counter easy hit

دادا : دل کھول کر کھائیے ، بل آپ کے پوتے ادا کریں گے ۔۔۔۔ زرداری اور نواز شریف کے کرپٹ ادوار میں خاموش رہنے والوں کے پیٹ میں عمران خان کے دور میں مروڑ کیوں اٹھ رہے ہیں ؟ ںامور خاتون صحافی نے ایک لطیفہ سنا کر سمجھا دیا

لاہور (ویب ڈیسک) کروڑوں روپوں میں پارلیمنٹ ارکان خریدنے والی حکومت کیوں کر غریب ہو سکتی ہے ؟حکومت امیر ترین بلکہ جہانگیر ترین ہے البتہ پرانا پاکستان غریب تھا لہٰذا نیا پاکستان بنانے کی ضرورت پیش آئی ؟اللہ کرے نیا پاکستان کو طعنہ سننے کو نہ ملے کہ خان دور حکومت سے تو نواز شریف کا دور اچھا تھا۔ نامور خاتون کالم نگار طیبہ ضیاء چیمہ روزنامہ نوائے وقت میں اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ماضی میں عمران خان نے ایک تقریب میں دوران تقریر حاضرین سے کہا ’’آپ نے زرداری کیخلاف جو نعرے لگائے، میں سمجھتا ہوں آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا۔ عمران خان زرداری کو ہمیشہ ’’چور‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ کہتے تھے ’’زرداری، تم کیا کر رہے ہو، مال بنا رہے ہو، پیسہ بنا رہے ہو، ملک کو لوٹ رہے ہو، آصف زرداری تم بزدل ہو، امریکہ کے غلام ہو، تم سے تو مشرف کا دور بہتر تھا۔ پاکستان کو تم جیسا گیدڑ سربراہ نہیں چاہئے‘‘۔ زرداری پر جوتا پھینکا گیا تو اس فعل کی عمران خان نے حمایت کرتے ہوئے کہا ’’زرداری پر جوتے ٹھیک پھینکے گئے ہیں، بادشاہ لائف سٹائل ہے اس کا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ عمران خان نے آصف علی زرداری کی شان میں جس قسم کے القابات، الزامات اور زبان استعمال کی، وہی زبان و لب و لہجہ نواز شریف کے خلاف بھی استعمال کرتے رہے۔جنرل پرویز مشرف کا دور خان صاحب کو اچھا لگتا تھا بلکہ مشرف کے مداح ہیں، اس کی پارٹی بھی جائن کر رکھی تھی اور آج بھی اس کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ زرداری دور حکومت کی کرپشن کی دنیا گواہ ہے، دنیا کا میڈیا گواہ ہے، پاکستان کا بچہ بچہ گواہ ہے، ٹین پرسنٹ اقتدار میں آنے کے بعد سو پرسنٹ بن گیا، بیوی قتل ہو گئی اور قاتل کو پروٹوکول کے ساتھ رخصت کیا۔ زرداری دور پاکستان کی تاریخ کا شرمناک دور تھا لیکن عمران خان نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت کو تاریخ کا شرمناک دور قرار دیتے ہیں۔نواز دور حکومت میں کئی بلنڈرز اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں مگر عمران خان نے زرداری دور کو نواز دور سے بہتر قرار دے کر دادا پوتا کا گھسا پٹا لطیفہ یاد دلا دیا۔ ایک مہنگے ریستوران کے باہربورڈ لگا تھا ’’دل کھول کر کھایئے، بل آپ کے پوتے ادا کریں گے‘‘۔ ایک نوجوان یہ پڑھ کر خوشی خوشی ریستوران میں چلا گیا کہ آج زندگی بھر کی بھوک ختم کرے گا۔ تمام طرح کی ڈشوں کا آرڈر کر دیا، سیر ہو کر کھایا اور جب اٹھنے لگا تو بیرے نے ایک لمبا چوڑا بل اس کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ نوجوان نے حیرانی سے بیرے کی طرف دیکھا ’یہ کیا ہے؟ بیرے نے جواب دیا ’’جناب یہ آپ کے دادا کا بل ہے‘‘۔ یہی حال پاکستان کا ہے۔ تمام پوتے اپنے پچھلوں کا بھگت رہے ہیں۔ خان صاحب کو اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب یہی عوام کہتے سنے جائیں ’’آپ سے تو نواز شریف کا دور اچھا تھا‘‘۔ اس نظام میں ہر نئے آنے والے کو پچھلے کا بل ادا کرنا ہے

لیکن ملک کو مزید مقروض کر کے چلے جاتے ہیں۔ عمران حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے فیصلے کے بعد انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں 11 روپے75 پیسے کا اضافہ ہوگیا، ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 136 روپے 75 پیسے تک پہنچ گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قدر بڑھنے کا سبب آئی ایم ایف کی متوقع شرائط پر مزید ڈی ویلیوایشن ہے۔حکومت نے منی بجٹ میں قیمتوں میں بہت معمولی اضافہ کیا مگر مہنگائی کے شور میں دکانداروں، سی این جی پمپ مالکان، ایل پی جی ڈیلرز اور دوسرے تمام مارکیٹ ڈیلرز نے قیمتوں میں اعلان کردہ شرح سے کہیں زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں پرائس کنٹرول اتھارٹی مکمل طور پر غیر متحرک ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بھی فی الحال کوئی ماسٹر پلان پیش نہیں کیا گیا۔ پولیس اور بیوروکریٹک ریفارمز پر کام انتہائی سست رفتار سے چل رہا ہے۔البتہ حکومت کی شروعات سادگی سے کی گئی ہے۔ سادگی مہم کے ذریعے کروڑوں روپے کی بچت جبکہ غیرضروروی گاڑیوں کی فروخت سے قومی خزانے میں کروڑوں روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ وزرا اور اراکین اسمبلی پر بیرون ملک دوروں اور علاج کی سہولت پر پابندی کے ذریعے قومی خزانے کے بہترین استعمال کا مثبت پیغام دیا گیا ہے۔عمران حکومت کے پاس پانچ سال ہیں۔ اچھے کی امید رکھی جا ئے۔