counter easy hit

سوشل نیٹ ورکس فیس بک کے ہماری زندگی پر اثرات

Zara Rizwan

Zara Rizwan

تحریر: زارا رضوان (زارا زکیہ)
جدید ٹیکنالوجی (اِنٹرنیٹ وموبائل)نے ہماری زندگی کوآسان بنایا ہی تھا ،سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک نے تو اسکو آسان تر بنا دیا ہے۔ فیس بک اور ٹویٹر میں ہم ہماری لسٹ میں موجود دوست احباب کی سرگرمیوں سے واقف رہتے ہیں۔ ایک سنگل ٹویٹ یا فیس بک اسٹیٹس سے ایکٹویٹی کا پتہ چل جاتا ہے کہ کون کہاں گیا، کیا ایوینٹ سیلیبریٹ کیا، کون کیسا محسوس کر رہا ہیوغیرہ وغیرہ۔ سیلفائی اورمختلف ایوینٹس کی تصاویر بنا کر شیئر کرنا ایک عام بات ہو گئی ہے۔ لوگوں کاکہ ہر بات کی خبر بمعہ تصویر اپنے احباب و دوست تک پہنچانا ایک معمول سا بن گیا ہے۔ یوں سمجھ لیں بغیر تصویر کے اسٹیٹس لکھنا بیکار ہے۔

اسطرح بوریت و دوریت کا احساس ختم ہوتے ہوتے مٹ کر رہ گیا ہے۔ ہراچھی چیز خصوصاً ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقف ہونا اسکو استعمال میں لانا بلاشبہ اچھی بات ہے لیکن ہراچھے پہلو کیساتھ منفی پہلو بھی ہوتا ہے۔کچھ ایسا ہی اس طرف بھی ہے یعنی سوشل میڈیا نے ہماری زندگی کو سہل تو بنا دیا ہے لیکن اِسکے منفی پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پوری دْنیا میں تو اِسکے یوزرز بڑھتے جا رہے ہیں لیکن پاکستان میں بھی اسکے صارفین کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری نوجوان نسل بشمول اسٹوڈنٹس، ٹیچرز، رائٹر، شاعر، ایکٹر، ڈائریکٹر، پروڈیوسر، بزنس مین، عام ورکرز وغیرہ مکمل طور پر سوشل میڈیا کے زیرِ اثر ہے۔

طالبعلم کی بات کریں تو اْنکی نصابی وغیر نصابی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔ ہوم ورک مکمل کرتے ہی فیس بک لاگن کرنا اْنکی روٹین کا حصہ بن چکا ہے۔ اْنکی نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں صرف فیس بک سے منسلک ہیں۔ پہلے پہل اس سے تاریخی، دِلچسپ و کارآمد معلومات حاصل کی جاتی تھیں لیکن اب ایسا ہرگز نہیں ہے، سب بدل گیا ہے۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اِس کے صحیح مصرف کو جانتے ہیں اور ضرورت کے وقت اسکا استعمال کرتے۔ جبکہ کچھ لوگوں کے نزدیک اِس سے اہم کوئی چیز نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ مثبت اثرات کی بجائے اسکے منفی اثرات زیادہ مرتب ہو رہے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ بلکہ یوں کہنا ٹھیک رہے گا کہ ہم لوگ اسکے منفی اثرات کو زیادہ قبول کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہماری ملک میں سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک کا منفی استعمال دن بہ دن نہ صرف بڑھتا جا رہا ہے بلکہ گہرے اثرت بھی چھوڑ رہا ہے۔ موجودہ دور میں یہ مفید معلومات پہنچانے ، علم اور تفریح کے حصول کا موثر ذریعہ بن چکی ہے۔لیکن افسوس کہ صارفین کی ایک بڑی تعدادبے بنیاد خبریں و اطلاعات پھیلانے کیلئے اسکو استعمال کر رہی ہے۔ تصاویر، ویڈیوز اور خبروں میں ردو بدل کرکے لوگوں کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔مذہبی، سیاسی، غیر اِخلاقی پوسٹس اور پروپیگنڈے کیلئے مختلف لوگوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے ایک سے زائد اکاؤئنٹس بنا رکھے ہیں۔

اِنتشار پھیلانے کیلئے گروپس اور پیجز بنا کرمختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لوگ ایک دْوسرے کونیچا دِکھانے کیلئے لعن طعن کرتے نظر آتے ہیں،لوگوں میں ذہنی اِنتشار پھیلایا جاتا ہے۔ کیا غلط ہے کیا صحیح یہ کوئی نہیں جاننا چاہتا بس ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنا ہے۔ مخالفین کیلئے کمنٹس میں ایسی نا زیبازبان استعمال کر جاتے ہیں جودائرہ اِخلاق میں نہیں آتی۔ اور صد افسوس کہ وہ لوگ جو کسی پارٹی یا تنظیم کا حصہ نہیں ہوتے وہ بھی کمنٹ کرکے کارِخیر میں شامل ہونا فرض سمجھتے ہیں بنا سوچے کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جسکا مقصد ہی اِنتشار پھیلانا ہے۔تمام سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس بشمول فیس بک پر ہر طرح کی زبان استعمال کرنے کی مکمل آزادی ہے۔

ہر طرح کی تصاویر و ویڈیوز اپلوڈ کرنے کی اِجازت ہے جسکی وجہ سے صرف فیس بک پرہی نہیں بلکہ پریکٹیکل لائف میں بھی مختلف مذہبی و سیاسی مکاتب فکر کے درمیان بغض، کینہ، کدورت اور فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ ابھی آپ کسی بھی سیاسی یا مذہبی رہنما کی پارٹی کاپیج اوپن کرکے دیکھ لیں آپکو معلوم ہو گاکہ ایک دوسرے کیخلاف نفرت و کدورت کا پیمانہ کہاں تک ہے۔بات یہیں تک نہیں ہے۔ توجّہ حاصل کرنے کیلئے لڑکیاں پرکشش اداکاراؤں اور ماڈلز کی تصاویر کو پروفائل پکچربناتی ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ اِن میں سے اٹھانویں فیصد آئی ڈیز فیک ہوتی ہیں جو خاص مقصد کیلئے بنائی جاتی ہے جو کہ نیک نہیں ہوگا۔

بالکل اِسی طرح کئی لڑکے نقلی نام جو مخالف جنس کیلئے کشش کا باعث ہو رکھتے ہیں تاکہ اْنکو متوجہ کر سکے۔بہت سے ایسے ہیں جو لڑکی کا اکاؤئنٹ بناتے ہیں اور ظاہر ہے ایسا وہ اچھے مقصد کیلئے نہیں کرتے ہونگے۔ ایک بہت قابلِ افسوس بات کہ لڑکیاں جا بجا اپنی تصاویر شیئر کرتی ہیں۔ وہ جانتی بھی ہیں کہ اِنکی تصاویر کو کسی بھی غلط مقصد و کام کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ کیا جا رہا ہے۔ کوئی فیک آئی ڈی بنا کر اْن پکچرز کو پروفائل پکچر بنا لیتا ہے کہ اصل ہونے کا گمان ہو اور نوے فیصد ایسا ہو بھی رہا ہے۔ لڑکوں کا فیک آئی بنا کرکسی بھی لڑکی کی فوٹولگا کر لڑکوں کو بیوقوف بنانا اور لڑکیوں سے دوستی کرنا عام ہو گیا ہے۔

قصور بلاشبہ لڑکیوں کا بھی ہے جو اپنی تصاویر بنا سوچے سمجھے ہر جگہ شیئر کرتی ہیں یہ بہت غلط بات ہے۔یہ نیٹ ورکس ہماری سہولت کیلئے بنائے گئے ہیں ۔ ہماری تفریح، معلومات وغیرہ کیلئے بنائے گئے ہیں۔ ایک دوسرے سے قریب کرنے کیلئے، اپنے جذبات و احساسات کو الفاظ کا روپ دے کرشیئر کرنے کیلئے ہیں۔اس کو کسی غلط مقصد کیلئے استعمال کرنا بہت برا فعل ہے جو قابلِ مذمت ہے۔ ایسے کئی اور بہت سے منفی کام ہیں جو اِس سوشل نیٹ ورک کے ذریعے ہو رہے ہیں لیکن ہم سمجھنے کی بجائے اِس کنویں میں گرتے ہی چلے جا رہے ہیں۔مختصراًاِتنا کہونگی کہ سوشل نیٹ ورکس کا بننا غلط نہیں بلکہ اِسکے استعمال کا طریقہ کار غلط ہے۔ہم پر منحصر ہے کہ ہم کسی چیز کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں۔اُسکا مثبت و منفی استعمال ہماری سوچ، افکار، نظریات، مقصد پر منحصر ہے۔

تحریر: زارا رضوان (زارا زکیہ)