برمنگھم (ایس ایم عرفان طاہر سے) دہشتگردی، انتہا پسندی اور بدامنی کی دنیا میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ دہشتگردی ناموس رسالت کی آڑ میں ہو، شریعت کی آڑ میں ہو یا مسجد کی آڑ میں ناقابل قبول ہے۔ دہشتگردوں کی حما یت کرنے والے اور انکے معا ونین بھی دہشتگردی کے حصہ دار ہیں۔
ان خیالا ت کا اظہار سانحہ پشاور میں شہید ہو نے والے آٹھویں جما عت کے طالبعلم حارس نواز اور شدید زخمی غازی احمد نواز کے والد محمد نواز خان سفیر شہداء و غازی فورم سانحہ پشاور اے پی سی نے نوجوان صحافی و معروف کالم نگا ر ایس ایم عرفان طا ہر کو تا زہ ترین انٹرویو دیتے ہو ءے کیا ۔ انہو ں نے کہاکہ جو لوگ دہشتگردی کا براہ راستہ نشانہ بنتے ہیں انکے درد کو سمجھنا کسی عام شخص کے بس کی با ت نہیں ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ دہشتگردوں کے معاونین اور ہم خیال ہر کمیونٹی اور ہر طبقے میں موجود ہیں جو آءے روز سازشی عزایم کا عملی اظہا ر کرتے رہتے ہیں۔
انہو ں نے کہاکہ دہشتگردی محض کسی بیگناہ کو قتل کرنے سے تعبیر نہیں بلکہ بعض انتہا پسندانہ سوچ کے مالک اشخاص تقریر و تحریر اور اپنے منفی رویوں سے بھی دہشتگردی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا نے کی کوشش کرتے ہیں ۔ انہو ں نے کہاکہ میرے بیٹے نے دہشتگردی کے خلاف قربانی دیکر اے پی ایس کی جس تحریک کو جنم دیا ہے تا دم مرگ اسے رکنے نہیں دیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ سانحہ پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ اور معصوم جانوں کا ضیاع ۹/۱۱ ، سیون سیون اور فرانس حملہ سے بڑھ کر ہے جس نے پوری دنیا کو ایک پیج پر دہشتگردی اور بد امنی کے خلاف متحد و منظم کردیا ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب اپنے ذاتی مفادات پسند نا پسند اور خیالات کو ایک طرف رکھتے ہو یے دنیا میں پھیلتی ہویی دہشتگرد قوتوں کے خلاف اکھٹے ہوجاییں جو اسلام اور مسلمان کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔
انہو ں نے کہا کہ دہشتگرد قوتوں کو زیر کرنے کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی اور امن و روادری کو فروغ دینا ہو گا ۔ انہو ں نے کہاکہ دہشتگردی انتہا پسندی اور بدامنی کے باعث جو لوگ پراءے دیس میں اپنے وطن اور اپنے پیاروں سے دور زندگی بسر کر رہے ہیں وہ اس کرب اور مصیبت کو زیادہ بہتر انداز میں محسوس کرسکتے ہیں ۔ انہو ں نے کہاکہ میرا ایک پھول جیسا بیٹا اس دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے جبکہ دوسرا معصوم زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلاء ہے۔ انہو ں نے اپنے زخمی بیٹے غازی احمد نواز کے علاج معالجہ با رے آگاہ کرتے ہو ءے بتایا کہ کویین الزبتھ ہا سپٹل برمنگھم کے سنیر پروفیسر ڈاکٹرز کا ایک اہم پینل میرے بیٹے کے علاج معالجہ پر معمور ہے اس کی تیزی سے صحت یابی کے لیے تحقیقات اور عملی اقدامات اٹھا ءے جا رہے ہیں لیکن اس کی جو باییں با زو میں فا یر لگا تھا اس کی وجہ سے بازو کے درمیان والی ہڈی اور سکن غا یب ہو گیی تھی جس کی نقل و حرکت کے لیے میٹل پلیٹ کا استعمال کیا گیا ہے لیکن مکمل بحالی کے لیے ایک سال کا عرصہ درکار ہے اسی طرح جسم کی سرجری بھی کی گیی ہے جس کے زخم بھرنے میں بھی تقریبا مزید سال درکا ر ہوگا ذہنی طو ر پر بھی بچے کو شدید صدمہ اور تکلیف دہ حالات سے گزر رہا ہے معصوم بچے نے اپنی استاد خاتون کو اپنے سامنے جلتے ہو ءے اور سفاک دہشتگرد درندوں کے ہاتھوں سینکڑوں بچوں کو اپنے سامنے کٹتے جلتے تڑپتے اور مرتے دیکھا ہے جو کیفیات اس کے ذہن و گمان میں ثبت ہیں وہ اس حالت میں تکلیف اور شدید درد کے باعث تسلی سے سو بھی نہیں سکتا ہے۔
اس کی آنکھوں میں آج بھی وہ خوفناک منظر رونما ہوتا ہوا دکھایی دیتا ہے اور جس کی وجہ سے وہ شدید ازیت میں دن گزار رہا ہے اسے اپنے بچھڑے ہو ءے ساتھی ہم عصر اور اپنا حقیقی بھایی حارس نواز شہید بہت یاد آتا ہے جس کو سوچ سوچ کر بچے کی حالت غیر ہوجاتی احمد نواز جسمانی طور پر تو زخمی ہے ہی لیکن اس بدنما سانحہ نے اسے ذہنی طور پر بھی زخمی کردیا ہے میری بس یہی خواہش ہے کہ جس کرب اور تکلیف میں میرا خاندان اور اے پی ایس کے دیگر خاندان مبتلاء ہیں دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف دنیا بھر میں ایک موءثر آواز بلند کی جا ءے تاکہ کویی دوسرا اس ازیت ناک مرحلے سے دوچار نہ ہوسکے کسی کا پھول اسکی آنکھوں کے سامنے نہ مرجھا ءے کسی کی اولاد کا درد اسے زندگی میں نہ جھیلنا پڑے اور ہر طرف بد کردار دہشتگردوں کی مذمت میں ایک تحریک متحرک ہوجاءے اس میں میرا پیغام پو ری دنیا میں یہی ہے کہ دہشتگردی ، بد امنی ، انتہا پسندی اور افرا تفری کے خلاف یک جان ہوکر میرا ساتھ دیں تاکہ وحشت و دہشت کا بوپار کرنے والے ان درندہ صفت حیوانوں کے خلاف ایک مضبوط بندھ باندھ دیا جا ءے تاکہ کویی بھی گھر اس تباہی و بربادی کا شکا ر نہ ہو کسی کی اولاد یا والدین اس سے جدا نہ ہو ں ہر طرف امن رواداری اور ہم آہنگی کی فضاء قاءم ہو جا ءے کویی تفرقہ کویی تعصب اور کویی بھی اختلاف جنم نہ لینے پاءے ۔ان اشعار کے ساتھ اجا زت چا ہوں گا خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو یہاں جو پھول کھلے کھلا رہے برسوں یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو۔