counter easy hit

حسین نواز لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونر ہیں، سلمان اکرم

پاناما کیس میں وزیراعظم کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حسین نواز لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونر ہیں، نواز شریف کا فلیٹس سے تعلق نہیں، میاں شریف مرحوم کا ٹرائل ہو رہا ہے،الزام منی لانڈرنگ کا ہے،تعین اس مقدمے میں نہیں ہو سکتا۔

The beneficial owner of London flats is Hussain Nawaz, Salman Akram

The beneficial owner of London flats is Hussain Nawaz, Salman Akram

سپریم کورٹ میں آج حسن نواز اور حسین نواز کے وکیل نے دلائل جاری رکھے ، سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل میں کہاکہ حسین نواز لندن فلیٹس کے مالک ہیں، نواز شریف کا کوئی تعلق نہیں، میاں شریف مرحوم کا ٹرائل ہو رہا ہے،منی لانڈرنگ کا الزام غلط ہے،شواہد فراہم کرنا الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہے۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا قطری فیملی کو12 ملین درہم دینے کے لیے اونٹوں کی پیٹھ استعمال کی گئی؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے کہا کہ تمام ریکارڈ دستیاب ہے۔سلمان اکرم راجا نے جواب دیا وزیراعظم کا نہیں، ان کے بچوں کاوکیل ہوں، اپنا بوجھ کسی اور پر نہیں ڈال رہا، اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ اب بوجھ ڈالنے کے لیے کوئی اور بچا بھی نہیں ہے۔پاناماکیس میں وزیراعظم کے بچوں حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا کا دلائل میںکہنا تھا کہ لندن فلیٹس لوٹی ہوئی رقم سے بنانےکا الزام غلط ہے، درخواست گزاروں نے ثبوت نہیں صرف مواد فراہم کیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ ریکارڈ پیش کریں تو حقائق کا پتہ چل سکتا ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ قانون کی نظر میں جرم ثابت ہونے تک ملزم معصوم ہوتا ہے۔ یہ نیب ریفرنس کا ٹرائل نہیں۔ اس میں بھی بار ثبوت استغاثہ پر ہوتا ہے۔ منی لانڈرنگ کا تعین تحقیقات کے بغیر ممکن نہیں۔منی لانڈرنگ کا تعین آرٹیکل 184/3 کے مقدمے میں نہیں ہوسکتا۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میاں شریف کو لوہے کے کاروبار کا چار دہائیوں کا تجربہ تھا، اس لئے فیکٹریاں قومیائے جانے کے باعث 1973 میں دبئی کی رائل فیملی سے رابطہ کیاتو انہوں نے اسٹیل پلانٹ لگانے کے لیے ویلکم کیا۔ قرض حاصل کر کے لگائی گئی فیکٹری کے 75 فیصد شیئرز 1975 جبکہ 1980میں باقی پچیس فیصد شیئرز فروخت کیے گئے۔ ابتدائی شیئرز کی فروخت سے واجبات کی ادائیگی کی گئی جبکہ حتمی فروخت سے 12ملین درہم ملے جس کی قطری خاندان کو نقد ادائیگی کی گئی ۔جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ فیکٹری کے 75 فیصد حصص فروخت کرکے بھی 15 ملین واجبات باقی تھے،کیا آپ کو کوئی اندازہ ہے کہ باقی واجبات کیسے ادا ہوئے؟جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال اٹھایا کہ آپ نے صرف یہ بتایا کہ قرض لے کر فیکٹری لگائی گئی،اس سے متعلق کوئی دستاویز پیش نہیں کی۔سلمان اکرم راجا نے وضاحت کی کہ یہ 45سال پرانا ریکارڈ ہے۔ بینک اکاؤنٹ میاں شریف کے تھے، حسن اور حسین کے نہیں ،یہاں میاں شریف مرحوم کا ٹرائل ہورہا ہے۔ ان چیزوں کا ریکارڈ مانگا جارہا ہے جنکا تعلق میاں شریف مرحوم سے ہے۔انہوں نے بتایا کہ گلف اسٹیل کی حتمی فروخت سے طارق شفیع نے بارہ ملین درہم کی رقم دو، دو ملین درہم کی چھ ماہانہ اقساط میں وصول کیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا یہ رقم کیش کی صورت میں وصول کی گئی؟سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ رقم کی وصولی کیش میں ہونے کا علم نہیں مگر قطری فیملی کو ادائیگی ضرورکیش میں کی گئی تھی۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا اس رقم کے لیے اونٹوں کی پیٹھ استعمال کی گئی؟جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے وزیراعظم نے کہا تھا کہ تمام ریکارڈ دستیاب ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے یہ بھی کہاتھا کہ ثبوتوں کا انبار ہے۔سلمان اکرم راجا کے دلائل جاری تھے کہ سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website