counter easy hit

شعیب منصور یا شاہ رخ خان، عامر خان یا عامر لیاقت

ہر دور، ہر ماحول اور ہر مقام کے اپنے تقاضے، اپنے طریقے، اپنی تکنیکس یا اپنے انسٹرومنٹس ہوتے ہیں، یا یوں کہئے کہ کسی کو اپنی بات سمجھانے کیلئے وہ زبان بولنی پڑتی ہے جو اسے سمجھ آتی ہو۔

صوفیاء کرام ہندوستان پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ گانا بجانا مقامی ہندو اور سکھ ثقافت میں یوں رچ بس چکا تھا جیسے بقول اقبال

آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق

شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحرگاہی کا نم

چنانچہ انہوں نے اللہ کے پیغام کو عام کرنے کیلئے اور اعلیٰ معاشرتی اقدار کو پھیلانے کیلئے قوالی یا سماع کا طریقہ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ان کا یہ تجربہ بے حد کامیاب ہوا اور صوفیاء کی جانب سے مقامی آبادی کے پسندیدہ طریقے سے ان کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ برصغیر کے کونے کونے میں اسلام کے نام لیواؤں کی تعداد میں نہایت تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔

تھوڑا پیچھے جائیں تو ہمیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ فرعون اور اس کے اہل دربار کو متاثر کرنے اور ان کو اپنی دعوت کی حقانیت کا یقین دلانے کیلئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادوگروں سے مقابلہ کیا اور ان کا عصاء جادوگروں کے سارے سانپ کھا گیا اور تمام جادوگر سجدے میں گر گئے۔

برصغیر میں مغل حکومت کے زمانے میں ترقی کرنے کیلئے فارسی سیکھنی پڑتی تھی۔ جسے فارسی نہ آتی ہوتی وہ چاہے طب، منطق، فقہ، فلسفے یا امور ریاست و حکومت یا فنِ سپہ گری کا جتنا بھی بڑا ماہر ہوتا، بادشاہ کی نظر میں اپنا مقام نہ بنا پاتا چنانچہ عمر بھر کسی بڑے مقام کو نہ پہنچ پاتا جبکہ فارسی جاننے والے جہلاء بھی شاہ اور اس کے حواریوں کی چمچہ گیری کرکے نہایت بلند مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔

انگریز دور میں ترقی کرنے کیلئے انگریزی جاننا ناگزیر تھا۔

ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں لوگ گلوکاروں اور کوریوگرافرز کو میراثی، نچریئے، ہیجڑے، اداکاروں کو بھانڈ، مسخرے اور نجانے کیسے کیسے ناقابلِ اشاعت القابات سے نوازا کرتے تھے۔ کھلاڑیوں کے بارے میں تو یہ مثل تک مشہور تھی کہ کھیلو گے، کودو گے تو ہو گے خراب۔۔۔۔ گراؤنڈ در گراؤنڈ گھومنے والے آوارہ گرد، نکمے، کام کے نہ کاج کے، دشمن اناج کے اور نجانے کیا کیا کہلایا کرتے تھے۔ لیکن آج دور بدل گیا ہے۔ اب یہ لوگ سلیبریٹیز ہیں۔ حتیٰ کہ رول ماڈلز ہیں!ان کی فین فولووِنگ سرحدیں تک عبور کر جاتی ہے اور ان کا رتبہ ریاستوں، حکومتوں اور عالمی تنظیموں تک کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ مملکتوں اور عالمی تنظیموں کو بڑی بڑی کلغیوں والے کیریئر ڈپلومیٹس اور سیاسی، سماجی، حربی و انتظامی امور کے ماہرین کی جگہ ان ’انٹرنیشنل ہیروز اور ہیروئنز‘ کو اپنا سفیر، مشیر اور نجانے کیا کیا مقرر کرنا پڑتا ہے۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو ماڈلنگ کیا کرتے تھے۔ پریانکا چوپڑا یونیسف کی خیرسگالی سفیر ہیں۔ اینجلینا جولی اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ہائی کمشنر کی خصوصی ایلچی ہیں۔

 

وقت بدل چکا ہے۔ مزید بدل رہا ہے۔ ہیروز زیرو اور زیروز ہیرو ہو رہے ہیں۔ کچھ کے کرتوت ان کی عزت اور مرتبہ کم جبکہ کچھ کے کارہائے نمایاں یا امیج یا محنت یا خلوص یا کچھ اور، انہیں مراتب اور مسند ہائے عزو جاہ سے نوازتا جا رہا ہے۔ وہ جاگیردار، سرمایہ دار، گدی نشین اور اشرافیہ کے دیگر نمائندگان جو پہلے اعلیٰ سیاسی و حکومتی عہدوں کے اصل حقدار یا وارث سمجھے جاتے تھے، امورِ مملکت کو چلانے کیلئے موزوں ترین افراد سمجھے جاتے تھے اور سماجی مصلحین تصور کئے جاتے تھے، اب اپنی ساکھ کھو رہے ہیں، اپنا اثرورسوخ کھو رہے ہیں، اب ان کے اقوال میں وزن رہا ہے اور نہ ان کے افعال میں وزن رہا ہے، وہ اخلاقی قوت اور اپنی حیثیت کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں، ایکسپوز ہو چکے ہیں۔ جب کہ مہناز رفیع، فوزیہ وہاب، طارق عزیز، خوشبخت شجاعت، جواد احمد، ابرار الحق، حمزہ علی عباسی، عمران خان، شاہد آفریدی، شہزاد رائے، شرمین عبید چنائی، سچن ٹنڈولکر، ریکھا، کرتی آزاد، محمد اظہر الدین، شبانہ عظمی اور ہیما مالنی سمیت متعدد فنکار اور کھلاڑی اور دیگر سماجی و ثقافتی شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بتدریج امورِ ریاست و حکومت میں اپنا نفوذ بڑھاتے جا رہے ہیں اور سماجی خدمات کے شعبوں میں بھی اپنا لوہا منواتے جا رہے ہیں، ان کی آوازیں معتبر اور قد بلند ہوتے جا رہے ہیں، ان کی اخلاقی قوت روز افزوں ہےاور ان احباب کو عوام کی جانب سے ملنے والی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ اب عوام بھی سیاست و حکومت و سماجی بہبود و اصلاحِ معاشرہ کو اشرافیہ کے گماشتوں کا پیدائشی حق تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

لیکن۔۔۔۔۔ جہاں یہ پذیرائی فنکاروں اور کھلاڑیوں اور دیگر غیرروایتی عناصر کیلئے حوصلہ افزاء ہے وہیں ان کی ذمہ داریوں کو بھی دو چند کرتی جا رہی ہے۔

چنانچہ قومی زندگی کے سنجیدہ و حساس امور میں دلچسپی لینے اور اپنا حصہ ملانے والے غیرروایتی عناصرکو بھی چاہئے کہ اپنے کندھوں پر آپڑنے والی اس بھاری ذمہ داری کو گاہے گاہے نبھاتے رہا کریں۔ پرچی یا جوانی پھر نہیں آنی، بالو ماہی، مہر النساء وی لب یو، رنگریزہ، چھپن چھپائی اور چین آئے ناں، وغیرہ ضرور بنائیں لیکن کبھی کبھی خدا کیلئے یا پی کے بھی بنا لیا کریں۔ ٹھیک ہے، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بندہ گھر سے ‘بول’ بنانے نکلے مگر بن ‘ورنہ’ جائے یا منٹو کے سپر ہٹ ہونے کے بعد قوم کو معلوم ہو کہ جو بھی تھا اور جیسا بھی تھا، سچ نہیں تھا، گویا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھاجو سنا افسانہ تھا

لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم آہٹ یا ہزاروں راستے یا انکار یا مجھے سانس لینے دو، ریڈ کارڈ یا جنجال پورہ یا دن یا دھواں یا پاگل یا غلام گردش یا باادب باملاحظہ ہوشیار یا ننگے پاؤں یاففٹی ففٹی یا خدا کی بستی یا جانگلوس یا ارتکاء یا مرزا غالب بند روڈ پر یا تعلیم بالغاں۔۔۔۔ اور اسی طرز کے دیگر انگنت لازوال فن پاروں ایسے مزید ہیرے تراشنے ہی بند یا کم یا بہت کم کر دیں۔ آج کا سچ یہ ہے کہ آج کا طریقہ پرفارمنگ آرٹ ہے۔ آج کا نوجوان ہی نہیں، آج کا بچہ اور بڑا بھی اب واعظ سے یا مقرر سے یا ناصح سے نہیں بلکہ ماہرہ خان، شرمین عبید چنائی، شان،سرمد سلطان کھوسٹ، جنید جمشید، امجد صابری، نصرت فتح علی خان، شاہد آفریدی اور حتیٰ کہ حمزہ علی عباسی اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین تک سے’انسپائر‘ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ ان لوگوں کو سنتا ہے، پڑھتا ہے اور ان کے کام کو دیکھتا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ جب بھی کچھ اچھا کریں گے یا کہیں گے تو ان کے اقوال و افعال نوجوانوں کی زندگیوں پر مثبت اور دوررس نتائج مرتب کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوں گے۔ بالکل اسی طرح ان اصحاب کی منفی سرگرمیاں یا ان کی طلال چودھری، فواد چودھری یا عابد شیر علی جیسی موشگافیاں نوجوانوں کے طرزِ فکر و عمل میں بگاڑ کی علامات میں سریع اضافہ کر سکتی ہیں۔

چنانچہ پرفارمنگ آرٹ سے تعلق رکھنے والے اربابِ حل و عقد سے گزارش ہے کہ بدلے ہوئے دور کے اس تقاضے کو بروقت سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ اپنے کل کو روشن دیکھنا چاہتے ہیں تو کوشش کریں کہ آج آپ کی صفوں میں جگہ پانے والوں میں شعیب منصور زیادہ اور شاہ رخ خان کم ہوں۔ عامر خان زیادہ اور ڈاکٹر عامر لیاقت کم ہوں۔