counter easy hit

وہی تماشا پھر ہونے کو ہے

Tahir ul-Qadri and Imran Khan

Tahir ul-Qadri and Imran Khan

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
7 اگست کو باسی کڑھی میں اُبال آنے کو ہے اسی لیے تجزیوں، تبصروں کے دَر وا ہو چکے۔ ہرکسی کی اپنی اپنی ڈَفلی اور اپنا اپنا راگ۔ حکمران مطمئن کہ حالات اُن کے کنٹرول میں لیکن عمران خاں اور ڈاکٹر طاہر القادری کو یقین کہ اب کی بار کامیابی اُنہی کا مقدر بنے گی۔ابتداََ پاناما پیپرز کے معاملے میں تمام اپوزیشن جماعتیں بظاہر ایک صفحے پرنظر آتی تھیں لیکن درحقیقت ہر کوئی اپنے اپنے مفادات کا اسیر۔ عمران خاں نے جب سے سیاست میں قدم رکھا ہے، اُن کی نظریں اقتدار کی سب سے اونچی نشست پرہی جمی ہوئی ہیں۔

اُنہوں نے تو وزارتِ عظمیٰ کاتاج سَر پر سجانے کے لیے آمر پرویز مشرف کا ساتھ دینے سے بھی گریز نہ کیا ۔ اُن دنوںتو یہ عالم تھا کہ خاںصاحب کو جہاں کہیں پرویزمشرف کے جلسے کی بھنک ملتی ، وہ تحریکِ انصاف کاجھنڈا اُٹھائے وہیں جا پہنچتے ۔ معاملہ توتَب خراب ہوا جب 2002ء کے انتخابات کے بعدپرویزمشرف نے وزارتِ عظمیٰ کا حقدار کسی اورکو ٹھہرایا ۔ یہی حال مولانا طاہرالقادری کابھی تھا ۔ اُنہیں بھی پرویزمشرف نے وزارتِ عظمیٰ کالالچ دے رکھاتھا ۔ جب دونوں موجودہ ”سیاسی کزنز” مایوسیوں کے جَلو میںگھر لوٹے تو مولانا طاہرالقادری پارلیمنٹ کی رکنیت سے مستعفی ہوکر کینیڈا جا بسے لیکن کپتان صاحب نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور ایک وقت ایسابھی آیاجب سَقہ تجزیہ نگار بھی ڈانواںڈول ہوئے اور یوں محسوس ہونے لگاکہ جیسے خاںصاحب میدان مار جائیں گے لیکن اُس کے بعد حماقتوںکی ایک طویل داستان ہے جو اب تاریخ ہے۔

یہ حماقتیں تاحال جاری ہیں اورصورتِ حال یہ کہ ”نے ہاتھ باگ پر ہے ، نہ پا ہے رکاب میں”۔ پارٹی میں انتشار واضح ہوچکا ، اے این پی ، ایم کیوایم اور آفتاب شیرپاؤسمیت تقریباََ تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے کپتان صاحب کی احتجاجی تحریک کا حصّہ بننے سے صاف انکار کردیا ہے ۔ پیپلزپارٹی اپنے مفادات کی اسیر ۔وہ نوازلیگ کے ساتھ کچھ لو ، کچھ دو کے فارمولے پرعمل کر رہی ہے اورآصف زرداری صاحب کی ہدایت کے مطابق فی الحال اُس کا احتجاجی تحریک کاحصّہ بننے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ۔ باقی بچے شیخ رشیداحمد جن کی اپنی تو کوئی حیثیت ہی نہیں البتہ وہ عمران خاںکا کندھا خوب خوب استعمال کر رہے ہیں ۔ اُن کے خلاف تحریکِ انصاف میںپائی جانے والی نفرت سب پرعیاں ۔پھربھی وہ اپنی غیرتوںکو لال حویلی میںبند کرکے تحریکِ انصاف میں ”گھُس بیٹھئے” کارول ادا کرنے میںفخر محسوس کرتے ہیں کہ اِس کے علاوہ اُن کی کوئی جائے پناہ بھی تونہیں ۔ اندریں حالات نظرتو یہی آتاہے کہ سیماب صفت مولانا طاہرالقادری ایک دفعہ پھر کینیڈا سدھاریں گے اورعمران خاں احتجاجی تحریک ختم کرنے کابہانہ ڈھونڈتے پھریں گے۔

Democracy

Democracy

اِس اندرونی افراتفری کے عالم میںاربابِ صحافت کا فرضِ عین تویہ ہے کہ وہ افہام وتفہیم کی فضا پیداکریں لیکن ہمارے کچھ تجزیہ نگار جَلتی پر تیل ڈالنے میں مصروف ہیں ۔ ایک معروف لکھاری پیپلزپارٹی کے دَورِحکومت میںتواپنے کالموںمیں لکھا کرتے تھے ” عمران خاںکی سونامی گٹر میںبہہ گئی ”۔ لیکن اب پتہ نہیںاچانک اُن کی ”کایا کلپ” کیسے ہوگئی کہ اُنہیں خاںصاحب پربھی پیار آنے لگا۔ اُنہوںنے اپنے تازہ کالم میںلکھاکہ عمران خاںکی واحد آوازتھی جس نے قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو چیلنج کیا لیکن یہاں الیکشن کمیشن کے حکام اور اُس زمانے کی عدلیہ کی بے جا مداخلت انصاف کی راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہو گئی ۔ خاںصاحب نے بے تحاشا دھاندلی والے حلقوں میںسے صرف چار حلقے منتخب کرکے وہاں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر دیا ۔ اِن حلقوںمیں حکومت پر قبضہ کرنے والی جماعت کے سَرکردہ لیڈر شامل تھے ۔ وہاںبھی عجیب تماشے ہوئے ۔ دوبارہ گنتی کے دَوران ووٹوںکے تھیلے غائب کر دیئے گئے ۔ جو اُمیدوار حقیقت میں کامیاب ہوئے تھے ، اُنہیں ناکام کرنے کے منفی ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ۔ جمہوریت کے نام پر ایسی غیرنمائندہ حکومت دھڑلے سے قائم کرنے اور چلانے کی یہ ایک شرمناک مثال ہے ۔ لیکن شرم تو اُسے آتی ہے جو اقتدار کی ہڈی چبانے کی بجائے ، عزت کی روکھی سوکھی کھانے کو ترجیح دیتا ہے۔

آج ہماری جمہوریت ایسے لوگوںکے قبضے میںہے جنہیں نہ عوام کے مسائل کا احساس ہے نہ قانون وانصاف کی پرواہ ۔ سمجھ سے بالاتَر ہے کہ لکھاری موصوف کے دِل میں اچانک عمران خاںکی محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر کیسے موجزن ہوگیا ۔ ہم نے توہمیشہ اُنہیں خاںصاحب کے خلاف ہی لکھتے اور بولتے پایا ۔ شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ موصوف پیپلزپارٹی سے مایوس ہوچکے ہوں اور اُنہیں آخری جائے پناہ تحریکِ انصاف ہی نظرآتی ہو، نوازلیگ تواُنہیں گھاس ڈالنے کو تیار نہیں ۔ موصوف نے لکھاہے ” شرم تو اُسے آتی ہے جو اقتدار کی ہَڈی چبانے کی بجائے عزت کی روکھی سوکھی کھانے کو ترجیح دیتا ہے”۔ یہ الزام توخود موصوف کی ذات پربھی آتا ہے ۔ اتنی جماعتیں تو اُن سیاستدانوں نے بھی نہیں بدلیں جنہیں ہم ”لوٹا” کہتے ہیں، جتنی موصوف بدل چکے۔

PPP

PPP

ذوالفقار علی بھٹو کے دَور میں وہ پیپلزپارٹی کے جیالے ہوا کرتے تھے لیکن جب بھٹومرحوم زوال پذیر ہوئے تو موصوف نے جنرل ضیاء الحق کی طرف چھلانگ لگانے میں دیر نہیں لگائی ۔ ضیاء الحق کے توسط سے وہ نوازلیگ میںداخل ہوئے اور ترقی کرتے کرتے میاںنواز شریف کے قریب ترین مصاحب بنے ۔ وہ صرف میاںصاحب کے ”سپیچ رائٹر” ہی نہیںتھے بلکہ اُن کے تو اشارۂ اَبرو سے کاروبارِ حکومت چلتاتھا ۔ جب میاںنواز شریف جَلاوطن ہوئے تومحترم لکھاری نے بہ اندازِ حکیمانہ پرویزمشرف کے حق اورمیاں نوازشریف کے خلاف قلم آرائی شروع کردی کیونکہ موصوف کو یقین ہوچلا تھا کہ نوازلیگ اب قصۂ پارینہ بَن چکی ۔ جب محترمہ بینظیر این آر او کی چھتری تَلے پاکستان تشریف لائیں تومحترم لکھاری نے اُن کی ”قدم بوسی” میں بھی دیر نہیںلگائی ۔ بینظیر کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت اورپاکستان کی صدارت کے حقدار آصف علی زرداری ٹھہرے توموصوف نے پانچ سال تک نہ صرف اُن کے گُن گائے بلکہ اُن کی مدح سرائی میںکوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ۔ اب اُنہوںنے عمران خاںکی حمایت کی ٹھان لی ہے اورعین اُس وقت گڑے مُردے اُکھاڑرہے ہیں جب کپتان صاحب ایک دفعہ پھرقسمت آزمائی کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ 2013ء کے انتخابات میں الیکشن کمیشن یا عدلیہ کا کتنا ہاتھ تھا۔

سبھی جانتے ہیں کہ کپتان صاحب کی خواہش بلکہ ضِد پر تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیاگیا ، جس نے صراحت سے یہ فیصلہ دیا کہ انتخابات میںنہ صرف یہ کہ دھاندلی نہیںہوئی بلکہ یہ انتخابات عوامی امنگوںکے عین مطابق تھے ۔ جہاںتک چار حلقوں کاتعلق ہے تو اُن میںسے ایک حلقے میںآزاد امیدوار جیتاتھا اور نوازلیگ تیسرے نمبر پر آئی تھی۔

دوسرے حلقے میں مخالف امیدوار نے تحقیقات میں دلچسپی ہی نہیںلی جس کی بناپر الیکشن ٹربیونل نے اُسے جرمانہ بھی کیا ۔ اُس حلقے کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے ۔تیسرے حلقے میں دوبارہ الیکشن ہوئے اور کامیابی ایک دفعہ پھرایازصادق کے حصّے میں آئی ۔ چوتھے اور آخری حلقے میں حکمِ امتناعی مِل چکا ۔ دلچسپ بات یہ کہ اِن تینوں حلقوں میں سے کسی ایک حلقے کے بارے میں بھی الیکشن ٹربیونل نے یہ فیصلہ نہیں سنایا کہ جیتنے والے امیدوار نے دھاندلی کی ۔ جہاںتک اقتدار کی ہَڈی چبانے کا معاملہ ہے تو لکھاری موصوف سے بہتر بھلا کون جانتا ہے کہ ”ہَڈی” چبانے میں کتنا مزہ ہے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر