counter easy hit

سنسنی خیز لمحات

“میں نے ابھی ابھی اسے ختم کیا ہے۔”  ایک گھٹی گھٹی آواز ابھری۔

اتنا سننا تھا کہ نذیر بدحواس ہو گیا۔ الفاظ سے صاف ظاہر تھا کہ کسی کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا تھا۔ یہ ایک خوف ناک صورت حال تھی۔ قاتل اس کے نہایت قریب  مگر نظروں سے اوجھل تھا۔ اس کے بدن میں سردی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ اس نے سوچا کہ اگر قاتل نے اس کو دیکھ لیا تو سمجھ جائے گا کہ وہ اس کے راز سے واقف ہو گیا ہے اور ممکن ہے کہ قاتل اپنے راز کو افشا ہونے سے بچانے کے لیے اس کی جان بھی لینے پر تل جائے۔ یوں بھی جس نے ایک قتل کر دیا ہو اس کو دوسرے قتل سے بھلا کیا فرق پڑنے والا تھا۔ یہ سوچ کر نذیرکے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ وہ ممکنہ موت کے منہ کے دہانے پر کھڑا ہوا تھا۔ موت کا خوف اچھے اچھوں کو لرزا دیتا ہے اور وہ تو ایک عام سا انسان تھا۔

اس وقت وہ ایک ریل گاڑی میں سفر کر رہا تھا۔ ائیر کنڈیشنڈ کوپے میں بیٹھے بیٹھے جب وہ تنگ آ گیا تو تھوڑی دیر کے لیے ریل گاڑی کی بوگی کے دروازے پر آ کھڑا ہوا  تھا۔ دروازے کے ساتھ ہی ٹوائلٹ تھا۔ اسے کھڑے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ وہ الفاظ اس کے کانوں سے ٹکرائے تھے۔ گاڑی تیز رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔ آہنی پٹڑیوں پر فولادی پہیوں کی رگڑ کا بے پناہ شور  کھلے دروازے سے اندر آتا ہوا کانوں کے پردے پھاڑے ڈال رہا تھا مگر یہ الفاظ اس کو نہ جانے کیسے بالکل صاف سنائی دیئے تھے۔ شاید قدرت کو یہ منظور تھا کہ کسی کی جان لینے والا قانون کی گرفت سے بچ نہ سکے۔

اس نے ذرا سا دور ہٹ کے راہداری میں نظر دوڑائی۔ یہ دیکھ کر اس کے خوف میں مزید اضافہ ہو گیا کہ وہاں کوئی نہیں تھا۔  ایسے میں اگر قاتل ٹوائلٹ سے باہر نکل آتا تو اس کی بھی موت یقینی ہو جاتی۔ اس کے مساموں سے پسینہ پھوٹ پڑا۔ اسے یہاں سے ہٹنا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ قاتل جب بھی نکلے اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہو پائے۔ اس کی خوش قسمتی کہ عین اسی وقت ایک کوپے کا دروازہ کھلا اور ایک نوجوان باہر نکل آیا۔ اس کو حوصلہ ملا کہ اب وہ تنہا نہیں ہو گا۔ اس نے ٹوائلٹ کے دروازے کو نظر میں رکھتے ہوئے اس نوجوان کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ نوجوان کی آنکھوں میں حیرت ابھری۔ کیونکہ اس کا انداز نہایت پراسرار تھا۔ نوجوان نے اپنے کوپے کے اندر سر ڈال کر کچھ کہا ۔ شاید اپنے ہمراہیوں کو آگاہ کیا اور پھر ہچکچاتا ہوا اس کے پاس آگیا۔ اس کی آنکھوں میں استفسار تھا۔ اس نے دبی دبی آواز میں نوجوان کو بتایا کہ ریل گاڑی میں ایک قتل ہو چکا ہے اور قاتل ٹوائلٹ میں موجود ہے۔ اس کی بات سنتے ہی نوجوان کی آنکھوں میں بھی خوف دوڑ گیا۔ قریب تھا کہ وہ نوجوان چلا اٹھتا مگر اس نے جلدی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کی چیخ کو روکا۔ ٹوائلٹ کا دروازہ بدستور بند تھا۔

نوجوان وہاں سے ہٹنا چاہتا تھا اس کے انداز میں گھبراہٹ اور بے چینی تھی مگر اس نے نوجوان کا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ان میں سے کم از کم ایک فرد ٹوائلٹ کو اپنی نگاہ میں رکھے اور دوسرا جا کر پولیس کو بلا لائے۔ نوجوان نے اس کی بات سن کر پولیس کو بلا لانے کی حامی بھر لی۔ اس نے سکون کا سانس لیا۔ اس سے پہلے کہ نوجوان جاتا اس نے پوچھا کہ کیا نوجوان کے ساتھ کوئی اور مرد بھی سفر کر رہا ہے؟ نوجوان نے بتایا کہ اس کے والد اور چچا بھی اس کے ہمراہ ہیں۔ اس نے درخواست کی کہ وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو اگر یہاں بھیج دے اور پھر پولیس کو بلا لائے تو بہتر ہو گا۔ نوجوان کے انداز سے معلوم ہو رہا تھا کہ اس کو یہ بات مناسب نہیں لگ رہی مگر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مان گیا۔ جلد ہی وہ اپنے کوپے میں غائب ہو گیا۔ صرف تیس سیکنڈ بعد وہ کوپے سے باہر آیا تو اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر آدمی بھی تھا جو ہاتھ پاؤں سے مضبوط نظر آتا تھا۔ ادھیڑ عمر آدمی فوراً ہی اس کے پاس پہنچ گیا جبکہ نوجوان پولیس والوں کی تلاش میں نکل گیا۔  ٹوائلٹ ابھی تک بند تھا۔

صرف دو منٹ میں نوجوان تین مسلح پولیس والوں کو بلا لایا۔ وہ انہیں راستے میں صورت حال سے آگاہ کر چکا تھا۔ پولیس والوں نے ٹوائلٹ کے آس پاس پوزیشن سنبھال لی۔ اب ان لوگوں کو قاتل کے باہر آنے کا انتظار تھا۔ وہ مطمئن تھا کہ اس نے بطور ایک ذمہ دار شہری اپنی ذمہ داری بخوبی نبھا دی تھی۔ اتنے میں نوجوان نے ادھیڑ عمر آدمی کے کان میں کوئی سرگوشی کی۔ وہ سنتے ہی اس ادھیڑ عمرآدمی کا رنگ اڑ گیا۔ اس نے جلدی سے پولیس والوں کو بتایا کہ اس کا بھائی کچھ دیر پہلے کوپے سے نکلا تھا۔ اب وہ نوجوان اور ادھیڑ عمر آدمی شدید بےچین ہو گئے تھے۔ ٹوائلٹ میں ایک قاتل کی موجودگی کا مطلب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ان کا ہمراہی ہی ممکنہ مقتول ہو۔

اب اس ادھیڑ عمر آدمی کا اصرار تھا کہ پولیس والے ٹوائلٹ کا دروازہ کھلوائیں اور قاتل کو باہر نکالیں۔ پولیس والے بھی صورت حال کے پیش نظر اس بات کے لیے تیار ہو چکے تھے۔ قریب تھا کہ وہ کوئی کارروائی کرتے کہ اچانک ٹوائلٹ کے دروازے کا ہینڈل نیچے ہوا۔ پولیس والوں نے بندوقیں تان لیں۔ ان سب کے اعصاب تن گئے۔  یہ نہایت سنسنی خیز لمحات تھے۔ ایک خطرناک قاتل کچھ ہی دیر میں ان کے سامنے آیا چاہتا تھا۔ نوجوان اور ادھیڑ عمر آدمی کے چہروں پر امید اور مایوسی کے ملے جلے تاثرات تھے۔ ان کی آنکھوں میں کرب نمایاں تھا۔ ان کو اپنے پیارے کی لاش کا دیدار ہونے والا تھا۔ اس کی حالت بھی مختلف نہیں تھی۔ اس نے زندگی میں کبھی کسی قاتل کونہیں دیکھا تھا۔ مگر آج اس کی وجہ سے ایک قاتل پکڑا جانے والا تھا۔ اور پھر دروازہ آہستہ آہستہ کھلتا چلا گیا۔

دھویں کا ایک ریلا ٹوائلٹ سے باہر آیا۔ اور دھویں کے اندر سے ایک ہیولا برآمد ہوا۔ وہ ایک صحت مند ادھیڑ عمر شخص تھا۔ اس کے لبوں میں ایک سگریٹ  تھا اور بغل میں ایک کتاب دبی ہوئی تھی ۔ جبکہ اپنے ہاتھوں سے وہ اپنے کپڑے درست کر رہا تھا۔ اس کی قمیض کی سامنے والی جیب میں ایک موبائل فون تھا جس کی اسکرین چمک رہی تھی۔ باہر آتے ہی وہ اپنے سامنے موجود لوگوں کے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ یہ دیکھتے ہی نوجوان کا منہ کھلا۔ اور یہی وہ وقت تھا جب ایک پولیس والے نے فائر کر دیا۔ گولی سیدھی اس شخص کے سینے میں لگی ۔ نوجوان کے منہ سے نکلنے والی بلند چیخ فائر کی آواز میں دب گئی۔ ابا!

تب نذیر کو اچانک اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اندر موجود شخص اس نوجوان کا باپ تھا اور اس نے موبائل فون پر کسی کو کتاب ختم کرنے کے بارے میں بتایا تھا۔

ضروری نوٹ: اب آپ اس پوری تحریر اس کو پس منظر کے ساتھ دوبارہ پڑھیں کہ ہم کیسے سنی سنائی بات کو خود ساختہ نتائج کے ساتھ نہ صرف سمجھ بیٹھتے ہیں بلکہ انتہائی وثوق سے آگے بھی بیان کر دیتے ہیں۔  یہ ہمارے وطن کے بے شمار المیوں میں سے ایک المیہ ہے۔  ہم کسی بات کی تحقیق میں وقت ضائع نہیں کرتے بلکہ ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ “سب سے پہلے” کی دوڑ میں ہمارا اول نمبر ہو۔  ایسے میں بعض اوقات  وہ کچھ ہو جاتا ہے جیسا کہ اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔