counter easy hit

متناسب نمائیندگی کا مطالبہ اور دھاندلی کا سیلاب

Umar Farooq

Umar Farooq

تحریر : عمر فاروق سردار۔ چیچا وطنی

پاکستان میں ہونے والے ہر الیکشن کے بعد نعرہ دھاندلی بلند ہوتا ہے الیکشن کا نظام ہی ایسا ہے ہر کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا جس کو جہاں بھی موقع ملے وہ وہاںدھاندلی کرنا فرض عظیم سمجھتا ہے اس الیکشن میں بھی دھاندلی بھی بڑے منظم انداز سے ہوئی ہے جس کے خلاف پاکستان تحریک انصاف بڑے منظم انداز سے احتجاج کر رہی ہے اور اسی دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا دے رہی ہے اس بات سے بالکل ہت کر کہ دھرنے میں ایک ہزار لوگ شریک ہیں یا ایک لاکھ لیکن اتنے دن تک مسلسل دھرنا احتجاج کوئی آسان کام نہیں ہے

حکومت وقت بھی اس وقت سنجیدہ نظر نہیں آتی ورنہ ایک جوڈیشل کمیشن اب تک اپنا کام مکمل کرکے رپورٹ پیش کر چکا ہوتا اور پاکستان ایک مشکل وقت سے گزر کر ترقی کی راہ میں گامزن ہوتا میں گزشتہ چار سال سے ایک بات اکثر کہا کرتا ہوں کہ الیکشن میں دھاندلی کے ساتھ ساتھ ایک اور بہت بڑی ناانصافی ووٹرز اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہوتی ہے اس پر کیوں بات نہیں کی جاتی اس حوالے سے ہر زبان خاموش نظر آتی ہے آج ہم تفصیل کے ساتھ اس نظام پر بات کریں گے الیکشن میں ایک امیدوارکے ووٹ 61000 ہوتے ہیں وہ ایم این اے منتخب ہو جاتا ہے لیکن دوسرے نمبر والے کے ووٹ 60500 ہونے کے باوجود کسی اہمیت کے حامل نہیں ہوتے اور اتنی بڑی تعداد میں عوام کی رائے کویکسر مستردکر دیا جاتا ہے

یہی اگر پاکستان میں الیکشن متناسب نمائیندگی کی بنیاد پر ہوں تو ووٹرز کا ایک بھی ووٹ ضائع نہ ہومثال کے طور پر جیسے اس وقت قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے پاس 32ایم این ایز ہیں اگر متناسب نمائیندگی کی بنیاد پر الیکشن ہوتے تو اس وقت جتنے ووٹ تحریک انصاف کو ملے ہیں ان کی تقریبا70 سیٹیں ہوتی اسی طرح جماعت اسلامی کے پاس 4ایم این ایز ہیں اگر الیکشن متناسب نمائیندگی کی بنیاد پر ہوتا تو ان کے پاس بھی تقریبا 10سیٹیں ہوتی ،متناسب نمائیندگی کا سب سے زیادہ فائدہ تو پاکستان تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو ہو گا کیوں کہ ان کے ووٹ پورے پاکستان میں بکھرے ہوئے ہیں گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کے پاس ووٹوںکے تناسب سے تو صرف 135سیٹیں ہونی چاہیے تھی

لیکن ان کے پاس 189سیٹیں ہیں یہ بات بھی تو انصاف کے دائرہ میں نہیں آتی اگر متناسب نمائیندگی کا نظام پاکستان میں رائج ہوجائے توکسی ایک ووٹر کا ووٹ بھی رائیگاں نہیں جائے گا اس نظام کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے اس کا سب سے بڑا فائدہ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو ہو سکتا ہے ان دونوں کا ووٹ بینک پورے پاکستان مین بکھرا پڑا ہے لیکن اس متناسب نمائیندگی کے نظام کی بھر پور مخالفت کے لیے جاگیردار،وڈھیرے،گدی نشین،مخدوم ،نواب سب مل کر کھڑے ہو گے کیونکہ اس سے صرف ان کو ہی نقصان پہنچ سکتا ہے ،اور ان کی آبائی سیٹوں سے ہاتھ دونا پڑھ سکتاہے

ایک سب سے بڑا فائدہ پاکستانی عوام اور ہر جماعت کے عام ورکر کو ہوگا کو ہوگا کہ ہر جماعت کی کوشیش ہو گی کہ وہ اپنے سب سے پڑھے لکھے سمجھدار ،ایماندار اور قوت فیصلہ رکھنے والے فرد کو ایم این اے نامزد کرئے جس سے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزان ہوگا اور ہر پاکستانی کو علم ہو گا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو ان کے ووٹ کے ساتھ اسمبلی پہنچے ہیں اور ان کا ایک بھی ووٹ ضائع نہیں گیا ، آج پہلی بار اس نظام کے لیے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے آواز بلند کی ہے کہ پاکستان میں الیکشن متناسب نمائیندگی کی بنیاد پر کروائیں جائے

اگر جماعت اسلامی اس نظام کو نافذ کروانے کے لیے اپنی بھر پور آواز بلند کرتی ہے تو جلد ہی جماعت اسلامی کو محسوس ہوگا کہ وہ اکیلے ہی اس مطالبے پر نہیں کھڑے بلکہ پاکستا ن کی اور بہت سی سیاسی جماعتیںبھی ان کے ساتھ مل کر اس نظام کے لیے جدوجہد کرئے گی اور پاکستانی عوام بھی اس مطابے کے لیے آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی،لیکن اب بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کس انداز سے اپنے اس مطالبے کو منواتی ہے اورعوامی سطح پر کس انداز میں اس نظام کو پیش کرتی ہے اور اس نظام کو عوا

تحریر : عمر فاروق سردار۔ چیچاوطنی
فون نمبر03065876765