابی سے تخلیق کر کے اجتماعی باجا بجا سکتے ہیں