counter easy hit

لاہور میں شیطان کا مجسمہ۔۔۔۔۔؟

 

(یس اردو ڈاٹ کام رپورٹ) پنجاب یونیورسٹی کے کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزئن سے گریجویشن مکمل کرنے والےارتباط الحسن چیمہ نے یہ مجسمہ بنایا جو ان کے گریجویشن کا فائنل تھیسز ورک تھا۔سرمئی رنگ کا 16 فٹ طویل مجسمہ لاہور کے عجائب گھر کے داخلی راستے پر تعینات کیا گیا تو متنازع ہو گیا۔
مجسمے کے خلاف ایک خاتون وکیل نے درخواست دائر کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ اس مجسمے کو دیکھ کر بچے ڈر جاتے ہیں، عدالت اس شیطانی مجسمے کو نصب کرنے پر عجائب گھر کی انتظامیہ سے وضاحت طلب کرے اور اس مجسمے کو وہاں سے ہٹانے کا حکم دے۔ان کا کہنا ہےکہ یہ مجسمہ نا صرف ہماری ثقافت اور روایات کے بلکہ قدرت کے بھی خلاف ہے۔
واضح رہے اِس مجسمے کا قد کافی بڑا ہے اور اس کے ہاتھوں اور پاؤں کے ناخن نوکیلے ہیں۔ مجسمے کے دو بڑے، بڑے بڑے دانت اور دو بڑے سینگ بھی ہیں جن میں سے ایک سینگ ٹوٹا ہوا ہے۔عجائب گھر آنے والے لوگ اسے ’شیطان کا مجسمہ‘ کہہ رہے ہیں۔
عجائب گھر کے ترجمان کے مطابق میوزیم میں پنجاب یونیورسٹی کے آرٹ کے طلبا کی ایک نمائش منعقد ہو رہی تھی اور اسی مقصد کے لیے یہ مجسمہ دیگر مجسموں کے ساتھ میوزیم لایا گیا تھا، مجسمے کو اس کے حجم کے باعث عمارت کے اندر رکھنے کی جگہ نہیں تھی لہٰذا اسے باہر رکھ دیا گیا ۔
عجائب گھر انتظامیہ اس بات سے بالکل متفق نہیں کہ بچے اسے دیکھ کر ڈر جاتے ہیں بلکہ اس کے برعکس یہاں آنے والے لوگ اس کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں۔
ارتباط الحسن چیمہ نےبرطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے اس بارے میں بتایا کہاس کردار کو تخلیق کرتے ہوئے ان کے ذہن میں شیطانیت کا کوئی تصور نہیں تھا، اگر اسے شیطان بولا جا رہا ہے تو شیطان تو کسی نے بھی نہیں دیکھا، تو پھر اسے کیوں شیطان کا نام دیا جا رہا ہے؟انہوں نے کہا کہ ان کے تھیسز کا عنوان’ وحشی پن‘ تھا، ’ان کے تھیسز ورک کی آرٹ اسٹیٹمنٹ یہ تھی کہ جب ایک انسان اپنی اصلاح کرنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اتنا وحشی ھوجاتا ھے۔۔۔۔۔

STATUE, OF, DEVIL, IN, LAHORE, BY, PUNJAB, UNIVERSITY, STUDENTS