counter easy hit

ہزاروں خواہشیں ایسی

گزشتہ دنوں وزیراعظم میاں نواز شریف نے کتاس راج میں غیر مسلموں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میں صرف مسلمان پاکستانیوں کا نہیں بلکہ غیر مسلموں سمیت تمام پاکستانیوں کا وزیراعظم ہوں‘‘۔ یہ ایک خوش کن بیان ہے، جس سے وزیراعظم کی روشن خیالی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس سے قبل وہ کراچی میں دیوالی کی ایک تقریب میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ انھیں اگلے برس ہولی پر مدعو کیا جائے اور رنگ بھی پھینکا جائے۔ پھر چند ہفتے قبل انھوں نے اسلام آباد یونیورسٹی کے شعبہ طبیعیات کو معروف نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کے نام موسوم کرنے کا انتہائی جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ یہ جناح کا وژن اور تصور پاکستان ہے۔

مگر وفاقی وزیر داخلہ ان کے خوش کن بیانات اور جرأت مندانہ اقدامات کے برعکس اظہار خیال کرتے ہیں۔ میاں صاحب اگر غیر مسلموں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتے ہیں تو وزیر داخلہ کی ہمدردیاں فرقہ وارانہ تنظیموں کے لیے جاگ اٹھتی ہیں۔ یہ وہی چوہدری نثار ہیں، جنھوں نے حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملہ میں مارے جانے پر ڈیڑھ گھنٹے پریس کانفرنس میں نوحہ خوانی کی۔ پھر ایک افغان شدت پسند ملا منصور اختر جب بلوچستان میں ڈروں حملہ میں مارا گیا، تو امریکا پر گرجنا برسنا شروع کر دیا۔ یہ چند مثالیں ہیں۔ ایسی صورتحال میں حکومت کی روشن خیالی پر شک ہونے لگتا ہے۔

ایک ایسے ملک و معاشرے میں، جہاں قرارداد مقاصدکے ذریعے ریاست کے بیانیہ کو مذہب سے مشروط کر دیا گیا ہو، جہاں آئین کی بعض شقیں حقوق انسانی کے اصولوں سے متصادم بنادی گئی ہوں۔ جہاں غیر مسلموں سمیت مسلمانوں کے بیشتر فرقوں کے ساتھ امتیازی سلوک ریاستی سطح پر نظر انداز کیا جاتا ہو۔ جہاں اہل دانش کی ایک بہت بڑی تعداد آج بھی بابائے قوم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کے مندرجات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو۔ جہاں مذہبی جماعتیں (جو دراصل مسلک کی بنیاد پر قائم ہیں) مقبول انتخابی حلقہ نہ رکھنے کے باوجود ریاستی فیصلہ سازی پر پوری قوت کے ساتھ اثرانداز ہوتی ہوں، وہاں وزیراعظم کے خوش کن بیانات ریاست کا بیانیہ نہیں بنتے، بلکہ محض صدا بہ صحرا ثابت ہوا کرتے ہیں۔

پاکستان کا اصل مسئلہ خوش کن بیانات نہیں ہیں، بلکہ اچھی حکمرانی کا قیام اور تسلسل ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ 70 برس گزر جانے کے باوجود نظام حکمرانی کے بارے میں ابہام موجود ہیں۔ یہ ابہام کچھ حلقے دانستہ طور پر پھیلاتے رہے ہیں اور آج بھی پھیلا رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے مفادات جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی سے متصادم ہیں۔ یہ حلقے کبھی تہذیبی نرگسیت کا سہارا لے کر جمہوریت کی بیخ کنی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی صدارتی نظام کے حق میں دلائل دے کر پارلیمانی جمہوریت کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ خطہ ڈیڑھ سو برس برطانیہ کی حکمرانی میں رہنے کی وجہ سے اس انتظامی ڈھانچہ کے زیر اثر چلا آ رہا ہے، جو پارلیمانی جمہوری نظام کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی طرز جمہوریت سے انحراف حکمرانی کے ان گنت مسائل اور بحران پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

پاکستان حکمرانی کے جن مسائل سے دوچار ہے، ان سے چھٹکارا پائے بغیر اچھی حکمرانی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سب سے اہم حکمرانی پر چند ہزار خاندانوں پر مشتمل ایک مخصوص اشرافیہ کا تسلط ہے، جس نے 18 کروڑ عوام کو اپنا زرخرید غلام بنا رکھا ہے۔ یہی وہ اشرافیہ ہے، جو اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی خاطر اختیارات کی مرکزیت قائم رکھنا چاہتی ہے۔ یوں مختلف حیلوں بہانوں سے شراکتی جمہوریت کا راستہ روکتی ہے۔ منتخب یا غیر منتخب ہر دور میں یہ مخصوص خاندان کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ ہوتے ہیں۔ آج قومی اور صوبائی سطح پر اسمبلیوں میں کتنے فیصد ایسے لوگ ہیں، جو سابقہ دور آمریت میں شریک اقتدار نہیں رہے؟ کتنی شخصیات ایسی ہیں، جو سابقہ فوجی آمریت میں وزارت اور سفارت سے مستفیض ہو رہی تھیں اور آج بھی وزارت اور سفارت کے مزے لوٹ رہی ہیں؟ یہ اشرافیہ اقتدار پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے کبھی مذہب، کبھی ثقافت اور کبھی قبیلے اور برادری کی شناخت کو آلہ کار بناتی ہے۔

اب جہاں تک مذہبی شدت پسندی کا تعلق ہے، تو اس میں گزشتہ تین دہائیوںکے دوران مختلف اندرونی اور بیرونی عوامل کے باعث تیز رفتار اضافہ ہوا ہے۔ لیکن بنیادی سبب یہ ہے کہ ریاستی مقتدرہ و منتظمہ نے ان تصورات کی کھل کر سرپرستی کی ہے اور آج تک جاری ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ آج فلسفہ کا استاد ڈاکٹر حسن ظفر عارف، سابق طالب علم رہنما مومن خان اور سیاسی کارکن امجد اللہ خان بے بنیاد الزامات پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں، جب کہ سلمان حیدر سمیت حقوق انسانی کے کئی سرگرم کارکنان غائب کر دیے گئے ہیں۔ آزاد فکر اور روشن خیال افراد ریاستی اور غیر ریاستی دونوں طرح کے ایکٹروں کے نشانے پر رہتے ہیں، جب کہ ہزاروں افراد کو خاک و خون میں نہلانے، ریاستی اداروں اور تنصیبات پر حملہ کرنے والے عناصر کو کھلے بندوں جلسے جلوس کرنے کی اجازت ہے۔ ان کے جلسوں میں جس قسم کی اشتعال انگیز تقاریر ہوتی ہیں، ان سے بھی صرف نظر کیا جاتا ہے۔ جب کہ آزاد خیال شہریوں کو پابند سلاسل کیا جانا ریاستی دہرے معیار کا غماز ہے۔

اصولی طور پر ہر ریاست پر یہ لازم ہے کہ وہ شہریوں کے عقائد اور ثقافتی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے۔ ہر شہری کو بلا امتیاز رنگ، نسل، عقیدہ، لسانی و قومیتی شناخت مساوی شہری حقوق دے۔ ایسے قوانین کی تنسیخ یا ان میں مناسب ترامیم کی جائیں، جو کسی نہ کسی حوالے سے امتیازی سلوک کا سبب باعث رہے ہوں۔ لیکن سب سے بڑھ کر اچھی حکمرانی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جو اقتدار واختیار کی عدم مرکزیت سے مشروط ہے۔ اگر موجودہ حکومت یا آنے والی حکومتیں اس اصول پر سختی سے عمل پیرا ہو جائیں، تو وہ حلقے جو ان فرسودہ تصورات کو فروغ دینے کا باعث ہیں، خود ہی پسپا ہو جائیں گے، کیونکہ پاکستانی عوام اپنے مذہب اور عقیدے سے والہانہ عقیدت رکھنے کے باوجود متعصب نہیں ہیں۔ ان کے ذہنوں پر صوفیا کی تحمل، برداشت اور رواداری کی تعلیمات کے گہرے اثرات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں عوام نے 1970ء سے تادم تحریر کبھی مذہبی اور مسلکی جماعتوں کو حق حکمرانی نہیں دیا۔

لہٰذا یہ کہنا درست ہے کہ درج بالا ان گنت مشکلات کے باوجود وزیراعظم کے اعلانات اور اقدمات بہرحال معاشرے میں تنگ نظری اور عدم برداشت جیسے رجحانات کو کمزور کرنے کی جانب ایک اچھی پیشرفت ہیں، جسے جاری رہنا چاہیے۔ جہاں ایک طرف اس قسم کے بیانات تنگ نظری اور اختلاف رائے کی عدم قبولیت کے سحر کو توڑنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں، وہیں دوسری طرف جامعات کے مختلف شعبہ جات اور تحقیقی مراکز کو بلا امتیاز ملک کا نام روشن کرنے والی علمی و ادبی شخصیات سے موسوم کرنے کا عمل ان شخصیات کی کاوشوں کو قبولیت بخشنے کے علاوہ عام شہریوں کو ترقی کے عمل میں شریک ہونے کی ترغیب دینے کا باعث بنتا ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website