counter easy hit

شہباز شریف کا رنڈی رونا اور سیلکٹڈ وزیراعظم عمران خان

لاہور (ویب ڈیسک) میں سوچتا رہا ہوں کہ مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہلی قطار میں اپنے دائیں ہاتھ آخری سرے پر بیٹھے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو جو Selected وزیراعظم کا خطاب عطا کیا ہے تو اس کا ترجمہ کیا کروں۔ میرے نزدیک نامور دفاعی تجزیہ کار ، سابق اعلیٰ آرمی افسر اور کالم نگار لیفٹننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ اردو زبان کی کم مائیگی ہے کہ اس نے Selected اور Elected کے وہ تراجم نہیں کئے جو ان انگریزی اصطلاحات سے نکلتے یا لئے جاتے ہیں۔ تمام انگلش، اردو لغاتوں میں ان انگریزی الفاظ کے سامنے ’’منتخب‘‘ لکھا ہوا ملتا ہے۔ پاکستان پر جو سیاسی فضا آج کل طاری ہے اس کی موجودگی میں بظاہر Selected کا ترجمہ منتخب وزیراعظم کرنا درست نہیں ہو گا۔ سلیکٹ اور الیکٹ میں جو فرق ہے وہ سارے قارئین کو معلوم ہے۔۔۔ سلیکٹ کسی واحد شخصیت کی طرف سے یا کسی ایک ادارے کی طرف سے چنے گئے فرد کو کہا جاتا ہے جبکہ الیکٹ کا مفہوم ایسا فرد ہے جسے عوام کی طرف سے باقاعدہ انتخابی عمل کے ذریعے اتفاق رائے سے چنا گیا ہو۔۔۔ میں نے پہلے اپنے کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ جب تک ان دونوں اصطلاحوں کا ترجمہ اردو میں نہیں ملتا، تب تک سلیکٹ کا ترجمہ ’’چنیدہ‘‘ کر لیا جائے اور الیکٹ کا ترجمہ ’’منتخب‘‘ ہو جائے تو اس سے کچھ نہ کچھ بات تو بن ہی جائے گی لیکن کسی بھی طرف سے میرے اس خیال کو پذیرائی نہیں ملی اس لئے یہ معاملہ جہاں تھا، وہیں اٹکا ہوا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر متحدہ حزبِ اختلاف کے سربراہان (جناب شہباز شریف اور جناب بلاول زرداری) ایک Elected وزیراعظم کو Selectedکہہ کر پکارتے ہیں تو اس سے ان کا مدعا کیا ہے؟۔۔۔ وہ واحد کون شخص ہے جس نے عمران خان کو سلیکٹ کرکے ملک کا وزیراعظم بنا دیا ہے؟۔۔۔ کیا سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہے یا کیا پاک آرمی کا چیف آف آرمی سٹاف ہے؟۔۔۔ اور اگر ان دونوں حضرات نے مل کر عمران خان کو اس عہدے پر فائز کیا ہے تو تب بھی وزیراعظم کو ’’سلیکٹڈ‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔اس کے لئے ایک شخص یا ایک ادارہ ہونا چاہیے جو ECP (الیکشن کمیشن آف پاکستان) ہے کوئی اور نہیں۔۔۔اگر میاں شہبازشریف کا دل ٹٹول کر دیکھا جائے تو اس تبدیلی لانے میں شائد چیف جسٹس کا نام بھی ہو گا لیکن پہلا نام آرمی چیف کا ہو گا۔ لاریب نون لیگ اور پی پی پی کے موجودہ سربراہان کا اصل فوکس فوج پر ہے۔ان کو یقین ہے کہ پاک آرمی ہی نے یہ ’’حرکت‘‘ کی اور انتخابات کا ڈھونگ رچا کر عمران کو Elect نہیں کروایا،Select کر لیا ہے۔ بناء بریں میں نے سوچا کہ اگر Selected وزیراعظم کا ترجمہ ’’فوجی وزیراعظم‘‘ کر دیا جائے اور انتخابات کے عمل سے گزر کر جو شخص اوپر آئےاسے ’’عوامی وزیراعظم‘‘ کہا جائے تو یہ اصطلاحیں نہ صرف سادہ اور قابلِ فہم ہوں گی بلکہ متحدہ اپوزیشن کا کلیجہ بھی ٹھنڈا ہو جائے گا۔۔۔ یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام! راقم السطور کو ’’قوی‘‘ امید ہے کہ انگریزی میں عمران خان کو Selected وزیراعظم کی بجائے اگر قومی اسمبلی کے اندر یا باہر کسی بھی جگہ، ’’فوجی وزیراعظم‘‘ کہہ کر خطاب کیا جائے تو یہ لسانی گتھی اور اپوزیشن کی الجھن سلجھائی جا سکتی ہے۔ اب تو میاں شہبازشریف کی شہ پا کر دوسرے بہت چھوٹے درجے کے لیگی سیاستدان بھی برملا عمران خان کو Selected وزیراعظم کہہ رہے ہیں۔ ابھی اگلے روز طلال چودھری فرما رہے تھے کہ ’’غضب تو یہ ہے کہ Elected وزیراعظم جیل کے اندر بند ہے اور Selected وزیراعظم مسندِ وزارتِ عظمیٰ پر فائز بیٹھا ہے‘‘۔ طلال چودھری اگر عوامی اجتماعات میں ’’فوجی وزیراعظم‘‘ اور ’’عوامی وزیراعظم‘‘ کی اصطلاحیں استعمال کریں گے تو ہر ریڑھی والے کی سمجھ میں بھی یہ حقیقت بیٹھ جائے گی کہ عمران خان دراصل ’’فوجی وزیراعظم ‘‘ یا فوج کی طرف سے لایا ہوا وزیراعظم ہے اور عوام کا وزیراعظم نہیں۔اللہ اللہ خیر سلا۔۔۔آپ کو وہ ایام بھی یاد ہوں گے جب سپریم کورٹ نے میاں نوازشریف کو نااہل قرار دے دیا تھا تو ان کی جگہ پارٹی نے جس رکن قومی اسمبلی کو وزیراعظم نامزد کیا تھا وہ جناب شاہد خاقان عباسی تھے،جنہوں نے ہر جگہ بار بار یہ گردان دہرائی کہ اہلِ وطن مجھے بے شک وزیراعظم سمجھیں، (میں ان کا منہ تو بند نہیں کر سکتا) لیکن میرے وزیراعظم اب بھی میاں نوازشریف ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔۔۔ فوجی وزیراعظم کی اصطلاح استعمال کرنے کی راہ میں ایک دو الجھنیں اور بھی ہوں گی۔۔۔ ایک تو خود فوج کی طرف سے ہو گی۔ ظاہر ہے پاکستان آرمی نہیں چاہے گی کہ مرادی اصطلاح کو لسانی اصطلاح کا درجہ دے دیا جائے۔ ہر چند کہ Selected وزیراعظم کا مرادی مفہوم ’’منتخب از طرفِ فوج‘‘ ہی لیا جائے گا لیکن پھر بھی اس میں ایک ابہام کا پہلو تو ضرور موجود رہے گا۔پاکستان کے 21کروڑ عوام میں اگر آدھی تعداد کو بھی اس کا مفہوم سمجھا دیا جائے تو باقی 10،12 کروڑ تو گومگو کی کیفیت میں رہیں گے۔ لیکن اگر ’’فوجی وزیراعظم‘‘ کی اصطلاح خواص کی محفلوں سے نکل کر عوام کے جلسوں تک آ جائے گی تو فوج اپنے سر یہ الزام کیسے لے گی؟ ہماری قومی بدقسمتی اور ہارے ہوئے سیاست دانوں کی خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ وہ اپنی شکست کو عوام کی طرف سے لائی ہوئی شکست نہیں گردانتے بلکہ ان کی طرف سے ہمیشہ یہی واویلا ہوتا رہا ہےکہ ہمیں فوج نے شکست دلوائی ہے اور جو شخص وزیراعظم بنا ہے وہ فوج کی بیساکھیوں پر چل کر یہاں تک پہنچا ہے۔ وگرنہ ہم کہ جو جدّی پشتی وزیر، وزیراعلیٰ ، وزیراعظم اور صدر چلے آئے ہیں ہمیں شکست کیسے ہو سکتی ہے؟ دوپارٹی سسٹم کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک پارٹی ہارتی ہے اور دوسری جیت جاتی ہے۔ ایسا عشروں سے ہو رہا ہے لیکن اس رنگ میں اگر کوئی تیسری پارٹی آکر بھنگ ڈالتی ہے تو دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہوتا ہے۔۔۔ اسی ’’کالے‘‘کو فوج کا لایا ہوا وزیراعظم کہا جاتا ہے! راقم السطور بھی ان سے ایک حد تک متفق ہے۔۔۔ لیکن انگریزی زبان میں ایک محاورہ یہ بھی ہے کہ آپ گھوڑے کو مار مار کر یا ہانک ہانک کر پانی کے حوض تک تو لا سکتے ہیں، اسے پانی پلوا نہیں سکتے۔ سوچتا ہوں کہ اگر فوج کسی ووٹر کو بہلا پھسلا کر یا منت ترلا کر کے یا گاجر دکھا کر اور یا چھڑی گھما کر پولنگ بوتھ تک لے بھی آتی ہے تو وہ اس کو ووٹ کی پرچی پر ’’غلط‘‘ جگہ مہر لگانے پر تو مجبور نہیں کر سکتی!۔۔۔ ہمارے ہاں جب بھی الیکشن ہوتے ہیں، ان کا خاتمہ ابھی چند قدم دور ہوتا ہے کہ شکوک و شبہات کے سائے نتائج کے راستے میں لہرانے لگتے ہیں۔’’قرعہ ء فال‘‘ ہمیشہ فوج کے نام نکلتا ہے۔ اہلِ پاکستان کو وہ حالیہ ایام یاد ہوں گے جب میاں نوازشریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا تھا تو وہ اپنے گھر رائے ونڈ تک آتے آتے صرف 300کلومیٹر کی ’’راہِ دور دراز‘‘ طے کرنے کے دوران درجن بھر مقاماتِ آہ و فغاں پر رک رک کر عوام سے خطاب کرتے تھے اور پوچھتے تھے کہ ’’مجھے کیوں نکالاَ‘‘؟۔۔۔ سچ پوچھئے تو اس ایک اوچھے سوال نے نون لیگ کو الیکشنوں میں بہت ضعف پہنچایا۔ اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ کوئی خلائی مخلوق اور چند نادیدہ ہاتھ کسی عوامی وزیراعظم کو مسندِ اقتدار سے اتار دیتے ہیں تو سیاستدانوں کو سوچنا چاہیے کہ اگر یہ مخلوق اور یہ ہاتھ ایک بار ایسا کر چکے ہیں تو دوسری بار ان کو ایسا کرنے سے کون روک سکے گا؟ ۔۔۔اگر میں بفرض محال ملک کا معزول شدہ یا نااہل وزیراعظم ہوتا تو اپنی سیاسی پارٹی کو سختی سے منع کرتا کہ دیکھو جس ادارے نے ہمیں ایک بار اقتدار سے الگ کیا ہے اس کو دوسری بار ایسا کرنے کا موقع نہ دو، ان کو اشتعال نہ دلاؤ ،وہی کچھ کرنے پر نہ اکساؤ جس کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے ہاں سیاستدان ہی جنم لیتے رہے ہیں کوئی سیاسی مدبر پیدا نہیں ہو سکا! اگر کوئی سیاسی مدبر ہوتا تو اپنی ناکام سٹرٹیجی کو ضرور تبدیل کر دیتا، ایک ہی سوراخ سے بار بار نہ ڈسا جاتا اور کھڈوں اور کھائیوں بھرے اس ایک ہی گھسے پٹے راستے پر رواں دواں نہ رہتا جس پر چل کر شکست کھائی تھی۔ فوج بار بار کہہ چکی ہے کہ وہ اس گندے کھیل (Dirty Game)میں ملوث نہیں ۔ اس کے کرنے کے اور کام بہت ہیں۔۔۔ ملک کی سلامتی ہے، دفاعی اور خارجہ پالیسیاں ہیں، اقتصادی بدحالی ہے، امن و امان کی صورتِ حال ہے۔۔۔ ان سب کو سنبھالنے اور کنٹرول کرنے میں سویلین حکومت کی پشت پناہی کرنی پڑ رہی ہے۔ فوج یہ افورڈ ہی نہیں کر سکتی کہ وہ اپنے سر یہ الزام لے کہ ملک کا وزیراعظم بھی وہی Select کرتی ہے۔ میرا خیال ہے سیاستدان ایسا کرکے فوج کی لوئر اور ہائر قیادت کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ کیا سوچ رہی ہے اور ان کو صلہ کیا مل رہا ہے۔۔۔ دورنہ جائیں۔ لورالائی میں حال ہی میں پولیس ٹریننگ سنٹر پر جو حملہ ہوا ہے،اس کو دیکھ لیں۔ اس کی کوریج میڈیا کی طرف سے کس گراف تک گئی ہے؟۔۔۔شہداء کے لواحقین کو کس کس چینل نے اپنے ہاں بلوا کر یا ان کے ہاں جا کر ان کو تشفی دی ہے؟۔۔۔ ٹی وی چینلوں کی ساری سکرینیں کتنی بار اس دہشت گردانہ حملے کی عکاسی دکھا چکی ہیں۔۔۔ اور دوسری طرف دیکھ لیجئے،سانحہ ء ساہیوال کی کوریج اور اس کی پروجیکشن کو کور (Cover) کرنے میں آج کتنے دنوں سے مسلسل صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے؟۔۔۔ فوج (یا رینجرز یا پولیس) جب یہ صورت حال دیکھتی ہے تو اس پر اور اس کے وابستگانِ دامن پر کیا گزرتی ہے؟ ہم نے کبھی سوچا کہ آخر وہ کون بدکردار لوگ ہیں جو جب چاہتے ہیں کسی حادثے یا سانحے کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک لے جاتے ہیں اور آسمان پر ہونے والے سانحات کو زمین پر دے مارتے ہیں؟ بالفرض اگر فوجی وزیراعظم، فوج نے بنا ہی دیا ہے تو اس کو 5سال تک آزما کر تو دیکھیں کہ اگر وہ فوج کی طرف سے لایا ہوا ہے تو فوج کی مدح سرائی میں کہاں تک جاتا ہے؟۔۔۔ ماضی کے مقابلے میں اپنے دور کے 5برسوں میں کوئی مثبت تبدیلی لاتا ہے یا نہیں لاتا؟۔۔۔ قوموں کی برادری میں ملک کے وقار کو پیشِ نظر رکھتا ہے یا فوج کی حمایت میں رطب اللسان رہتا ہے؟۔۔۔ ہمیں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ کہاں ٹھوکر کھا رہے ہیں۔۔۔میرا خیال ہے ابھی اس اصطلاح (فوجی وزیراعظم) کو اپنانے کا وقت نہیں آیا۔ ایک سیکیورٹی ادارہ جو بار بار اپنے آپ کو انتظامیہ کا حصہ (اور ماتحت) ڈکلیئر کرتا رہتا ہے اس کو خواہ مخواہ اس کے قد سے اوپر اور اونچا اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟