counter easy hit

سینیٹ انتخابات اختتام پذیر

Senate Election

Senate Election

تحریر : مہر بشارت صدیقی
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے میاں رضا ربانی ملکی تاریخ میں ایوان بالا کے ساتویں منتخب چیئرمین ہیں۔ اس سے پہلے سابق سینیٹر حبیب اللہ خان’ سابق صدر و سینیٹر غلام اسحاق خان’ وسیم سجاد’ محمد میاں سومرو’ فاروق ایچ نائیک اور سید نیئر حسین بخاری اس منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے مولانا عبدالغفور حیدری ملکی تاریخ میں ایوان بالا کے 11ویں منتخب ڈپٹی چیئرمین ہیں۔ اس سے پہلے سابق سینیٹر عبدالمالک بلوچ’ مخدوم سید سجاد حسین قریشی’ سید فضل آغا’ ڈاکٹر نور جہاں پانیزئی’ میر عبدالجبار خان’ میر ہمایوں خان مری’ کمانڈر (ر) خلیل الرحمان’ میر جان محمد جمالی اور صابر علی بلوچ ایوان بالا کے ڈپٹی چیئرمین کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔سینیٹ انتخابات کے بعد اجلاس میں چیئرمین سینیٹ کا انتخاب کیا گیا جس میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہونے والے رضا ربانی بلا مقابلہ سینیٹر منتخب ہو گئے۔نو منتخب چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ رضا ربانی سے حلف وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے بنائے گئے پریذائڈنگ آفیسر وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے لیا۔

حلف برادری کی تقریب سے قبل سینٹ کے نومنتخب ممبران سے خطاب کرتے ہوئے رضا ربانی نے کہاکہ جتنی تعریف ان کی تمام سینیٹرز کی جانب کی گئی اصل میں وہ اس تعریف کے حقدارنہیں ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کے کاندھوں پر ذمہ دایاں بھی بڑھ گئی ہیں ،کوشش کریں گے کہ وہ ان تما م ذمہ داریوں کوپوری طرح نبھا سکیں۔ انہیں بلا منتخب چیئرمین سینٹ منتخب کروانے پر وہ سیاسی قائدین اور ممبران کے شکر گزار ہیں اور وہ کوشش کریں گے کہ اتحاد کو مزید مضبوط بنائیں اور ان کے اعتماد پر پورا اتر سکیں۔ رضا ربانی نے کہاکہ وہ بحیثیت چیئرمین سینٹ تمام ارکان کو یکساں مواقع فراہم کریں گے کہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہر ہ کر سکیں۔ انہوں نے سینٹ چیئرمین منتخب ہونے سے قبل ہی پارٹی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ان کے بعد ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب کیا گیا جس میں 2 امیدواروں کے درمیان مقابلہ تھا۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب لڑنے والے امیدوار جمعیت علماء اسلام ف کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری تھے جنہیں پیپلز پارٹی سمیت مسلم لیگ ن اور بلوچستان کی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل تھی۔دوسری جانب تحریک انصاف کے شبلی فراز ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے امیدوار تھے۔

سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہوئی جس میں عبدالغفور حیدری کو 74 ووٹ ملے جبکہ شبلی فراز 16 ووٹ حاصل کر سکے۔جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھنے و الے سینیٹر عبدالغفور حیدری نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کے بعد اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا جبکہ ان سے یہ حلف اسحق ڈار نے لیا۔سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں فتح حاصل کرنے والے جمعیت علماء اسلام ف کے مولانا عبدالغفور حیدری 74 ووٹ حاصل کر کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گئے جبکہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے شبلی فراز 14 ووٹ حاصل کر سکے۔جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ انہیں حمایت کی یقین دہانی کروائی گئی تھی جبکہ پیپلز پارٹی سمیت مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں بھی جمعیت علماء اسلام ف کے امیدوار کی حمایت کریں گی۔دوسری جانب تحریک انصاف کے 6 سینیٹرز تھے جبکہ تحریک انصاف کو جماعت اسلامی کے ایک سینیٹر سراج الحق کی حمایت بھی شامل تھی۔اس طرح ان کے مجموعی ووٹ 7 ہونے چاہیئے تھے لیکن انہیں 7 ووٹ مزید کس نے ڈالے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعیت علماء اسلام ف اس بات کی تحقیقات کروانا چاہتی ہے کہ کس جماعت نے ان کلا ساتھ نہیں دیا۔دوسری جانب ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ شبلی فراز کو ان کی ذاتی حیثیت کی بناء پر آزاد اراکین کی جانب سے ووٹ ڈال دیے گئے ہوں لیکن اس کے باوجود جمعیت علماء اسلام ف 7 مشکوک ووٹوں کی تحقیقات کروانا چاہتی ہے۔

صدر مملکت کا عہدہ ایک ہی شخص کے پاس ہوتا ہے جبکہ آئین کے مطابق صدر پاکستان کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر کے عہدے پر فائز ہوتے ہیں۔اگر کبھی ایسی صورتحال پیدا ہو جائے کہ چیئرمین سینیٹ بھی ملک میں موجود نہ ہوں تو سپیکر قومی اسمبلی صدارتی فرائض سر انجام دیتے ہیں۔لیکن پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ پاکستان کو 2 دنوں میں تین صدور ملے ہیں۔گزشتہ روز صدر پاکستان ممنون حسین سرکاری دورے پرآذربائیجان روانہ ہوئے جن کے بعد سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق قائم مقام صدر مقرر ہو گئے جبکہ آج صبح ایاز صادق ہی قائمقام صدر پاکستان تھے لیکن سہہ پہر کو جیسے ہی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد رضا ربانی نے حلف اٹھایا، ساتھ ہی انہوں نے قائم مقام صدر کا حلف بھی اٹھا لیا۔ قائم مقام صدر کا عہدہ چیئرمین سینیٹ کے پاس ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں سینیٹ انتخابات کے بعد چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہونا باقی تھا جس کی وجہ سے سپیکر قومی اسمبلی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔لیکن پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہونے والے رضا ربانی بلا مقابلہ چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تو قائم مقام صدر کا عہدہ بھی انہیں منتقل کر دیا گیا جس کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کو 2 دنوں میں 3 صدر ملے ہیں۔

نومنتخب ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ یکجہتی اور اتحاد کے ذریعے ڈپٹی چیئرمین منتخب کرنے پر وہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ممنون ہیں’ پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر ملک اور اداروں کے استحکام کے لئے کام کرنا ہوگا اسی طرح ملک کے مسائل پر قابو پایا جاسکے گا۔ وہ تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کے شکر گزار ہیں کہ جس طرح انہوں نے چیئرمین سینٹ منتخب کیا اسی یکجہتی اور اتحاد کے ذریعے سے ڈپٹی چیئرمین منتخب کیا’ ایوان میں مجھ سے بہت سے سینئر ارکان ہیں جن کا آئین اور جمہوریت کے لئے بہت کردار ہے۔ ان کے تعاون سے ایوان بالا ایک مستحکم ادارے کے طور پر کام کرتا رہے گا اور ملک کے اہم مسائل چاہے وہ چھوٹے صوبوں کے مسائل ہوں’ بڑے صوبوں کے معاملات ہوں’ غربت’ دہشت گردی اور امن و امان کے مسائل تھے کے لئے سب مل کر اہم کردار ادا کریں گے بلکہ یکجہتی اور وحدت اسی طرح رہی اور پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر ملک اور اداروں کے استحکام کے لئے سوچا تو قوم اور ملک کو جو مسائل درپیش ہیں ان پر قابو پالیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ووٹ نہ دینے والوں کا بھی وہ شکریہ ادا کرتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مولانا عبدالغفور حیدری کو سینٹ کا ڈپٹی چیئرمین منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے مخالف امیدوار شبلی فراز کی جماعت کے ایوان بالا میں 6 ووٹ ہیں لیکن انہیں 16 ووٹ ملے ہیں جبکہ 6 ووٹوں کا مسترد ہونا بھی ایک لمحہ فکریہ ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ شاید کچھ ارکان نے جان بوجھ کر اپنے ووٹ ضائع کردیئے ہیں’ ہمیں امید ہے کہ ڈپٹی چیئرمین کے طورپر مولانا عبدالغفور حیدری غیر جانبدار انداز میں ایوان کی کارروائی چلائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن نے بڑی شدومد سے اپنی جماعت کا کیس لڑا ور بالآخر قرعہ ان کی جماعت کے حصہ میں آیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ خوش اسلوبی سے کمیٹیوں اور ایوان کی کارروائی میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے امیدوار شبلی فراز نے بھی ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن میں حصہ لیا اس پر وہ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔

Mehr Basharat Siddiq

Mehr Basharat Siddiq

تحریر : مہر بشارت صدیقی