counter easy hit

ایک جاندار سیاسی تبصرہ ملاحظہ کریں

See a living political comment

لاہور (ویب ڈیسک) جو ”اکھیاں“ شہباز شریف کی راہ تک رہی تھیں اور جن کا دل انہیں ”واجاں“ مار رہا تھا ان کے لئے نوید ہے کہ وہ اتوار کی صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے لاہور کے ہوائی اڈے پر اتر گئے۔ اب وہ جی بھر کر ان کا دیدار کرلیں۔ ان کے حامی کہیں گے کہ نامور صحافی قدرت اللہ چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ان کا مثالی استقبال ہوا، مخالفین طرح طرح کی پھبتیاں کسیں گے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے لیڈر کے استقبال کے لئے چند سو لوگ بھی جمع نہیں کرسکی۔ غرض ”فکر ہر کس بقدر ہمت اواست“ کے مصداق ہر کوئی منفی و مثبت تبصرے بھی کرے گا اور ایسا کرتے وقت خواب و خواہش بھی اس میں شامل کردے گا لیکن ان لوگوں سے یہ سوال پوچھنا تو بنتا ہے جو پورے یقین کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ چھوٹا فرار ہوگیا، بڑا فرار کے منصوبے بنا رہا ہے۔ اب ان کا تازہ موقف کیا ہے؟ اب جبکہ ”مفرور“ واپس آچکا تو کہا گیا ہے کہ وہ جانے کے لئے واپس آیا ہے، کئی لوگوں کو ان کی ”گمشدگی“ پر بھی بڑی تشویش تھی اور ان کے خیال میں اپوزیشن لیڈر کی تلاش کے لئے اشتہار دینا چاہئے تھا، لیکن اس کی نوبت نہیں آئی اور وہ اس کے بغیر ہی واپس آگئے ہیں، جہاں تک بڑے بھائی کا تعلق ہے وہ بھی اپنی آزاد مرضی سے اس آن میں واپس آیا تھا جب اسے عدالت سے سزا ہو چکی تھی اور گرفتاری یقینی تھی ممکن ہے اس کے بہی خواہوں نے اسے اس وقت بھی یہ مشورہ دیا ہو کہ وہ واپس نہ آئے۔ جولائی کا مہینہ ہے، گرمی بہت ہے لیکن وہ واپس آیا اور اچھے برے حالات سے گزر بھی رہا ہے، حالانکہ بعض لوگوں کو اب بھی شکوہ ہے کہ وہ قید نہیں کاٹ سکتا اور کسی نہ کسی طرح فرار ہونا چاہتا ہے، ایسی بے پر کی بھی مسلسل اڑائی گئیں کہ این آر او کے لئے اس نے اربوں کی پیشکش کی ہے، لیکن اسے این آر او نہیں ملنا، شہباز شریف کے بارے میں تو یہ تک کہا گیا کہ انہیں این آر او مانگتے ایک وفاقی وزیر نے خود دیکھا، لیکن لگتا ہے سب کچھ زیب داستاں تھا جن کا رنگ یار لوگوں نے اپنی گفتگو میں بھر رکھا تھا۔ جہاں تک عدالتی کارروائیوں کا تعلق ہے وہ جاری ہیں، قانونی طریق کار کے مطابق اگر کوئی ضمانت طلب کرتا ہے اور یہ قبول یا مسترد ہو جاتی ہے یا کوئی بیماری کی بنیاد پر کسی سہولت کا طلب گار ہوتا ہے تو اس پر ایسے تبصروں کی ضرورت نہیں جو سنگدلانہ انداز میں کئے گئے، کیونکہ ہم نے اپنی سیاسی تاریخ میں بڑے بڑوں کو معافیاں مانگتے بھی دیکھا ہے اور معذرتیں کرتے بھی سنا ہے،کئی تو چاردن کی سیاسی بہار کے ابتدائی جھونکے دیکھنے کے بعد پہلی ہی آزمائش میں حوصلہ ہار بیٹھے۔ حالانکہ درِ زنداں سیاست دانوں پر کھلتے اور بند ہوتے رہتے ہیں جو لوگ خود سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوکر سیاست کرتے ہیں اور مرغان باد نما کا عملی نمونہ ہیں۔ انہیں تو کوئی حق نہیں کہ شہباز شریف کے طرز سیاست پر کوئی تبصرہ کریں۔ جو حضرات سیاست کرتے ہیں وہ اس کی حرکیات کو ان لوگوں سے بہتر سمجھتے ہیں جو لب ساحل بیٹھ کر موجوں کا نظارہ کر رہے ہوتے ہیں اور جنہیں سیاسی طوفانوں کے مقابلے کا یارا نہیں ہوتا۔ شہباز شریف کو اگر قائد حزب اختلاف بنایا گیا تھا تو یہ کسی کا احسان نہیں تھا، پارلیمانی طریق کار کے مطابق انہیں اپوزیشن ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی اس لئے وہ قائد حزب اختلاف بن گئے، کسی اور کو یہ اعتماد حاصل ہوتا تو وہ بھی بن سکتا تھا، اس لئے اگر کوئی وزیر یہ کہتا ہے کہ شہباز شریف کو قائدحزب اختلاف بنا کر غلطی کی گئی تو وہ اپنا یہ احسان واپس لے سکتا ہے۔ شہباز شریف اگر اپوزیشن لیڈر نہیں بنتے تو پھر بھی یہ منصب کسی ایسے رکن قومی اسمبلی کے حصے میں آئے گا جو اپوزیشن کی سیاست کر رہا ہے۔ یہ کوئی معاون خصوصی کا عہدہ تو نہیں جو ریوڑیوں کی طرح دوستوں، یاروں میں بانٹ دیا جائے اور پھر بھی دعویٰ یہ کیا جائے کہ ہم تو میرٹ پر سب کچھ کر رہے ہیں۔ جس طرح انٹر فیل یا پاس پارٹی ورکروں کو ٹیکنیکل اداروں میں کھپایا جا رہا ہے کیا اس سے میرٹ کی حرمت برقرار رہ سکتی ہے۔ ابھی چونکہ ہواؤں کا رخ سازگار ہے اس لئے اہل وطن کی اس جانب توجہ نہیں ہے لیکن میرٹ کے ڈنکے بجانے والوں کے عزائم بہرحال آشکار ہو رہے ہیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ مزید ہوں گے۔ جب نیکٹا کی ڈائریکٹر شپ جیسے واقعات سامنے آئیں گے۔ حمزہ شہباز اس وقت ضمانت پر ہیں اور ان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ جلد نیب کی حوالات میں ہوں گے، اگر ضمانت منسوخ ہوگئی تو ایسا ہوسکتا ہے لیکن ان کے ساتھ حکومت کے اعلیٰ مناصب پر بیٹھے جن دوسرے لوگوں کا نام لیا گیا تھا کیا وہ بھی حوالات کا رخ کریں گے۔ سنا ہے انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر ان پر ہاتھ ڈالا گیا تو وہ سب کچھ کھول کر بیان کر دیں گے، اس لئے معاملہ رک گیا ہے۔ ایک متنازع انٹرویو میں ایسی بہت سی باتیں کی گئی تھیں، مرضی کے بنچوں کا تذکرہ بھی آیا تھا شاید اس سلسلے میں مزید کچھ شواہد بھی سامنے آئیں، لیکن شہباز شریف واپس آئے ہیں تو یہ سوچ کر ہی آئے ہوں گے کہ وہ دوبارہ بھی گرفتار ہوسکتے ہیں۔ ایسا ہوتا ہے یا نہیں، لیکن اتنا تو واضح ہے کہ ان کی واپسی سے وہ لوگ حیران و ششدر ہیں جنہیں کسی نہ کسی وجہ سے یقین تھا کہ وہ واپس نہیں آسکتے۔ اب وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا وہ خود جیل جانے کے لئے آئے ہیں یا کسی دوسرے کے اقتدار کے لئے خطرہ بننے کے لئے، اگلے مہینے میں اس جانب کچھ پیش رفت ہوتی نظر آتی ہے۔ اس وقت تک حالات کی رفتار پر گہری نظر رکھنا ہوگی۔ ویسے جو لوگ شہباز شریف کے ”فرار“ پر طرح طرح کے تبصرے کر رہے تھے اب اندر سے وہ بھی ڈرے ہوئے ہیں کہ یہ واپسی کسی طوفان کا پیش خیمہ تو نہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website