counter easy hit

اور اب فوجی عدالتوں کی مخالفت ؟؟

Army Public School

Army Public School

تحریر : بدر سرحدی

آرمی پبلک سکول پر دشت گرد حملہ کے بعد پوری قوم د ہشتگردی کے حوالے سے فوج کی پشت پر کھڑی ہو گئی اے پی سی بلائی گئی ،تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں آئنی ترمیم پر متفق ہوئیں ،مگر مولانا فضل الرحمن ، جماعت اسلامی اور سمیع الحق کے اعتراضات یا تحفضات کے ہوتے ہوئے قوم یکسو تھی، ٢١ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی ،اس میںفوجی عدالتوں کو دو سال تک دشتگردوں کے خلاف قائم مقدمات کی سماعت کا آئنی تحفظ دیا گیا پھر ….. لیکن فوجی عدالتیں،ملک بھر میں ان پر بحث شروع ہوگئی

قانون دانوں ،تجزیہ نگاروں ،اخبار ات کی آراء ،اور بعض حلقوں نے اِسے سول مارشل لا سے تعبیر ،بلکہ مارشل لاکاپیش خیمہ قرار دیا، آل پاکستا ن نمائندہ وکلا ء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے راہنما قانون دان حامد خان نے کہا ٢١ ویں ترمیم کے معاملے پر سپریم کورٹ بار اور پاکستا ن بار کونسل کا کردار افسوسناک ہے ہم نے ہمیشہ فوجی عدالتوںاور فوجی حکومتوں کی مخالفت کی ،٢١، ویں ترمیم آئین و قانون کی حکمرانی ، عدلیہ کی آزادی اور تقسیم اختیارات کی نفی کرتی ہے پیشہ ور وکلا فوجی عدالتوں کو سپورٹ نہیں کر سکتے …..

اخباری رپورٹ کے مطابق انہوں اپنے لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا ” ہم نے ” آئین کی بدنام زمانہ آٹھویں تریم موجود ہے جو ڈکٹیٹر ضیاالحق نے ٨٥ ، کی قومی اسمبلی کی گردن پر انگوٹھہ رکھ کر منظور کرائی تھی ،جس میں وقت کے بد ترین آمر نے اپنے ٨ ،سالہ غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات یہاں تک کہ بھٹو کے عدالتی قتل کو بھی آئینی تحفظ دیا اور پھر اسی ،٨،ترمیم کی تلوار سے نہ صرف اسی اسمبلی کو اُڑا دیا جس نے ترمیم پر انگوٹھہ لگایا تھا ،بلکہ آنے تین اسمبلیاں بھی شکار ہوئیں ،١٧ ویں ترمیم بھی منظور ہوئی ، تب یہ عدلیہ کے محافظ کہاں تھے کوئی احتجاج نہ کیا،بلکہ حصہ بنے رہے،جب کہ ٢١ویں ترمیم مینڈیٹ کی حامل جمہوری حکومت نے تمام سیاسی پارٹیوں کے تعاون سے منظور کرائی، فوجی عدالتیں حالات و وقت کا جبر ہے

ملک حالت جنگ میں ہے…، ایک قاتل کے وکلا نے بوسے لئے پھولو کے ہار پہنا کر ہیرو بنا دیا سزا دینے والا جج کہاں،٢٠٠٠،لاہور ہائی کورٹ کہ دورکنی بینچ نے علی پور چھٹھ کے ایک حساس مقدمہ میں ملزم کی بریت کے آرڈر میں لکھا کہ اس کیس کا مواد جلا دیا جائے یا دریا برد کر دیا جائے پریس کو خبر جاری نہ کی جائے کہ ایسے مقدمات میں ججوں کے لئے بھی کوئی تحفظ نہیں …،اس وقت دہشت گردی کے ہزاروں مقدمات التواکا شکار ہیں ،گویا یہ ہزاروں دہشت گرد سرکاری مہمان بن کر قومی خزانہ پر نہیں بلکہ غریب عوام پر بھی بوجھ ہیں ،اگر طالبان حمائتی یا ان دہشت گردوں کے سہولت کار یہ نہیں چاہتے کہ پچاس ہزار سے زائد معصوم پاکستانی شہریوں کے قاتلوں کو سزائیں ہوں تو پھر جیل دروازے ہی کھلوا دیں تاکہ غریب پر کا کچھ تو بوجھ کم ہو جائے ،جو آج فوجی عدالتوں کی مخالفت کر رہے ہیں

اُنہیں ملک میں قائم جرگہ سسٹم کی صورت میں متوازی عدالتیں کیوں کبھی نظر نہیں آتی جہاں معصوم بچیاں ونی کردی جاتی ہیں ،جہاں کاروکاری کے نام پر زندہ ہی دفن کر دی جاتی انہیں دنوں جب فوجی عدالتیں زیربحث تھیں شکار پو ر کے جرگہ نے کچے کے علاقے میں ،ایک تین سالہ بچی کا نکاح ٣٦ سالہ شخص سے اور ٦ ،سالہ بچی کا نکاح ٤٠ سالہ شخص سے کر دیا مہذب معاشرے میںکہیں ایسی مثال ہے ، لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر شفقت محمود چوہان نے کہا یہ ترمیم غیر آئینی اسے وکلا مسترد کرتے ہیں ،فوجی عدالتیں دہشت گردی ختم کرنے کی بجائے دہشت پھیلائیں گی

فوجی عدالتیں عدلیہ پر حملہ ہے ہم عدلیہ کا تحفظ کریں گے ….،، کیا استدلال ہے ،جنہیں خود ملک میں جرگہ سسٹم کی متوازی عدالتیں تو نظر نہیں آتیں مگر … ! اِس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ جو سپریم ادارہ ہے جسے آئین میں ترمیم کا اختیار ہے جنہیں عوام نے یہ اختیار دیا ہے ، فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے آئین میں ترمیم کر کے گویا دہشت گردی کی سرپرستی کی ہے ، اب عدلیہ کے محافظوں سے سوال ہے کہ کیا آ پ کے نزدیک ١٨ کروڑ عوام کے جان و مال کی کوئی اہمیت ہے کہ اسے بچانے میں اپنا حصہ شئیر کیا جائے ۔یا دس ،بارا، ہزار دہشت گردوںکا تحفظ، جو عوام کی جان و مال کے دشمن ہی نہیںبلکہ پاکستان اور اِس کے آئین کو سرے سے مانتے ہی نہیں…!!
پشاور میں جمعہ کی نماز کے دوران جب لوگ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تھے

تو انسانیت کے دشمنوں نے امام بارگاہ پر حملہ کیا ،وزیر آعظم میاں نواز شریف نے اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ،دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت کے خاتمے کے لئے پر عزم ہیں دہشت گرد ایسی کاروائیاں کر کے ہمارا راستہ نہیں روک سکتے اور نہ ہی سزا سے بچ سکتے ہیں ،، جناب میاں صاحب، جس برق رفتاری سے قوم کو ایک نقطہ پر متفق کیا اور ٢١ ،ویں آئنی ترمیم منظور ہوئی ،فوج عدالتیں قائم ہوئیںاس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اب یہ دہشت گرد بچ نہیں سکیں گے … ، مگر دہشت گردوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں پہنچ نہیں سکے اور سزاؤں کا راستہ بھی رُکا ہوأ ہے، اور دہشت گرد اپنے ایجنڈے کے مطابق ٹاگِٹڈ کاروائیاں کر رہے ہیں

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر : بدر سرحدی