counter easy hit

برصغیر کی سیاسی تاریخ پر اثرات کا جائزہ

Subcontinent

Subcontinent

تحریر: انجینئر عدیل اسلم
اسلام جیسے پرامن مذہب کے پیروکاروں کے ماتحت ہزار سال بسر کرنے کے باوجود ہندو کی چانکیائی ذہنیت پہ کوئی خوشگوار اثر نہ پڑا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس خطے میں قدم رکھتے ہی شاطر ہندونے فوراً انگریز سے گٹھ جوڑ کر لیا۔1757ء کی جنگ پلاسی سے 1857ء میں سقوط دہلی تک یہ گٹھ جوڑ مسلم ہندوستان کو تاراج کرتا ہوا کمپنی حکومت کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن تک جاری رہا۔قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں: ”یہ محض حسن اتفاق ہی نہ تھا کہ ہندؤوں نے جس انگریز سے چھٹکارا حاصل کیا، اسی انگریز کو برضاو رغبت بھارت کا پہلا گورنر جنرل تسلیم کر لیا۔”

ہندواورانگریز کے ملاپ نے مسلمانوں پرباب آتش وا کرد یا۔نامور ادیب اور مجلس احرار اسلام کے سابق جنرل سیکرٹری آغا شورش کاشمیری کے مطابق مسلمانوں کو ہرلحاظ سے کمزور کرکے ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔لہٰذا صوبہ بنگال کے پہلے انگریز گورنر لارڈ کلایو نے ایک سرکاری اعلان کے ذریعے یہ لازم قرار دیا کہ کسی مسلمان کو چپڑاسی یاجونیئر کلرک سے بڑا عہدہ نہ دیا جائے۔علاوہ ازیں اولاً انگریزی کو سرکاری زبان اور بعدازاں1901ء میں انتونی میکڈ ائل نے ہندی کودفتری زبان کادرجہ دیا۔(پاکستان منزل بہ منزل۔محمدعلی چراغ) علی گڑھ یونیورسٹی کے لیے پہلے 20لاکھ روپے جمع کرنے کی شرط اوربعدمیں”مسلم” کالفظ استعمال کرنے پہ پابندی لگادی گئی۔ہندوستانیوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پہ بُناگیاانگریزکاجال ” انڈین نیشنل کانگرس ” صرف ہندو کاتحفظ کرتارہا۔اس بات کا اندازہ اس کے سالانہ اجلاس میں مسلمانوں کی تعداد سے لگایاجاسکتاہے کہ کانگرس کے کسی بھی اجلاس میں مسلمانوں کی نمائندگی 5فیصد سے تجاوزنہ کی۔(پاکستان منزل بہ منزل۔محمدعلی چراغ) یہی وجہ تھی کہ پہلے محمد علی جناح اورپھرمولانا محمد علی جوہر بھی کانگریس کوخیرباد کہہ گئے۔1905ء میں مسلمانوں کو تقسیم بنگال سے کسی حدتک طمانیت کااحساس ہوا تو1911ء میں ہندو کے دباؤ میں اس کو بھی منسوخ کر دیا گیا۔ 1913ء میں کانپور کے واقعے نے بھی مسلمانوں کی تنہائی ثابت کردی۔ جنگ عظیم اول میں ترکی کی شکست پر 1924ء میں لیگ آف نیشنز (League of Nations)کے ڈھکوسلے پہ خلافت کوکئی ملکوں میں تقسیم کر دیاگیا۔ مسلمانانِ ہند کی تحریک خلافت (1919-24ئ) کو بھی درخورِ اعتنانہ سمجھاگیا۔ 1924ء میں ہی ہندووں نے شدھی اورسنگھٹن جیسی ”خطرہ ایمان”تحریکیں لانچ کر دیں۔

1927ء میں سائمن کمیشن نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے چندتجاویز پیش کیں ۔اس کمیشن میں چونکہ ہندوستان کاکوئی علاقائی نمائندہ شامل نہیں تھا،لہٰذا اس کی پیش کردہ تجاویز مسترد ہوگئیں۔اس کے جواب میں کانگرس نے مسلمانوں سے مشاورت کیے بغیرہندوستان کے لیے ایک آئین تجویز کیا جو”نہرو رپورٹ” کہلاتا ہے۔ قائداعظم نے ابتداً اس میں تین ترامیم کامطالبہ کیا۔ کانگریس کے انکار پرقائداعظم نے اپنے مشہور زمانہ 14 نکات پیش کیے ۔بعدازاں وہ مستقبل سے مایوس ہوکر لندن چلے گئے۔یہ وہ دور تھا جب مسلمانانِ ہند اپنے مستقبل سے تقریباً ناامید ہوچکے تھے۔ انہیں متحدہ قومیت میں ضم کرنا کچھ دشوار نہ تھا ۔وہ اپنی تمام تر پونجی تحریک خلافت پر صرف کرچکے تھے۔ گاندھی نے مسلمانوں کی خستہ حالی کو بھانپتے ہوئے انتہائی چالاکی سے انہیں باور کروایا کہ وہ اس کی قیادت میں ہندو اقتدار قائم کرنے کے لیے آلہ کاربنیں یاخاموش تماشائی کی طرح اپنی قسمت کافیصلہ ہوتا دیکھیں۔

Allama Iqbal

Allama Iqbal

بادِ سموم کے ان جھونکوں سے اچانک بادِ صبا کی ایک لہر آئی اورانگریزوں اورہندؤوں کے قدم ڈگمگاگئی۔ دسمبر 1930ء برصغیرکی سیاسی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔سامراج اوررام راج کے دلاروں کو اپنی پتلون اور دھوتی سنبھالنامشکل ہوگیا۔علامہ اقبال نسیم کے جھونکے کی طرح آئے اور کاروبارچمن سنبھال لیا۔ انہوں نے اپنے مشہور زمانہ خطبہ الٰہ آباد میں سب سے پہلے برصغیر کے منتشر اور تذبذب کاشکار مسلمانوں کو اسلام کی اصل روح سے آگاہ کیا اورفرمایا: ”اسلام انسان کی وحدت کو مادے اور روح کی متضاد دوئی میں تقسیم نہیں کرتا…دنیائے اسلام میں ایک عالمگیر نظام ریاست موجود ہے جس کے بنیادی نکات وحی و تنزیل کانتیجہ اور ثمرہ ہیں۔

1921ء میں گاندھی نے نیشنلزم (متحدہ قومیت) کاتصور دیا۔ ”اکھنڈبھارت”کی اس ترپ کوکئی مسلمان راہنما بھی نہ سمجھ پائے اور یہی نعرہ لگانے لگے۔ ایسے لوگوں کی اصلاح اورگاندھی کے جواب میں علامہ اقبال نے فرمایا: ”اس وقت قومیت کے نظریے نے مسلمانوں کے نقطہ نگاہ کو نسل پرستی سے آلودہ کردیاہے… کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام بطورِ ایک اخلاقی نصب العین تو باقی رکھیں لیکن اس کے نظام سیاست کورد کرکے نظریہ قومیت کی بنیاد پر سیاسی نظامات اختیارکرلیں جن میں مذہبی رجحان کوکوئی کردارا دا کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی؟” کانگریس خود کوبرصغیر کی واحد نمائندہ جماعت باور کراتی تھی۔ اقبال نے اس کاجواب دیتے ہوئے فرمایا: ”ہندوستان کی متعددذاتوں اورمذاہب میں ایسا کوئی رجحان موجود نہیں ہے کہ وہ اپنی انفرادی حیثیت کو ترک کرکے ایک وسیع ترجماعت کی صورت اختیار کرلیں۔ ہندوستان ایک براعظیم ہے جس میں مختلف نسلوں، زبانوں اور مذاہب کے لوگ (آباد)ہیں۔

سائمن اورنہرورپورٹ پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”سائمن رپورٹ نے وفاق کے اصول کی فی الواقع نفی کردی ہے۔ نہرورپورٹ نے مرکزی اسمبلی میں ہندؤوں کی اکثریت دیکھتے ہوئے وحدانی حکومت کی سفارش کی کیونکہ اس سے تمام ہندوستان میں ہندووں کا غلبہ ہوجائے گا۔”پہلی گول میزکانفرنس میں پیش ہونے والی وفاق کی اسکیم پر عمیق غوروفکر کے بعد فرمایا: ”حقیقت یہ ہے کہ اس سے دومقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ایک طرف توہندوستان میں برطانوی اقتدار اسی طرح قائم رہے گا اور دوسری طرف کل ہندوفاقی اسمبلی میں ہندؤوں کوبڑی بھاری اکثریت حاصل ہوجائے گی۔” اسلامیان برصغیر کوبھٹکتے دیکھا تو انہیں ایک سیاسی قبلہ عطاکردیا کہ جس سے نظریں ہٹنے نہ پائیں۔یہ وہ ناگزیر علاج تھا جس نے رام راج کے پرخچے اڑا دئیے۔ فرمایا:”مسلمانوں کامطالبہ کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان قائم کیاجائے ،بالکل حق بجانب ہے… میں ذاتی طورپر ان مطالبات سے بھی ایک قدم آگے جانا چاہتاہوں جو اس قرارداد میں پیش کیے گئے ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ پنجاب،شمال ،مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان کو ملاکر ایک ریاست بنادی جائے۔ مجھے توایسانظرآتاہے کہ کم ازکم ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مربوط مسلم ریاست ہندوستان کے شمال مغربی مسلمانوں کا مقدر ہے۔”

اقبال کاخطبہ الٰہ آباد ان کی برصغیر کی سیاست میں گہری دلچسپی عیاں کرتاہے۔دراصل اقبال نے 1926ء میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی کے بعد سیاست میں عملی حصہ لیناشروع کردیا۔ لوگ انہیں محض ایک فلسفی یا شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں لیکن وہ اس سے بہت بڑھ کرتھے۔وہ خود کہاکرتے تھے:

میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں واقفِ راز درون مے خانہ

علامہ اقبال نے21مارچ1932ء کو واضح کیا کہ ان کی سیاست میں دلچسپی کی وجہ اسلام کااجتماعی نظام ہے۔ جغرافیہ پاکستان کے بانی کو اسلامیان ہند کی اس ڈانواں ڈول کشتی کو بحفاظت ساحل تک لنگرانداز کرانے کے لیے ایک ملاح کی تلاش تھی۔ ترس گئے ہیں کسی مردِ راہداں کے لیے 1931ء کی گول میزکانفرنس کے دوران انھوں نے اپنامردِ مومن بھی دریافت کرلیا۔ محمدعلی جناح سے ملاقات میں ملّی ذمہ داری کے احساس کو آشکارکرناتھا کہ وہ اپریل1934ء میں 5سالہ لندن کے قیام کے بعد ہندوستان واپس آگئے کہ افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر 1935ء میں انھوں نے مسلم لیگ کی نشاة ثانیہ کا بیڑا اٹھایا اور اپریل1936ء میں اس کی ازسرنوتنظیم سازی کا فیصلہ کیا۔اس فیصلے سے مستقبل کی مسلم سیاست اور مسلمانوں کے سیاسی نقطہ نظر میں مثبت اثرات مرتب ہوئے جس کااعتراف کلکتہ کے ایک اخبار ”اسٹارآف انڈیا” نے 22اپریل 1936ء کو ان الفاظ میں کیاکہ:”بڑے بڑے تاجروں،زمینداروں ،روشن خیال لوگوں اورمسلم لیگ کے بائیں بازوکامسٹرجناح کی قیادت میں یہ اجتماع اسلامی سیاست میں ایک ایسی زبردست قوت ثابت ہوگا کہ جس سے بے اعتنائی نہیں برتی جاسکے گی۔” ڈاکٹرمحمدجہانگیر تمیمی اپنی کتاب ”زوال سے اقبال تک” میں بیان کرتے ہیں کہ علامہ محمداقبال اپنے مردِ مومن (جناح)کی قیادت میں چھ سال تک پنجاب مسلم لیگ کی صدارت سنبھالے رہے۔ علاوہ ازیں نظریۂ پاکستان کو عملی شکل دینے اورتصور پاکستان و جغرافیہ پاکستان کی دریافت کے بعداقبال نے 1934ء میں مستقبل کی اس اسلامی مملکت کا دستور بھی واضح کردیا۔ انھوں نے علامہ اسد سے فرمایا کہ آئندہ اسلامی ریاست کے آئین کو اپنے مطالعے اور تحقیق کاموضوع بنائیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے 1937ء میں اس نئی مملکت کو ”پاکستان” کے الفاظ سے مخاطب کرکے 1933ء میں چوہدری رحمت علی کے رکھے گئے نام کوتائیدبخشی۔علامہ اقبال کے خطاب نے اعلیٰ سطح پر ہی نہیں بلکہ اوپر سے لے کر نیچے تک ہرایک کو مسحور کردیا اور ہرگروہ ،طبقہ اور عمرکے افراد نے ”پاکستان” کے خواب کو عملی تعبیر پہنانے کی ٹھان لی۔چودھری رحمت علی نے پاکستان کے تصور کو عام کرنے کے لیے لندن میںپاکستان نیشنل موومنٹ کے نام سے ایک جماعت قائم کی۔ اکتوبر 1936ء میں سندھ صوبائی مسلم لیگ کانفرنس میں مسلم حکومت قائم کرنے کی قرارداد منظورہوئی۔1937ء میں لکھنؤ میں مسلم خواتین نے بھی مسلم لیگ کی ایک کمیٹی قائم کی جس کی صدر بیگم مولانا محمدعلی جوہر منتخب ہوئیں۔ اس کمیٹی کا مقصدمسلمان خواتین میں آزادی کاجذبہ پیدا کرنا تھا۔یکم ستمبر1937ء کوعلامہ اقبال کی خواہش پہ پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن(PMSF)کاآغاز ہوا جس نے اپنی ہمدردیاں مسلم لیگ سے وابستہ کرلیں۔(پاکستان منزل بہ منزل۔محمدعلی چراغ) اقبال کے اس خطاب نے جہاں مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدا رکرکے راہ عمل دکھائی،وہیں غیر مسلم بالخصوص ہندؤوں کے بدن میں آگ لگادی، لہٰذا 1937ء میں کانگریس نے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہی وزارتیں قائم کرکے مسلمانوں پہ جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ ذہنی تشددبھی شروع کردیااور وہ برصغیر پر رام راج قائم کرنے کے درپے ہوگئے۔ 1938ء میں’واردھاتعلیمی اسکیم ‘ اور ‘ودیا مندرا سکیم’ کے تحت روایات اورزبان پہ حملہ کیاگیا۔”وندے ماترم” کو قومی ترانہ قرار دے کر ہندؤوں کی بالادستی اورفوقیت کو زبردستی منوانے کی کوششیں کی گئیں۔ 1938ء میں اردو ہندی تنازعہ اور 1946ء میںمسلم کش فسادات شروع ہوئے۔ اڑیسہ کے ہندوچیف منسٹر کی خفیہ دستاویزبھی قدرت اللہ شہاب کے ہاتھ لگیں جس میں مسلمانوں کواہم عہدوں سے ہٹانے کاحکم دیا گیا تھا۔

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

مگر”اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے”کے مصداق ہندوبنیاجتنی کوشش کرتا،مسلمانوں کی جدوجہد میں اور تیزی آجاتی ۔ان کااتحادبڑھ جاتا۔ علامہ اقبال مسلسل 1936ء سے 1938ء تک قائدکو خطوط لکھ کر ان کی کاوشوں کو سراہتے اور مفیدمشوروں سے نوازتے رہے۔قائداعظم نے بھی 1939ء میں عریبک کالج دہلی سے خطاب کرتے ہوئے واضح کردیاکہ مسلمان کسی کو اپنے اوپرحکومت نہیں کرنے دیں گے۔جون 1939ء میں بلوچستان میں بھی مسلم لیگ قائم ہوگئی۔کشمیریوں نے بھی چوہدری غلام عباس کی سرکردگی میں”مسلم کانفرنس” قائم کی۔ وہ وقت بھی آگیا جب اقبال کی آرزو ببانگ دہل آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس 1940ء میں قرارداد کے طورپہ منظور ہوئی جسے آج قراردادِ پاکستان کے نام سے یادکیاجاتاہے۔ قائداعظم نے قرارداد کی منظوری کے بعداپنے سیکرٹری ایم ایچ سیدسے فرمایا: ”اے کاش!آج اقبال زندہ ہوتے تووہ یہ دیکھ کر بے حدخوش ہوتے کہ بالآخر ہم نے آج وہی کچھ کیا جو وہ چاہتے تھے۔”(زوال سے اقبال تک۔ڈاکٹر محمد جہانگیر تمیمی) 23مارچ 1940 ئ”لکم دینکم ولی دین” کی عملی تفسیر ثابت ہوااورکانگریس کے رکن مسٹراین سی دت نے بھی اعتراف کیا کہ ہندوستان میں دوقومیں آبادہیں۔ (پاکستان منزل بہ منزل۔محمدعلی چراغ) علامہ اقبال کی ودیعت کردہ سوچ جب ”قرارداد پاکستان” کے مضبوط سانچے میں ڈھل گئی تب برصغیر کے مسلمانوں نے ہر قیمت پہ اسے حقیقت کا روپ دینے کی ٹھان لی ،لہٰذا 1942ء میں آنے والے ‘کرپس مشن’ اور بعدازاں 1946ء میں’کابینہ مشن’کواپناسامنہ لے کر واپس لوٹناپڑا۔1945-46ء کے جداگانہ انتخابات کا انعقاد اوراس میں حاصل ہونے والی شاندار کامیابی نے حکومت کو تقسیم ہند کے بارے میں فیصلہ کرنے میں مدد کی اور 3جون 1947ء کے منصوبے کے بعد حدبندیوں کا عمل شروع ہوگیا۔پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے عمل میں صلیب اور ترشول کے لگائے گئے زخم بھلانے مشکل ہیں۔لیکن جہاں جہاں عوام کو اختیار دیا گیا ،انھوں نے اقبال کے جغرافیے پہ مہر تصدیق ثبت کر دی۔سرحد میں 99%، بنگال اسمبلی میں 60%اورسندھ اسمبلی میں 66% ووٹ پاکستان کے حق میں ڈالے گئے۔بلوچستان کے شاہی جرگے اور میونسپل کمیٹی کے اراکین نے بھی اتفاق رائے سے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔علاوہ ازیں سلہٹ میں بھی ریفرنڈم پاکستان کے حق میں رہا۔یوں سترہ سال قبل الہ آباد میں پیش کیے گئے علامہ محمداقبال کے ایک علیحدہ اسلامی مملکت کے تصور نے حقیقت کاروپ دھار لیا۔

قائد اعظم محمد علی جناح 14اگست 1947کوکرہ ارض پر عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کے گورنر جنرل بنے، جسے اقبال نے ”ہندوستان کے اندر اسلامی ہندوستان” سے مخاطب کیا۔فرزنداقبال ڈاکٹرجاویداقبال اپنی خودنوشت ”اپنا گریبان چاک” میں پاکستان کے نظریاتی پس منظر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:”قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران مجھ پر یہ راز منکشف ہوا کہ برصغیر میں اسلام اپنی نموکی خاطر راہ تلاشنے میں لگا رہا…اس نے مختلف ذرائع استعمال کیے ۔ حتّٰی کہ 1930ء میں جاکراسے واضح زبان نصیب ہوئی جب وہ علامہ اقبال کے الفاظ میں ڈھل گیا اوربالآخر قائداعظم محمدعلی جناح کے ہاتھوں پاکستان کے قیام کی صورت میں اس نے صدیوں کی جدوجہد کے بعداس مقصد کو پا لیا۔”

تحریر: انجینئر عدیل اسلم