counter easy hit

سینئر پاکستانی صحافی کا خصوصی تبصرہ

لاہور (ویب ڈیسک) سوشل میڈیا پر ہمارے کئی جید دانشور ان دنوں یہ طے کرنے میں مصروف ہیں کہ پاکستان کی بقاء اور خوش حالی کے لئے صدارتی نظام بہتر ہے یا پارلیمانی نظام۔ فرض کیا بالآخر یہ طے ہوبھی جائے کہ پارلیمانی نظام قطعاََ بے سود ہے جب بھی صدارتی نظام کو نامور کالم نگار نصرت جاوید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ لاگو کرنے کے لئے ایک طویل آئینی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ اس راستے پر پہلاقدم رکھنے کے لئے کافی وقت درکار ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس سفر پر روانگی سے قبل میسر وقت کس طرح گزارا جائے۔ اس کالم میں پاکستانی معیشت کی زبوں حالی کا رونا روتے تھک چکا ہوں۔ ہمارے وزیر خزانہ کئی مہینے تک مزاحمت دکھانے کے باوجود بالآخر IMFسے رجوع کرنے کو مجبور ہوگئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے وہ واشنگٹن میں تھے۔ ورلڈ بینک اور IMFکے لوگوں سے ان کی ملاقاتیں ہوگئیں۔ بیل آئوٹ پیکیج کی امید ان ملاقاتوں کے بعد جگائی گئی ہے۔ یہ مگر واضح نہیں ہوپارہا کہ مطلوبہ رقم کی پہلی قسط جاری کرنے سے قبل IMFکے تقاضے کیا ہیں۔معاشی امور کے بارے میں قطعی نابلد مجھ جیسے صارفین بھی اب تک ہوئے تجربات کی بدولت خوب جان چکے ہیں کہ IMFکی پہلی قسط آنے کے ساتھ ہی ہمارے گھروں میں خرچ ہوئی بجلی اور سوئی گیس کے بلوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ’’تبدیلی‘‘ والوں نے البتہ کمال یہ دکھایا ہے کہ مطلوبہ رقم کی پہلی قسط آنے سے قبل ہی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔Slabsکے گورکھ دھندے کو سفاکی سے استعمال کرتے ہوئے گزشتہ تین مہینوں میں سوئی گیس کے بلوں نے اچھے خاصے مطمئن نظر آتے افراد کو بھی بلبلانے پر مجبور کردیا۔معاملہ نظر بظاہر اب ڈالر کی پاکستانی روپے کے مقابلے میں قدر طے کرنے پر اٹکاہوا ہے۔ IMFکا اصرار ہے کہ ’’بازار‘‘ طلب ورسد کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ڈالر کی قدر طے کرے۔ حکومت ہماری بہت جائز وجوہات کی بنا پر ’’استحکام‘‘ کی خاطر اپنے لئے اس ضمن میں ’’بازار‘‘ پر کنٹرول کی گنجائش برقرار رکھنے پر بضد ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website