counter easy hit

شاہ عبداللہ کی وفات’ مسلم امہ عظیم لیڈر سے محروم ہو گئی

King Abdullah

King Abdullah

تحریر : حبیب اللہ سلفی
سعودی عرب کے فرمانروا اور خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز رضائے الہٰی سے اپنے خالق حقیقی سے جاملے ہیں(انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ان کی وفات سے صرف پاکستان ہی ایک بہترین و مخلص دوست سے نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ ایک عظیم خیرخواہ لیڈر سے محروم ہو گئی ہے۔ 2005ء میں میں مملکت سعودی عرب کے چھٹے بادشاہ کے طور پر تخت نشین ہونے والے شاہ عبداللہ عمر پچھلے کچھ عرصہ سے سخت علیل تھے مگر خرابی صحت کے باوجود امور حکومت چلانے میںوہ انتہائی تندہی سے کام لیتے رہے۔ ان کا شمار سعودی عرب کے ان حکمرانوں میں ہوتا ہے جن کے دور حکومت میں مملکت سعودی عرب نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں غیر معمولی ترقی اور خوش حالی کے نئے باب رقم کئے ہیں۔ ان کی کامیابیوں کا سلسلہ کسی ایک شعبے تک محدود نہیںہے۔ معیشت، تعلیم، صحت، سوشل ویلفیئر، نقل وحمل، مواصلات، صنعت، بجلی، پانی، زراعت، تعمیرات غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں انہوں نے ماضی کی نسبت سعودی عرب کو زیادہ ترقی یافتہ بنا دیاہے۔ وہ نہ صرف اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مشہور تھے بلکہ اس باب میں ان کی شہرت منصوبوں کو ان کے وقت مقررہ سے بھی قبل مکمل کرنے کے حوالے سے رہی ہے۔خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز 1924ء میں ریاض میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم شاہی محل میں حاصل کی۔ شاہ عبدالعزیز آل سعود کے زیر اثر رہنے کی وجہ سے ان کے اندر مذہب، تاریخ اور عرب ثقافت کیلئے گہرا احترام پیدا ہوا۔ اس طرح صحرا میں بدوی قبائل کے ساتھ گزری طویل مدت کے دوران انہیں ان کے رسوم و رواج، سادگی، سخاوت اور شجاعت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ان کے دل میں عوام کی ترقی و مددکی شدید خواہش پیدا ہوئی۔

2005ء میں اقتدار سبھالنے کے بعد شاہ عبداللہ بن عبدالعزیزرحمة اللہ علیہ نے ترقی کو اپنے عہد کا نصب العین قرار دے دیا اور بہت سے ایسے اقتصادی، معاشرتی ، تعلیمی، صحت اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شروع کئے جن سے پوری مملکت سعودی عرب میں ایک تبدیلی آئی۔ انہوںنے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حرمین کی توسیع کے منصوبے شروع کئے۔ 19اگست 2011ء جمعہ کو مسجد الحرام کے ایک عظیم الشان تاریخی توسیعی پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا جس کی تعمیر کے بعد ا س نوتعمیر شدہ عمارت میں 25لاکھ مزید نمازیوں کی گنجائش پیدا ہوجائے گی۔ اس منصوبہ پر 80بلین سعودی ریال خرچ ہوں گے۔ اس توسیع کے مرکزی دروازے کا نام باب شاہ عبداللہ ہوگا جس پر دو بڑے مینار بنائے جائیں گے یوں حرم شریف کے کل میناروں کی تعداد گیارہ ہو جائے گی۔ یہ توسیعی منصوبہ مسجد الحرام کے شمال اور شمال مغرب میں واقع چار لاکھ مربع میٹر اراضی پر محیط ہو گا۔ اس میں مطاف کی توسیع بھی شامل ہے جبکہ تمام نئی عمارتیں ایئر کنڈیشنڈ ہوں گی۔ یہ عظیم تر توسیعی منصوبہ بنیادی ضروریات کی تمامتر خدمات اور سازو سامان بالخصوص صفائی ، امن و امان کے جدید نظام اور پینے کے پانی کے فواروں جیسی سہولیات سے مزین ہو گا۔

یہ منصوبہ تقریبا تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ شاہ عبدالعزیزنے مسجد نبوی کی توسیع کے احکامات بھی صادر فرمائے جس سے مسجد نبوی میںمزید 16لاکھ نمازیوں کی گنجائش پیدا ہو سکے گی۔ مسجد نبوی کی یہ توسیع حجاج کرام اور زائرین کو مزید سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے کی جارہی ہے تاکہ وہ مزید آرام اور سہولت کے ساتھ مسجد اور اس کے گردونواح میں اپنی عبادات سرانجام دے سکیں۔ مسجد نبوی کی یہ بے مثال توسیع خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ کی ان کاوشوں کا تسلسل ہے جو وہ اسلام و مسلمانوں کی خدمت کیلئے سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ توسیع کا یہ منصوبہ تین مراحل میں انجام پذیر ہو گا۔ پہلے مرحلہ میں 8لاکھ عبادت گزاروں کیلئے گنجائش پیدا کی جائے گی جبکہ دوسرے اور تیسرے مرحلہ میں اتنے ہی مزید عبادت گزاروں کیلئے انتظامات کئے جائیں گے۔ توسیع شدہ عمارت میں عبادت گزاروں کی کل تعداد 16لاکھ ہو جائے گی۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے ترقی پذیر ممالک کی امداد کیلئے سعودی ترقیاتی فنڈ کے عمل کو بھی مزید مضبوط کیاااور ان کے دور میں مملکت سعودی عرب ان ممالک کی امداد میں پیش پیش رہی جنہیں قدرتی آفات یا داخلی جنگوں کا سامنا رہاہے۔شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کے اور بھی بہت سے منصوبہ جات اور اہم ترین کامیابیاں ہیں جن کی وجہ سے تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

حائل، مدینہ منورہ، رابغ، جازان اور دیگر شہروںمیں ”کنگ عبداللہ اکنامک سٹی” کے نام سے بڑے منصوبوں کا آغاز کیا گیا۔ ریاض میں ترقی یافتہ اقتصادی مرکز کی تعمیر، کنگ عبداللہ یونیورسٹی آ ف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور الامیرہ نورہ بنت عبدالرحمن یونیورسٹی برائے خواتین سمیت دس نئی یونیورسٹیوں کا قیام وغیرہ بھی ان کے اہم منصوبوں میں شامل ہیں۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے دورحکومت میں سعودی عرب ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن(WTO) میں شامل ہوا۔انہوںنے پسماندہ اور ضرورتمندوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے بلاتفریق قومیت، سعودی خصوصی ہسپتالوں کے دروازے ان کیلئے کھول دیے ہیں۔ وہ بین المذاہب مکالمہ میں بڑی دلچسپی رکھتے تھے اور اس سلسلہ میں مکہ مکرمہ، میڈرڈ اور نیویارک بین الاقوامی کانفرنسوں کی قیادت کر چکے ہیں۔ 2012ء میں انہوںنے مکہ مکرمہ میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کروایا تاکہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔ عالمی سطح پر خادم الحرمین الشریفین کی بین الاقوامی سفارتی کوششیں اسلامی دنیا کے مفادات کے دفاع اور عالمی سطح پر امن ، سلامتی اور استحکام لانے کیلئے سعودی قیادت کے کردار کی عکاسی کرتی ہیں۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیزپاکستان کے بہترین اور مخلص دوست تھے۔ پاک سعودی تعلقات ابتدا سے ہی خوشگوار رہے ہیں۔شاہ فیصل رحمة اللہ علیہ کے دور میں یہ تعلق اپنے عروج پر پہنچا تاہم ان کی وفات کے بعد بھی سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی کمزوری نہیں۔

آئی خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ پاکستان آئے تو پاکستانی عوام نے ان کا بھرپور استقبال کیا جس سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور کہاکہ ہم پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔2005ء میں آزاد کشمیر و سرحد کے خوفناک زلزلہ اور 2010ء کے سیلاب کے دوران بھی مصائب و مشکلات میں مبتلا پاکستانی بھائیوں کی مدد میں سعودی عرب سب سے آگے رہا او ر روزانہ کی بنیاد پر امدادی طیارے پاکستان کی سرزمین پر اترتے رہے یہی وجہ ہے کہ اسلام پسند اور محب وطن حلقوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سعودی عرب کے اسلامی اخوت پر مبنی کردارسے پاکستان کی نوجوان نسل کو آگا ہ کیا جائے اور اس کیلئے وہ اپنا کردار بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔ وطن عزیزپاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایٹمی قوت ہے۔جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنا تھے اور امریکہ ویورپ سمیت پوری دنیا کا دبائو تھا کہ پاکستانی حکومت ایٹمی دھماکوں سے باز رہے۔اس مقصد کے تحت دھمکیاں بھی دی گئیں اور لالچ بھی دیے جاتے رہے۔ یہ انتہائی مشکل ترین صورتحال تھی مگر ان حالات میں بھی سعودی عرب نے اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کا حوصلہ بڑھایا اور اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔

شاہ عبداللہ رحمة اللہ کی وفات کے بعد اب ان کے بھائی اور ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز ملک کے نئے بادشاہ ہوں گے۔شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی نماز جنازہ ریاض کی امام ترکی بن عبداللہ مسجد میں ادا کی گئی جس میں کئی عالمی رہنمائوںنے شرکت کی۔ سعودی عرب اور پاکستان سمیت پوری مسلم امہ غم کی کیفیت میں ہے۔سعودی عرب کے نئے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی عمر 79 برس ہے اور انہیں مرحوم شاہ عبداللہ نے 2012ء میں ولی عہد اور ملک کا وزیرِ دفاع مقرر کیا تھا۔ وہ اس سے قبل پانچ دہائیوں تک دارالحکومت ریاض کے گورنر بھی رہے ہیں۔ سلمان بن عبدالعزیز نے نائب ولی عہد شہزادہ مقرن کو اپنا جانشین اور ولی عہد مقرر کردیا ہے اور شاہی خاندان میں نامزدگیوں کی نگران کونسل سے اس تقرری کی توثیق کرنے کی درخواست کی ہے۔اکہتر سالہ شہزادہ مقرن مملکتِ سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں اور گزشتہ دو برسوں سے مملکت کے نائب وزیرِاعظم کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔انہیں گزشتہ سال مارچ میں شاہ عبداللہ نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار نائب ولی عہد مقرر کیا تھا۔ شہزادہ مقرن سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ رہنے کے علاوہ مدینہ اور شمال مغربی صوبے حائل کے گورنر اور شاہ عبداللہ کے خصوصی مشیر بھی رہ چکے ہیں۔امید ہے کہ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد نئے ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیزکے دور حکومت میں بھی پاک سعودی تعلقات اسی طرح مضبوط و مستحکم رہیں گے۔ دعاہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان اور سعودی عوام و حکمرانوں کے مابین محبتوں کے یہ سلسلے اسی طرح قائم و دائم رکھے۔

تحریر : حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005