counter easy hit

سوشل میڈیا پر قرآن و احادیث کی شیئرنگ

Holy Quran

Holy Quran

تحریر : ابن نیاز
مجھے یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے ہوتے تھے ۔ سکول کا زمانہ تھا تو اکثر گھروں میں کوئی بندہ دروازہ کھٹکھٹا کر ایک کاغذ ہاتھ میں تھما دیتا تھا۔ اس پر لکھا ہوتا تھا کہ سیالکوٹ کے فلاں شخص کو بی بی زینب خواب میں آئی ہیں اور انھوں نے یہ پیغام دیا ہے۔ اور ساتھ میں اس کاغذ میں یہ بھی لکھا ہوتا تھا کہ اس کاغذ کی کم سے کم دس کاپیاں کر کے تقسیم کر یں۔ نہ کرنے والا بہت نقصان اٹھائے گا۔ اس وقت اکثر لوگوں کے عقیدے کمزور ہوتے تھے تو فوٹو سٹیٹ والوں کے مزے ہو جاتے تھے۔ کتنی ہی دس کاپیاں تقسیم ہوجاتی تھیں۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ بھی فوٹوسٹیٹ والوں کی ایک چال ہے کہ انکی بکری بہت زیادہ ہوکیونکہ اس وقت طالب علم ہونے کے باوجود یہ سوال ذہن میں ضرور گردش کرتا تھا کہ جب ہمارے پاس قرآن کی صورت میں ، احادیث کی صورت میں سارے سوالوں کا حل موجود ہے تو پھر ایسے پیغامات کی کیا تک بنتی ہے۔ اور اب جب سے نیٹ کی دنیا میں پیغامات شیئرنگ کا سلسلہ شروع ہوا ہے تب سے اس طرح کے پیغامات پھیلانے کے لیے بھی اسی طرح کے لوگوں نے اس محاذ کو بھی بہت تیزی سے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ کوئی دس سال پہلے تک صرف ای میل سے ہی رابطہ ہوتا تھا، لیکن پھر فورمز بننا شروع ہوئے، فیس بک کی آمد ہوئی، ٹویٹرنے اڑان بھری، وٹس ایپ بھی پیغامات کے لیے استعمال ہونے لگاہے۔ لیکن ان پر پیغامات کی ترسیل کوئی سات آٹھ سال قبل شروع ہوئی ہے۔کچھ اس قدر تیزی سے یہ سلسلہ پھیلا ہے کہ اب دماغ نے بھی حیران ہونا چھوڑدیا ہے کہ مزید سکڑنے کی یا پھیلنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔

بے شک اس سوشل انٹرنیٹ میڈیا کا یہ فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ ایک ہی جگہ پر بہت سا علم حاصل ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ چند لمحے پہلے ہونے والے کوئی واقعہ بھی اکثر اوقات علم میں آجاتا ہے۔ اسی سوشل میڈیا کی بدولت بہت سے بچھڑے ہوئے دوست بھی آپس میں مل جاتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ہی ایک خبر فیس بک کے ذریعے علم میں آئی کہ کوئی پچیس چھبیس سال پہلے بچھڑی ہوئی ماںبیٹی فیس بک کے ذریعے آپس میں ملیں۔ یہ تو مثبت استعمال کا ہوا ایک معمولی سا رخ۔ اسی رخ کو مزید سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں نے اس کو تبلیغ کا ذریعہ بنا دیا ہے بہت اچھی اور بہت ہی عمدہ بات ہے۔میں یہ ہر گز نہیں کہتا کہ دوسرے مذاہب والے اس طرح نہ کریں۔ لیکن ان کی طرف داری بھی نہیں کروں گا کہ اللہ کے فرمان کے مطابق ایک تو سابق تمام انبیاء کرام کی تعلیمات منسوخ ہو چکی ہیں اور دوسرا ان انبیاء کرام پر جو کتب نازل کی گئی تھیں ان میں ابھی ان کے ماننے والوں نے اتنی تحریفات کی ہیں کہ اللہ نے خود فرما دیا کہ اب ان پر عمل ممکن ہی نہیں بلکہ وہ بھی رد و بدل و تحریف کے نتیجے میں قابلِ تقلید نہیں رہیںاسلیے انبیاء میں صرف اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ۖ ہی سب کے لیے ہیں اور تا قیامت ہیں اور ان پر نازل کی گئی اللہ کی آخری کتاب قرآن ہی سب کے لیے تعلیمات کا ذریعہ ہے۔تو بات ہو رہی تھی فیس بک کی ۔ اچھے مسلمانوں نے اس کو تبلیغ کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ بلکہ اس فیس بک پر باقاعدہ سے مناظرے بھی ہو رہے ہیں ۔ لیکن اکثر یہ یک طرفہ ہی ہوتے ہیں کہ غیر مسلمانوں نے اسلام کے مختلف قوانین پر جو جو اعتراضات کی ہیں مسلمان ان کا جواب مختلف دلائل سے جو کہ قرآن اور احادیث پر مبنی ہوتے ہیں دیتے ہیں۔

مسلمانوں کا اللہ پر یقین جتنا بھی کمزور ہو۔ دین کے معاملہ میں انکا عقیدہ جتنا بھی کمزور ہو، اگر ان کے سامنے قرآن کی کوئی آیت یا کوئی احادیث بمعہ ترجمہ پیش کر دی جائے تو وہ اس پر جزاک اللہ، سبحان اللہ ، ماشاء اللہ وغیرہ ضرور کہتے ہیں اور نیٹ پر باقاعدہ لکھتے ہیں۔ جب کہ ان کو قطعاً یہ علم نہیں ہوتا کہ یہ بات جو بیان کی گئی ہے وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ اس ضمن میں ایک واقعہ یاد آگیا جو کہ کسی سے کسی زمانے میں سنا تھا۔ ایک پاکستانی سعودی عرب گیا ۔ وہاں اس نے دیکھا کہ دو سعودی فرد آپس میں لڑ رہے تھے اور ظاہر ہے وہ بات چیت بھی عربی میں کر رہے ہوں گے۔لڑتے لڑتے اتنی آگے بڑھ گئے کہ ایک دوسرے کو عربی میں گالیاں بھی دینے لگے۔وہ پاکستانی جب پاکستان واپس آیا تو کسی نے اس سے پوچھا کہ سعودیہ میں سب سے اچھاکیا لگا؟ اس نے کہا کہ سب کچھ بہت اچھا تھا لیکن ان کی ایک بات بہت کمال کی لگی کہ وہ آپس میں لڑتے ہوئے بھی قرآن کی تلاوت کرتے رہتے ہیں۔بندہ جائے تو کدھر جائے۔ یہی حال سوشل میڈیا کا ہے۔ جن میں فیس بک اور ٹویٹر نمایاں ہیں۔

Muslims

Muslims

مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے یہودیوں نے اپنے اردو میں ماہرافراد کو استعمال کرتے ہوئے قرآن میں گویا تحریف کا کام شروع کر دیا۔ پہلے کوشش کرتے ہیں کہ آیت کو اپنی مرضی سے تبدیل کریں اور پھر اسکا ترجمہ تحریف شدہ آیت کے مطابق لکھیں۔ اس کی ایک مثال سورة توبہ جو کہ قرآن کی نویں سورہ ہے کی آیت نمبر باون ہے، جس کے بارے میں موبائل کے ذریعے ایس ایم ایس بھی بہت پھیلا۔ اور پھر یہ فیس بک پر بھی کافی دفعہ نظر سے گزری۔ جب بھی اس آیت کا حوالہ نظر سے گزرا تو پہلے تو یہی لکھا ہوا نظر آیا امریکہ میں ١١ ستمبر ٢٠٠١ء میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں گرنے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں میناروں کی تباہی کا اس آیت میں باقاعدہ پیش گوئی ہے۔ جب پہلی بار مجھے یہ پیغام آیا تو میں نے نظر انداز کر دیا۔لیکن پھر یکے بعد دیگر کئی دوستوں کی جانب سے جو کہ دنیاوی طور پر تو اتنے پڑھے لکھے ہیں کہ کم سے کم ایم فل کی اصلی ڈگری کے حامل ہیں یہ ایس ایم ایس آیا۔ میں حیران کہ یہ کیا ہے؟ کیوں کہ میں قرآن کی یہ آیت باقاعدہ پڑھ چکا تھا اور اسکا ترجمہ کیا، تشریح بھی پڑھ چکا تھا۔

جب مجھے پہلا ایس ایم ایس آیا تھا۔اس آیت کا ترجمہ ہے: کہہ دو کہ تم ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ایک کے منتظر ہو اور ہم تمہارے حق میں اس بات کے منتظر ہیں کہ خدا (یا تو) اپنے پاس سے تم پر کوئی عذاب نازل کرے یا ہمارے ہاتھوں سے (عذاب دلوائے) تو تم بھی انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔۔ اس کی تشریح اگر دیکھی جائے تو کچھ اس طرح ہے۔”مسلمانوں کے جہاد میں دو ہی انجام ہوتے ہیں اور دونوں ہر طرح سے اچھے ہیں۔ اگر شہادت ملی تو جنت اپنی ہے۔اور اگر غازی بن کر فتح ملی تو غنیمت اجر ہے۔پس (اے نبی ۖ آپ کہہ دو) اے منافقو تم جو ہماری بابت انتظار کر رہے ہو وہ انہی دو اچھائیوں میں سے ایک کا ہے۔اور جس بات کا انتظار ہم تمھارے بارے میں کر رہے ہیںوہ دو برائیوں میں سے ایک کا ہے یعنی یہ کہ یا تو اللہ کا عذاب براہِ راست تم پر آجائے یا ہمارے ہاتھوں سے تم پر اللہ کی مار پڑے کہ قتل و قید کیے جائو۔” اب کوئی بتائے کہ اس آیت میں کہاں سے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کا کسی بھی لحاظ سے ذکر ہے، اشارةً یا مبالغاً۔

یہ مثال تفصیل سے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کی ڈھیروں آیات کے غلط ترجمہ فیس بک پر، ٹویٹر پر یا پھر موبائل ایس ایم ایس کے ذریعے شیئر کیے جاتے ہیں اور ساتھ میں بڑے دھڑلے یہ بھی لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ شیئر کرنے سے شیطان روکے گا۔ بے شک آیت درست ہوتی ہے، ترجمہ بھی درست ہوتا ہے لیکن یہ دھمکی نما جملہ بڑا عجیب سے لگتا ہے۔ کیا ضروری ہے کہ یہ بات شیئر کی جائے۔خیر فیس بک کو بھی یہودیوں نے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا ایک ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ اسی طرح کی ایک اور آیت سے واسطہ پڑا۔ جس کا ترجمہ کچھ اس طرح کیا گیا کہ جو اہلِ کتاب ہیں وہ تمھارے حق میں برے نہیں ہیں اور انہیں دوست سمجھو۔ جب کہ اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں ۔”تم ہر گز یہود و نصاریٰ کو ہر گز دوست نہ بنائو، یہ تو آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انہی میں سے ہو گا (سورة مائدہ ، آیت ٥١)”۔ اب جو شخص کم علم ہو گا، تحقیق نہ کرنے والا ہو گا، اس نے تو یہ آیت پڑھ کر آگے شیئر بھی کر لینی ہے اور سب کو بتانا بھی ہے کہ یہ اہلِ کتاب تو ہمارے دوست ہیں اور سب سے دوستی کرتا پھرے گا۔ یہ تو قرآن کی چند مثالیں ہو گئیں۔

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

احادیث کے حوالے سے تو فیس بک پر شیئرنگ کی بھرمار کی گئی ہے۔اور ایسی ایسی احادیث پڑھنے میں ملتی ہیں کہ جنکا احادیث سے دور دور کا واسطہ بھی نہیں اور لوگ وہی سبحان اللہ، جزاک اللہ لکھتے پھرتے ہیں۔رسول پاک ۖ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جس نے میرے حوالے سے کوئی جھوٹی حدیث بیان کی اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ اور جس سے نبی کریم ۖ اپنا تعلق ختم کر دیں اس کا ٹھکانہ کہاں ہو گا ماسوا جہنم کے۔ بہت سی نام نہاد احادیث اس طرح کی ملیں گی جو تحقیق میں بالکل جھوٹی نکلتی ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ ان پر جو حوالہ دیا جاتا ہے وہ کسی بھی مستند کتاب کا نہیں ہوتا جن میں صحاحِ ستہ اور موطاء امام مالک شامل ہیں۔ اگر حوالہ دیا بھی جاتا ہے تو تو مستدرک حاکم، کنزالعمال کا۔

ٹھیک ہے کہ یہ احادیث کی کتابیں ہیں، لیکن ان کے اندر بھی جو حوالے دیے گئے ہیں ان کا ذکر قطعاً نہیں کیا جاتا ۔ جس کی بنا پر وہ حدیث مشکوک ٹھہرتی ہے۔ مثلاً ایک حدیث نظر سے گزری کہ جو شخص کھڑے ہو کر پانی پیے گا اس کوانتہائی شدید عذاب ہو گا اور جنم کے آخری گڑھے میں اس کو پھینکا جائے گایہ درست ہے کہ اللہ کے قانون اللہ کی مرضی سے اسکی مرضی کے مقامات پر تبدیل ہو جاتے ہیں۔جیسا کہ اکڑ کر چلنے سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔لیکن حج یا عمرہ کے دوران طوافِ کعبہ کرتے ہوئے کچھ چکروں کے دوران تھوڑا اکڑ کر چلنے کا حکم ہے ۔ اس طرح آبِ زم زم کھڑے ہو کر پینے کا حکم ہے۔ یہ درست ہے کہ پانی کھڑے ہو پینے سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن اگر ایک شخص کو بیٹھنے میں دقت ہوتی ہے، اس قدر بیمار ہے کہ بیٹھتے ہوئے اور پھر بیٹھ کر اٹھ کر کھڑے ہونے میں اس کو بہت وقت لگتا ہے جسم میں تکلیف ہوتی ہے تووہ کیا کرے گا۔

جیسا نماز کے بارے میں حکم ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھو، بیٹھ کر پڑھو، لیٹ کر، اشارے سے۔۔ لیکن چھوڑنی نہیں ہے۔ تو اگر عذاب ہوتا تو اس طرح کا کوئی نہ کوئی حکم احادیث میں سے ضرور ملتا۔ اور پھر یہ کہ عذاب تو اس بات پر ہوتا ہے جس سے اللہ پاک نے براہِ راست میں منع فرمایا ہو۔ سب احباب سے گزرش ہے کہ فیس بک ہو یا ٹویٹر یا ان کو اس طرح کو کوئی ایس ایم ایس آئے تو خدارا، پہلے اس کی تحقیق کر لیا کریں، پھر دل کرے تو آگے شیئر کردیا کریں ۔ نہ شیئر کرنے پر ان شا اللہ کوئی گناہ نہیں ہو گا، یہ مجھے یقین ہے۔اللہ پاک ہمیں فیس بک کے، ٹویٹر کے اور یہود و نصارٰی کے شر سے ہر دم محفوظ و ممنون رکھے، آمین۔

Ibn e Niaz

Ibn e Niaz

تحریر : ابن نیاز