counter easy hit

نیب کیسز سے دستبرداری کے بعد احتساب عدالت میں نواز شریف اور خواجہ حارث کے درمیان گفتگو

”کوئی بھی وکیل کڑی شرائط پر پیش ہونے کے لیے تیار نہیں” نیب ریفرنسز میں میرے بنیادی حقوق سلب کیے جارہے ہیں، نواز شریف
Talking to Nawaz Sharif and Khawaja Harris in the Accountability court, after abandonment NAB casesاسلام آباد: (اصغر علی مبارک) سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ نیب ریفرنسز میں ان کے بنیادی حقوق سلب کیے جارہے ہیں اور کوئی بھی وکیل کڑی شرائط پر کیس لڑنے کے لیے تیار نہیں۔لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ’خواجہ حارث آج میرے ریفرنس سے دستبردار ہوگئے، احتساب عدالت نے مجھے نیا وکیل کرنے کی ہدایت کی ہے، عدالت سے نیا وکیل مقرر کرنے کے لیے وقت مانگا ہے کل اس پر مزید بات ہوگی، لیکن کوئی بھی وکیل کڑی شرائط پر پیش ہونے کے لیے تیار نہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی نیا وکیل مل بھی جائے تو ہزاروں صفحات کا جائزہ لینے، لگ بھگ 60 گواہوں کے بیانات دیکھنے، جے آئی ٹی کی نو جلدوں کا مطالعہ کرنے، تین صندوقوں میں بند کاغذات کو دیکھنے اور ریفرنسز کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے لیے نہ جانے کتنا وقت درکار ہوگا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا ممکن نہیں کہ دوسرا وکیل کل وکالت نامہ جمع کرائے اور پرسوں سے دلائل شروع کردے، یہ قانون و انصاف کا کھلا مذاق اڑانے والی بات ہے، میرے علم میں نہیں کہ ملک کی 70 سالہ تاریخ میں کسی احتساب عدالت پر اس طرح کی قدغن لگائی گئی ہو یا کسی وکیل کو مجبور کیا گیا ہو کہ پورا دن مقدمہ لڑے اور چھٹی والے دن بھی پیش ہو۔‘نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’آئین کے متعدد آرٹیکلز اور فیئر ٹرائل کے بنیادی تقاضوں کے خلاف ہے، میرے بنیادی حقوق بری طرح سلب کیے جارہے ہیں، مجھے میرے دفاع کے حق سے محروم کیا جارہا ہے اور ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ میں وکیل کی خدمات سے بھی محروم ہوگیا ہوں۔‘انہوں نے سوالات اٹھائے کہ ’احتساب عدالت میں مختلف طرح کے ہزاروں مقدمات دائر ہیں، کیا کسی ایک بھی مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہورہی ہے؟ میں جس عدالت میں پیش ہوتا ہوں اس کے پاس بھی دیگر 40 مقدمات ہیں، کیا چیف جسٹس کو علم ہے کہ وہ مقدمات کب درج ہوئے؟ ملزمان نے کتنی پیشیاں بھگتیں اور اب تک کیا کارروائی ہوئی؟ کیا کوئی ایک بھی ایسا مقدمہ ہے جس کی مانیٹرنگ سپریم کورٹ کا ایک جج کر رہا ہو؟ کیا کسی بڑے سے بڑے جرم میں بھی کسی پاکستانی نے ایک سو کے لگ بھگ پیشیاں بھگتی ہیں؟ جبکہ آج تک کس وکیل کے لیے یہ حکم جاری ہوا ہے کہ وہ تیار کیے بغیر مشین کی طرح عدالت میں حاضری دے؟‘ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اپنی نوعیت کا عجیب مقدمہ ہے جس کی سماعت تو احتساب عدالت میں ہورہی ہے لیکن ڈوریں سپریم کورٹ سے ہلائی جارہی ہیں، اگر ماتحت عدالت کی کارروائی پر اس طرح اثر انداز ہوا جائے، وکلا صفائی پر اس طرح دباؤ ڈالا جائے، حق دفاع سے محروم کردیا جائے تو ان حالات میں کس طرح اپیل میں جاؤں گا اور کس کے پاس جاؤں گا۔‘سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’ریفرنسز میں تاخیر کی تمام ذمہ داری استغاثہ پر ہے، ہر بار توسیع استغاثہ نے ہی مانگی، جب بھی عدالت نے پوچھا کہ کیا ملزمان کی جانب سے تعاون نہیں ہورہا تو یہ بات ریکارڈ پر لانا پڑی کہ وکلا صفائی کی طرف سے کوئی تاخیر نہیں ہوئی، ہمارے وکلا نے ایک بھی پیشی کے لیے نئی تاریخ کا تقاضہ نہیں کیا، مجھے اپنی اہلیہ سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دی جارہی لیکن میں نے اور میرے وکلا نے ہر حال میں تعاون جاری رکھا۔‘انہوں نے کہا کہ ’پاناما کے نام سے شروع ہونے والے اس کھیل کی آخری قسط ظلم و ناانصافی کی انتہائی افسوسناک نظیر ہے، اب تک بہت سے راز کھل چکے ہیں اور کئی سوالات کے جوابات آنے ہیں، قوم کو پتہ چلنا چاہیے کہ فضول، لغو اور لایعنی قرار دی گئی درخواست کیسے معتبر ہوگئی، جے آئی ٹی کیسے بنی، واٹس ایپ کال کس نے کی اور کس نے کرائیں، جب کرپشن کا ایک بھی پیسہ ثابت نہیں ہوا تو اقامہ نکالا گیا، ایک خیال تنخواہ دریافت کی گئی اور اس الزام میں کہ میں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی وزیر اعظم ہاؤس سے نکال دیا گیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں پتہ کے انتخابات سے عین پہلے ریفرنسز کے اہم موڑ پر یہ صورتحال کیوں پیدا کردی گئی ہے، ابھی تو تین میں سے دو ریفرنسز کے گواہاں پر جرح بھی نہیں ہوئی، مجھے نہیں معلوم کہ میرا حق دفاع اہم ہے یا الیکشن سے قبل فیصلہ، قانون و انصاف اہم ہے، کیا پاکستانی شہری کے بنیادی حقوق اہم ہیں یا الیکشن سے پہلے فیصلہ۔‘نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’میں قومی تاریخ کے اس المیے کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایک ڈکٹیٹر کی کس طرح بَلائیں لی جارہی ہیں جو ملک کے آئین سے غداری، ججز کو قید کرنے، ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکنے کا مرتکب ہوا۔‘انہوں نے کہا کہ ’آخر میں یہی کہوں گا کہ اگر 25 جولائی کے انتخابات سے قبل میرے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ضروری یا مجبوری ہے تو پھر فیصلہ کر دیجئے، اگر ایسا ہی ہے تو پھر قانون و انصاف، آئینی تقاضوں، بنیادی انسانی حقوق اور عدالتی روایات کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔‘