counter easy hit

ایسا نظام، کیسی دیانتداری ؟

عابد تہامی

ملک بھر میں خصوصاًلاہور اور پنجاب میں شدید دھند نے زندگی مفلوج کر کے رکھ دی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی ، درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے اسموگ بنتی ہے ، خطرناک کثافتوں کی وجہ سے شہری سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں، دمہ کے مریضوںکیلئے تو یہ ا سموگ جان لیوا ہوتا ہے۔ لاہور کا ہر دوسرا شہری آنکھوں، جلد اور گلے کی بیماری کا شکار ہوگیا ہے ، ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبائی دارالحکومت میں روزانہ 20لاکھ گاڑیوں کی آمدورفت ہوتی ہے۔ پھر ٹریفک جام کی وجہ سے جو دھواں اور گیس خارج ہوتی ہے وہ بہت ہی خطرناک ہے کیونکہ اسموگ میں سلفر ڈائی آکسائیڈ ، نائٹرو جن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہیں ، جس سے آنکھوں اور چہرے پرجلن ہوتی ہے اسلئے احتیاط کریں اور صرف ضرورت کے تحت ماسک پہن کر گھر سے نکلا جائے۔ اس خوف نے کئی دنوں سے شہریوں کو برائلرمرغیوں کی طرح ڈربوں میں بند کر رکھا ہے .ہم سب اس اسموگ کا شکارہوئے تو آوازیں نکالنا شروع کر دیں مگر ملک کے اندر جو کرپشن اور بددیانتی کی ا سموگ ہے جس نے پورے نظام کو نہ صرف مفلوج کردیا ہے بلکہ ملک کو لوٹنے والے کرپٹ سیاستدانوں، حکمرانوں کو اپنی حفاظت میں لیا ہوا ہے اور کوئی عام شہری ا سموگ ہٹا کر اُنکے اصل چہرے نہیں دیکھ سکتا ۔اُس کے بارے میں عوام کو کون آگاہ کریگا، کونسے ماہرین انہیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیںگے ، دیکھا جائے تو یہ مشورہ صرف دیانتدار ، ذمہ دار ، خوف خدا رکھنے والے ، غریبوں سے محبت اور اس ملک کے وفادار لوگ ہی دے سکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے لوگ ملک میں موجود ہیں ، تو ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ایسے افراد نہ صرف موجود ہیں بلکہ اُن میں سے کچھ اس ا سموگ زدہ نظام کیخلاف بڑی جرات و بہادری سے آواز بھی اٹھا رہے ہیں۔ مگر کرپٹ مافیا ایک منظم طریقے سے انہیں بڑی شدت کیساتھ ختم کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ یہ کرپٹ ، بددیانت مافیا ہر دفتر ، تعلیمی اداروں ، اسپتالوں ، اسمبلیوں اور حتیٰ کے ہر محکمے میں موجود ہے اور وہ اتنا طاقتور ہے کہ نیکی اُنکے سامنے اپنا چہرہ نہیں دیکھ پاتی ۔پھر یہ دیانتدار اس مادر وطن سے محبت کرنیوالے یا تو خودکشی کر لیتے ہیں یا انہیں پاگل قرار دے دیا جاتاہے ، دوسال پہلے سول سیکرٹریٹ کے ایک سینئر دیانتدار بیوروکریٹ نے اسی دکھ میںخودکشی کر لی تھی ، اسکے بعد سے آج تک میں نے مختلف محکموں میں کام کرنیوالے ایسے 120کے قریب افراد سے انٹرویو کئے ۔ اُنکی پوری زندگیوں کی کہانیاںاپنی زیر تکمیل کتاب کیلئے حاصل کیں ۔ مگر میں ایک خبرپڑھ کر مجبور ہوگیا ہوں کہ اسکاکچھ ذکر کالم میں بھی کروں۔لوگوں کو پتہ چلنا چاہئے کہ اس ملک کے وفاداروں ، اچھے نظام سے محبت کرنیوالوں اور میرٹ کو رائج کرنیوالوں کا یہ کرپٹ مافیا کس کس انداز میں استحصال کرتا ہے۔
پہلے اس خبر کا ذکر جو ا سموگ زدہ اور داغدار نظام کی اصلیت سامنے لاتی ہے۔ 24اکتوبر 2016ء کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر آپریشنز نے محکمے سے 104دن کی رخصت لے لی ، بظاہر وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ انکے سسر اور ساس بیمار ہیںاور اُنکی تیما ر د ا ر ی کیلئے چھٹی لی گئی ہے۔ لیکن بعض حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر کو مضر صحت دودھ مافیا کیخلاف کارروائی کرنے کی پاداش میں عہدے سے ہٹوا دیا گیا ۔ کیونکہ انہوں نے رولز کی خلاف ورزی پر دودھ کے دو یونٹ سیل کئےتھے ۔ جسکا سپریم کورٹ نے سوموٹو بھی لیا ،دودھ کے اس مافیا کے پاس لائسنس بھی نہیں تھا ۔ سپریم کورٹ نے ڈی جی فوڈسے کہا تھا کہ آپ فیصلہ کریں کہ انہیں لا ئسنس ملنا چاہئے کہ نہیں اور اسکی رپورٹ عائشہ ممتاز کو کرنی تھی اور نئے ڈی جی کے آنے کے بعد دودھ مافیا سے تعلق رکھنے والے فوڈ اتھارٹی کے اہلکاروں نے پیغام دیا کہ خاموشی سے چلے جائو ۔قارئین آپ نے انہیں دنوں محکمہ لائیو اسٹاک کی یہ خبر بھی پڑھی ہوگی کہ لاہور میںر روزانہ 80ہزار لیٹر دودھ آتا ہے جبکہ 4لاکھ لیٹر دودھ بکتا ہے ، یہ تین لاکھ 20 ہزار لیٹر دودھ کہاں سے پیدا ہو جاتا ہے؟ یہ وہ دودھ ہے جو انسانی زندگیوں کا قتل کر رہا ہے۔ قارئین کویہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013ء کے تحت حاصل کردہ معلومات کے مطابق 2012ء سے اب تک پنجاب بھر میں 2لاکھ6سو ریستورانوں اور فوڈ آئوٹ لٹس کو سیل کیا گیا ، ہزاروں من مضر صحت کھانے کی اشیاء قبضے میں لیکر تلف کر دی گئیں۔ صرف لاہور کے اندر 45ہزار 522فوڈ آئوٹ لٹس ، 14ہزار 407کھانے پینے کی ا شیاء کی دکانوں ، 63ہزار 375ہوٹل اور ریستورانوں کو سیل کیا گیا۔
ذرا سوچئے جب یہ آپریشن ہورہے تھے تو ہر شہری نے کچھ سُکھ کا سانس لیا اور امید ہونے لگی کہ انہیں اب خالص خوراک ملنے لگے گی مگر افسوس کہ یہ کرپٹ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ وہ اس ملک میں کسی اچھے اور بھلائی والے کام کو پھلتے پھولتے نہیں دیکھ سکتا ۔ میں ایک سیمنٹ فیکٹری کے جنرل منیجر کو جانتا ہوں جنہوں نے ملک سے وفاداری کرتے ہوئے سرکاری سیمنٹ فیکٹر ی کو اونے پونے دام بیچنے کی دستاویزات پر دستخط نہ کئے تو انہیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ 30سال کی نوکری کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر انکی بیوہ کو پنشن تک نہ دی گئی ۔ ایک دیانتدار سرکاریآفیسر کو32سال ایک بھی پرموشن نہ دی گئی کیونکہ اُس نے ملک کو کروڑوں کا نقصان پہنچانے والے مافیا کی نشاندہی کی تھی —لاہور کے سب سے بڑے اسپتال کے ایک سینئر ڈاکٹر نے لوگوں کی بھلائی کیلئے مخیرحضرات سے ڈونیشن لیکر ایک وارڈ قائم کیا مگر اس اسپتال کے کرپٹ انچارج نے انہیں صرف اس بنیاد پر ہٹادیا کہ وارڈ میںعلاج ہونا شروع ہو گیا تو اسکے نجی اسپتال میں الو بولیں گے۔ایسی لاکھوں مثالیں ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب تعلیم برائے فرو خت ہوجائے ، استاد اپنی اکیڈیموں کی پرموشن کیلئے گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں نہیں پڑھائیں ۔ نوجوان نوکری کیلئے رشوت دینے پر مجبور ہوں ۔ جہاں ایک دن اور سات دن کی چھٹی لینے کے ریٹ مقرر ہوں ، جس نظام کے تحت اپنی تنخواہ اور حقوق کیلئے رشو ت کے انبار لگانے پڑیں، جس نظام کے تحت ہر کوئی دوسرے کا گلا کاٹ رہا ہو ، جہاں گوشت کے نام پر مردار کھلایا جائے ، کیا وہاں دیانتدار، محب وطن اور کرپٹ نظام کیخلاف آواز اٹھانے والوں کو کوئی جینے دے گا ، ہوسکتا ہے کہ آپکے ذہن میں جواب نفی میں ہو۔ ہمیں اپنے ساتھ عہد کرنا چاہئے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہیں کرپٹ نظام تبدیل کرنے کیلئے ہمیںآواز اٹھاتے رہنا ہے کیونکہ قرآن پاک میںنا امیدی کا کوئی درس نہیں بلکہ ناپسندیدگی کے معنوں میں آیا ہے بس عزم کر کے اللہ تعالیٰ پر توکل کریں ،بیشک وہ اس پر توکل کرنیوالوں سے محبت کرتا ہے۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website