counter easy hit

1965 کی پاک بھارت جنگ کی ایک غیر مسلح سپاہی مائی بھاگی کی کہانی

کہتے ہیں کہ ایک آزاد ملک قائم کرنے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اول ایک ٹکڑا زمین جسے وطن قرار دیا جائے۔ دوم ایسے لوگ جو باہمی اتفاق سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر رضامند ہوں اور تیسرا ایک مضبوط فوج جو اس ٹکڑا زمین کی حفاظت کر سکے اور اسے قومی فوج کہا جاتا ہے۔

ہر ملک کی قومی فوج ہوتی ہے جو جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوتی ہے اور اپنے ملک کی حفاظت کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوتی ہے۔ کہتے ہیں میدان جنگ میں قومی جذبہ ہی سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ جو فوج مجبوری کے عالم میں بے دلی سے میدان جنگ میں داخل ہوتی ہے وہ فوج کبھی نہیں جیت سکتی۔ ہمیشہ شکست ہی اسکا مقدر بنتی ہے لیکن جو فوج فتح کے جذبے سے میدان جنگ میں داخل ہوتی ہے وہ ہمیشہ فتح یاب ہو کر لوٹتی ہے ۔اسکی کئی مثالیں موجود ہیں۔ چھوٹی چھوٹی فوجیں لیکن قومی جذبے سے بھر پور میدان جنگ میں بڑی بڑی افواج پر حاوی آگئیں۔ جنگ بدر کا ہی واقعہ لے لیں۔ 313بے سر و سامان مسلمان قریش کی بڑی فوج سے ٹکرائے اور اسے شکست دی۔ ظہیر الدین بابر نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو اسکی فوج کی کل تعداد محض بارہ ہزار تھی اور غالباً پانچ یا چھ ہزار گھوڑے جبکہ اسکے مد مقابل ابراہیم لودھی کی فوج ایک لاکھ سے زیادہ تھی جو اس دور کے مطابق جدید اسلحہ سے لیس تھی۔ جنگی ہاتھیوں کی بھی ایک بھاری تعداد موجود تھی۔ بادشاہ وقت ہونے کی وجہ سے اسے ہر قسم کی سہولت میسر تھی ۔راشن اور سپلائی لائن کا بھی کوئی مسئلہ نہ تھا۔ بابر کی فوج ان تمام سہولیات سے محروم تھی۔ دونوں فوجیں پانی پت کے مشہور جنگی میدان میں مدِ مقابل آئیں۔

بابر کی فوج نے اس جذبے سے حملہ کیا کہ ابراہیم لودھی کے ہاتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ ابراہیم لودھی کی ایک لاکھ فوج بارہ ہزار کے لشکر سے شکست کھا گئی۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جنگی جذبہ میدان جنگ میں سب سے بڑا اور سب سے مئوثر ہتھیار ہے۔ فوج میں اسے ’’مورال‘‘ کہتے ہیں اور ہر فوجی کمانڈر کی حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ اسکے سولجرز کا مورال بلند رہے ۔دوسرا یہ کہ فوج ہمیشہ اسوقت جذبے سے لڑتی ہے جب قوم ساتھ ہو۔ اگر قوم ساتھ نہ ہو تو بہادر سے بہادر فوج بھی ناکام ہو جاتی ہے۔پاکستان میں یہ جذبہ1965کی جنگ میں دیکھنے میں آیا ۔فوج بھرپور طور پر لڑی ۔ہر قسم کی قربانیاں دیں حتیٰ کہ جسم پر بم باندھ کر زندہ ٹینکوں کے نیچے لیٹے۔ فوج کے ساتھ ساتھ قوم کا جذبہ بھی قابل ستائش تھا۔ جب ریڈیو پر ریٹائرڈ سولجرز کو اپنی یونٹوں میں واپس آنے کی کال دی گئی تو ایسے سولجرز بھی آئے جو ضعیف العمری کی وجہ سے چل بھی نہیں سکتے تھے لیکن جذبہ نا قابل شکست تھا۔ ہمارے ٹریننگ سنٹرز ریٹائرڈ فوجیوں سے بھر گئے۔انہیں جنگ میں شمولیت سے روکنا بہت مشکل تھا۔ ہر سولجر آگے جانے کا خواہشمند تھا ۔پاکستان کی ملٹری اکیڈیمی اور دیگر تربیتی ڈیوٹیز پر مقرر آفیسرز وہاں سے بھاگ کر اپنی یونٹوں میں فرنٹ لائن پر لڑنے کے لئے آگئے۔ پوری قوم کا جذبہ قابل دید تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان ریکروٹنگ آفس میں فوج میں بھرتی کے لئے جمع ہو جاتے تھے۔ نوجوانوں کا جذبہ بھی قابل فخر تھا۔

جنگ بندی کے فوری بعد مجھے چند دنوں کے لئے اپنے گائوں چھٹی پر جاناپڑا۔ میرا قبیلہ با لکل ان پڑھ اور جا ہلانہ سوچ کا مالک ہے۔ ہر وقت لڑائی جھگڑے میں خوش ہوتے ہیں ۔ملکی معاملات میں کم ہی دلچسپی لیتے ہیں۔میرے لئے حیران کن بات تھی کہ گائوں کے نوجوان اکٹھے ہو کر رات کو میرے پاس آئے اور پرزور انداز میں کہا کہ وہ جنگ میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔پاکستان کے دشمنوں سے لڑنا چاہتے ہیں۔لہٰذا میں انہیں بارڈر پر لے جائوں۔ ’’میں نے پوچھا تمہارے پاس ہتھیار ہیں ؟‘‘ ’’ سب نے مشترکہ جواب دیا کہ ہاں انکے پاس لاٹھیاں ہیں۔‘‘ بہت مشکل سے انہیں ٹالا۔انکا جذبہ میرے لئے قابل فخر تھا لیکن سب سے حیران کن کام ہمارے گائوں میں ایک مائی بھاگی نے کیا۔ مائی بھاگی گائوں کی ضعیف ترین خاتون تھی۔ بڑھاپے کی وجہ سے کمر دہری ہو چکی تھی۔ لاٹھی ٹیک کر بہت مشکل سے چلتی تھی۔آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ لوگ فصل کے موسم میں اسے خیرات کے طور پر گندم وغیرہ دے دیتے تھے۔اولاد وغیرہ بھی نہ تھی۔ یہ خاتون لاٹھی ٹیکتی ہوئی بڑی مشکل سے میرے پاس آئی۔ایک چھوٹے بچے کے سر پر چند سیر گندم رکھی ہوئی تھی ۔مجھے گندم دے کر کہا ؛ ’’ پترا یہ گندم ایوب خان (مرحوم اسوقت کے صدر) کو دے کر کہنا کہ یہ مائی بھاگی کی طرف سے ہے۔میرے پاس دینے کے لئے اور کچھ نہیں۔ اس سے ایک بندوق اور خرید لینا لیکن کراڑوں(ہندووں) کو نہ چھوڑنا ‘‘۔ مائی بھاگی کی سادگی اور جذبہ دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔میں نے دو رکعت شکرانے کے نفل ادا کئے ۔جس قوم کا جذبہ اتنا بلند ہو اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔

اسی طرح ملک کے کونے کونے سے نوجوان لڑنے کے لئے آگے آئے ۔ان سب نوجوانوں کی شدید خواہش تھی کہ انہیں دشمن کے خلاف لڑنے کا موقع دیا جائے۔لاہوری نوجوان تو جوش میں آکر پیدل واہگہ بارڈر کی طرف چل پڑتے تھے۔انہیں روکنا فوج کے لئے مشکل ہو جاتا تھا۔کچھ لوگ کھانے کی دیگیں پکوا کر بارڈر کی طرف لے جاتے اور یہ کھانے فوجیوں کو کھلا کر خوش ہوتے ۔خواتین نے اپنے زیور تک فوج کو پیش کر دئیے۔یہاں یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ بنگالی سولجرز بھی بہت بے جگری سے ہندوستان کے خلاف لڑے ۔پاکستان کے ہر فرد کو اپنی فوج پر فخر تھا۔ایسا بے مثال جذبہ کبھی کبھی قوموں میں ابھرتا ہے اور جب ابھرتا ہے تو قوم کو کندن بنا دیتا ہے۔ پاکستان فوج اپنی قوم کی مدد سے ایسے جذبے سے لڑی کہ اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کو اپنی سرحدوں کے اندر قدم نہ رکھنے دیا بلکہ اسکا غرور خاک میں ملا دیا۔پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ اسے ایک ایسا چالاک اور منافق ہمسائے سے واسطہ پڑا ہے جو اسکے وجود کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہی نہیں۔اپنی ابلیسی سوچ اور منافقانہ کاروائیوں سے ہر وقت پاکستان کو نقصان پہچانے کے لئے تیار رہتا ہے۔جب بھی اسے موقع ملتا ہے وہ ڈنگ مارنے سے باز نہیں آتا۔وہ ہر وقت پاکستان کی سا لمیت کے درپئے ہے۔پاکستان اپنی سالمیت کی حفاظت کے لئے کم ازکم چار جنگیں بھارت سے لڑ چکا ہے۔ یہاں یہ یاد رہناچاہیے کہ بھارت ہم سے کئی گنا بڑا ہے۔اسی طرح اسکی فوج بھی بڑی ہے جو جدید اسلحہ سے لیس ہے جبکہ ہماری فوج تعداد میں کم ہونے کے ساتھ ساتھ جدید ہتھیاروں سے بھی محروم ہے لیکن جنگی جذبے کے لحاظ سے پاکستانی فوج بھارتی فوج سے کہیں بہتر ہے۔پاکستان کو اپنی سخت ترین جنگ مغربی پاکستان سے تقریباً بارہ سو میل دور سابق مشرقی پاکستان میں لڑنی پڑی۔پاکستان فوج کی تعداد دو نا مکمل ڈویژنز پر مشتمل تھی جبکہ اسکے مقابلے میں بھارت کے بارہ ڈویژنز نے حملہ کیا۔