counter easy hit

عالمی سطح پر شبیہ سدھارنے کی فکر

Peon Recruitment

Peon Recruitment

تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
ہندوستان فی الوقت جن مسائل سے دوچار ہے گرچہ وہ بے شمار ہیں اس کے باوجودبے روزگاری ایک اہم اور بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔موجودہ حالات میں بے روزگاری کی صورتحال کیا ہے،آئیے چند تصویریں آپ کے سامنے پیش کرتے چلیں۔ ریاست اترپردیش جہاں سماج وادی پارٹی برسر اقتدارہے،میں چند دن قبل حکومت کی جانب سے 368 چپراسیوں کی بھرتی کے لیے دیے گئے اشتہار کے بعدتقریباً 23 لاکھ امیدواروں نے درخواستیں جمع کی ہیں۔

اعداد و شمار کی روشنی میں ان 23لاکھ امیدواروں میں 50,000گریجویٹس،24,969پوسٹ گریجویٹس،250پی ایچ ڈی ہولڈرس ،اور بقیہ بارہویں پاس ہیں۔تنخواہ 16,000روپے ماہانہ اور عمر18سے 40سال کے درمیان ہونی چاہیے۔دوسری جانب ملک میں بڑھتی بے روزگاری ہی کے نتیجہ میں اسی سال مدھیہ پردیش،جہاں بی جے پی برسر اقتدار ہے، میں تقریباً1300چپراسیوں کی نوکریوں کے لیے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ امید وار وں نے درخواستیں دی تھیں۔صورتحال کے پس منظر میں ماہر اقتصادیات پرنجوئے گوہاٹھا کہتے ہیں کہ ملک میں جس رفتار سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے چاہیں، وہ نہیں ہو رہے ہیںاور سرکاری ملازمتوں میں لوگوں کی خاص دلچسپی رہتی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان دو معاملات میں اس قدر درخواستیں موصول ہوئیں۔اس کے باوجود بے روزگاری کی موجودہ صورتحال حددرجہ تشویشناک ہے ۔نیز اسی پس منظر میں چند سوالات بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں،جن پر لازماًہمیں غور کرنا چاہیے۔

مثلاً بے روزگاری کی یہ صورتحال بین الاقوامی سطح پر ملک کی کیا شبیہ پیش کرتی ہے جبکہ وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں پر اب تک 37.22کروڑ روپے صرف ہوچکے ہوں؟وہیں سوال یہ بھی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اس قدر بڑی تعداد میں ایک چپراسی کی نوکری کے لیے کیوں خواہش مند نظر آئے؟کیا ملک کا تعلیمی معیار گرتاجا رہا ہے ؟جس کے نتیجہ میں اعلیٰ تعلیم کے باوجود متعلقہ افراد بے روزگاری سے دوچار ہیں۔یا سرکاری اداروں میں حد درجہ کرپشن رائج ہونے کے نتیجہ میں ایک معمولی نوکری بھی لوگوں کو اپنی جانب متاثر کر رہی ہے؟

اس سے قبل کہ آپ سوالات کا جواب تلاش کریں آئیے اسی سلسلے کی ایک دوسری خبر کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے چلیں۔ سینئر صحافی سوبیر بھومک بتاتے ہیں کہ تریپوری کے کووائی سب ڈویژن کی منڈا بستی گائوں کے باسی رنجیت تانتی نے اپنے بچے کو پیدائش کے صرف ایک دن بعد محض4500روپے میں فروخت کر دیا۔بچے کے والدرنجیت کاکہنا ہے کہ مجھے اپنے نوزائیدہ بچے کی فروخت پر دکھ نہیں ہے اور نہ ہی مجھے برا لگ رہا ہے،میں خوش ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ ہم اس کی پرورش نہیں کر پاتے۔بچے کی ماں سیما تانتی کہتی ہیں کہ ان کے لیے پانچ لوگوں کا خاندان چلانا ناممکن تھا اس لیے انھوں نے اپنے نوزائیدہ بچہ کو فروخت کیا ہے۔یہ بات بھی آپ کے علم میں رہنی چاہیے کہ تریپورہ وہ علاقہ ہے جہاںسنہ1993سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسٹ)کی حکومت ہے ،ساتھ ہی یہ علاقہ تشدد سے متاثرہ شمالی مشرقی ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے مقابلے ترقی کے انڈیکس میں بہتر سمجھا جاتا ہے۔اس کے باوجود یہاں بھی غربت و افلاس نے ایک دن کے نوزائیدہ کو فروخت کرنے پر مجبور کیا ہے ۔ان واقعات کے ساتھ ایک تیسرا واقعہ بھی بس یاد کرتے چلئے جبکہ تجارتی مرکز ممبئی میں ہیروں کا کاروبار کرنے والی ایک کمپنی نے مبینہ طور پر ایک نوجوان کو صرف اس لیے نوکری دینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ مسلمان ہے۔

ذیشان علی نامی نوجوان جس نے ایم بی اے کیا ہے،نوکری کے لیے آن لائن درخواست بھیجنے کے صرف پندرہ منٹ بعد ہی اسے جواب ملتا ہے کہ آپ کی درخواست کے لیے شکریہ لیکن ہمیں افسوس ہے کہ ہم صرف غیر مسلموں کو ہی نوکری دیتے ہیں۔بعد میں یہ ایک بڑا ایشو بنا توکمپنی نے صفافی دی اور کہا کہ جس لڑکی نے ای میل کا جواب دیا تھا وہ حال ہی میں بھرتی ہوئی ہے اور ابھی اسے ٹریننگ دی جا رہی ہے۔معاملہ کچھ بھی ہو لیکن یہ صاف ہے کہ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ،شہر، گائوں،قصبہ اوردیہات،ہر مقام پر بڑی تعداد میں ملک کے شہری بے روزگاری سے دوچار ہیں،اس کے باوجود شاید ہمارے لیے یہ اہم مسئلہ نہیں!یہی وجہ ہے کہ ہماری دلچسپی کا محور و مرکزعموماًسیاست دانوں اور پسند و ناپسند کی پارٹیوں کو کامیاب و ناکام کرنے تک ہی محدود رہتا ہے۔دوسری طرف سرکردہ اور اثر ورسوخ رکھنے والے حضرات ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے صبح شام مصروف عمل رہتے ہوئے ان افراد کو بھول جاتے ہیں،جن کے سبب کوئی امیدوار کامیاب تو کوئی ناکام ہوا تھا۔

اس صورت میں حقیقت یہ ہے کہ غلطی عام شہری کی ہے ،نہ کہ سیاسی حضرات اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کی۔کیونکہ اُنہیں جو مطلوب وہ آپ کے ذریعہ،الیکشن کے وقت اور اس کے بعدحاصل ہوچکا ہے،تو پھر کیونکر وہ آپ کی جانب اب متوجہ ہوں گے جبکہ آپ کو خود اپنی فکر نہیں ہے؟لہذا اگر حالات میں تبدیلی چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ پر امن طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے،اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے منظم و منصوبہ بند سعی و جہد کی جائے۔اس کا پہلا مرحلہ سوچنے اور غورو فکر کا ہے تووہیں دوسرا مرحلہ خود کی شناخت کا ہے یعنی یہ کہ ہر شہری اپنی اہمیت وحیثیت پہنچانے اور قانونی حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے تبدیلی کا ذریعہ خود کو سمجھے۔کیونکہ تبدیلی کسی اور کے ذریعہ نہیں بلکہ اس فرد کے ذریعہ آئے گی جو خود کو عوام یا عام شہری سمجھتا ہے،ساتھ ہی وہ اپنی شناخت برقرار رکھنے کا خواہش مند بھی ہونا چاہیے۔

واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں بے روزگاری ہی سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے،بے شمار مسائل ہیںجو ایک دوسرے سے منسلک اوروابستہ ہیں، جن کے سبب نہ صرف دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ تقویت بھی پہنچاتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ حددرجہ آبادی ومختلف الانواع سماجی،معاشی ،معاشرتی اور جغرافیائی صورتحال والا ملک ہونا ہے تو وہیں مختلف خانوں اور حصوں میں تقسیم شدہ سیاسی پارٹیاں،ان کے مقاصد،طریقہ کار،فکر و نظریہ اور نصب العین ہیں۔نتیجتاً ہرآنے والی حکومت اپنے مخصوص اور قابل بھروسہ آفیسرز کو منتخب کرتی ہے۔جس کے نتیجہ میں انتظامیہ وہ مسائل حل کرنے میں ناکام ٹھہرتی ہے،جو موجود ہیں۔وہیں آزادی و ٹرانسپیرینسی پر بھی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ ایک پارٹی قابل بھروسہ آفیسرس کو منتخب کرتی ہے تو دوسری پارٹی پہلے سے موجود آفیسروں کو اپنے طے شدہ اہداف کے پیش نظر کام کرنے پر مجبور کرتی ہے بصورت دیگر ان کے تبادلے ہوتے ہیں یا معطل کیا جاتا ہے۔جس کے نتیجہ میں مسائل میں روز بروز اضافہ ہی ہوا جاتا ہے،اور حالات سے بد سے بدتر بنتے چلے جاتے ہیں۔اس کی زندہ مثال معطل آئی پی ایس آفیسر پنکچ چودھری ہیں،جن کا الزام ہے کہ وسندھرا حکومت نے ان پر فسادیوں کو چھوڑنے اور مسلمانوں کو پھنسانے کا دبائو بنایا تھا۔انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق چودھری کا کہنا کہ فسادات یوں ہی نہیں ہوتے،کروائے جاتے ہیں۔لیکن اگر پولیس کو آزادانہ طور پر قدم اٹھانے دیا جائے تو کچھ بھی غلط نہیں ہوگا۔دوسری طرف حکومت ِ راجستھان نے ان کے خلاف فرد جرم داخل کیا ہے،چودھری پر الزام ہے کہ وہ 12ستمبر2014کو بوندی کے نینوااور خان پور میں فسادات کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔وہیں ریاست کے وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریہ نے کہا کہ حکومت پورے الزامات کا جائزہ لینے کے بعد کوئی رائے دے گی۔

جانچ ہوگی اور نتیجہ بھی کچھ نہ کچھ نکلے گالیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دنوں کئی اہم عہدوں پر مختلف آفیسرس نے یا تو اپنے استفیٰ پیش کیے یا ان کا تبادلہ سامنے آیا ہے یا پھر انہیں معطل کیا گیا۔مثلاًسوچھ بھارت ابھیان کی سربر اہ وجے لکشمی جوشی کا ولنڑری ریٹائرمنٹ،اس سے قبل ہوم سکریٹری ایل سی گوئل کا اپنی نوکری چھوڑنا،وغیرہ۔ ان تمام مسائل کے علاوہ کرپشن لگاتارایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔حالیہ گھوٹالہ مدھیہ پردیش کا ہے،جہاں انڈین ریونو سروس کے 2009 کیڈر کے افسر شرون بنسل 600کروڑ روپے کا گھوٹالہ سامنے لائے ہیں۔لیکن بقول ان کے افسوس ناک بات یہ ہے کہ انہیں اور ان کی بیوی (وہ بھی آئی اے ایس افسر ہیں)کو سینئر افسران نے پریشان کرنے کے لیے بھوپال سے کوچین ٹرانسفرکردیا۔سوچنا ٰیہ چاہیے کہ اس واقعہ میں اگر ذرا بھی سچائی ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ملک کے موجودمسائل پر شکنجہ کسا جا سکے ؟ساتھ ہی عالمی سطح پر شبیہ سدھارنے کی کوششوں میں ہم کامیاب ہوں؟ خصوصاً ان حالات میں جبکہ مسائل کے حل تلاش کرنے والوں کے ساتھ ہی غلط رویے اختیار کیے جا رہے ہوں۔

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.co