counter easy hit

کلچر کی تلاش میں

ثقافت‘ تہذیب اور طرز معاشرت بھلے ہی اپنے معانی میں ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہوں مگر کلچر کے دامن میں تینوں ہی سمٹ سے جاتے ہیں چنانچہ جب کہیں کلچر کی بات نکلتی ہے تو اس کی حدود متعین کرنا ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ کسی ایک زبان‘ نسل اور مشترکہ تاریخی پس منظر رکھنے والے ملکوں میں بھی اس ضمن میں جزوی اختلافات پائے جاتے ہیں جیسے مثال کے طور پر سلطنت برطانیہ میں انگلینڈ‘ اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کے علاقائی کلچر اپنے قومی کلچر کا حصہ ہوتے ہوئے بھی کئی معاملات میں اپنی جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں لیکن وسیع جغرافیائی خطوں پر مشتمل ممالک میں جہاں رنگ‘ نسل‘ مذہب‘ زبان اور جداگانہ تاریخی پس منظر کے حامل لوگ مل جل کر رہتے ہوں وہاں تو یہ معاملہ بہت ہی گمبھیر ہو جاتا ہے۔

پرانے وقتوں میں ایک ہی سلطنت کے سائے میں بہت سی تہذیبیں اپنے اپنے جداگانہ کلچر کے باوجود ایک ساتھ پھلتی پھولتی رہتی تھیں اور ان کے درمیان بہت کم تصادم کی صورت حال پیدا ہوتی تھی کہ سیاسی حوالے سے حاکم تہذیب اپنے حال میں مست رہتی تھی، اس کے باجگزار علاقوں کے لوگ تو مرکز میں موجود وسائل‘ سرکاری ملازمتوں اور مالی فوائد کیوجہ سے اس کی تہذیب یا زبان کی طرف جھکتے تھے مگر خود اسے ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا ۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں یہ صورت حال آریاؤں کی آمد سے لے کر‘ مسلمانوں کے دور اقتدار اور پھر انگریزی حکومت کی عمل داری تک آسانی سے دیکھی اور سمجھی جا سکتی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تو اس کے ممبران کی کل تعداد چالیس اور پچاس کے درمیان تھی لیکن پھر پرانے نظاموں کی شکست و ریخت‘ آزادی کی تحریکوں اور سیاسی توڑ پھوڑ کی وجہ دیکھتے ہی دیکھتے ڈیڑھ سو کے قریب نئے ملک اٹلس کا حصہ بن گئے، ان میں سے بیشتر ملک ’’قوم‘‘ کے وسیع تر دائرے سے نکل کر ’’قومیتوں‘‘ کے حوالے سے ظہور پذیر ہوئے اور ان کی انفرادی شناخت یعنی کلچر کی تلاش اور اس کا تعین گھر گھر کا مسئلہ بن گئے۔

وطن عزیز پاکستان میں یہ مسئلہ کئی اعتبار سے انوکھا اور منفرد تھا کہ آزادی کے وقت تک اس کے دونوں حصے سوائے مذہبی اشتراک کے ہر اعتبار سے اپنی ایک مختلف پہچان‘ زبان اور تاریخ رکھتے تھے، ایوب خان کے دور میں مختلف حوالوں سے کلچر کی سطح پر کچھ مقام ہائے اشتراک ڈھونڈنے اور بنانے کی کوشش کی گئی جو اس لیے بھی ناکام ہو گئی کہ قیام پاکستان کے بعد بھی عاقبت نااندیش حاکم طبقات کا سارا زور مشترکہ قومی مفادات اور سماجی انصاف کے بجائے مذہب اور استحصال بنیاد ہی رہا اور یوں 24برس کے اندر اندر ملک دولخت ہو گیا۔

ہونا تو چاہیے تھا کہ سقوط مشرقی پاکستان سے سبق سیکھ کر موجودہ پاکستان میں پرانی غلطیوں کو نہ دہرایا جاتا مگر عملی طور پر ایسا نہ ہو سکا نہ تو چاروں صوبوں کے ساتھ ایک سا سلوک روا رکھا گیا‘ نہ ہم اپنی رابطے کی مشترکہ زبان یعنی اردو کو وہ مقام دے پائے جو کسی مشترکہ کلچر کے لیے لازمی تھا اور نہ ہی ہم نے پاکستان میں موجود تہذیبی اکائیوں اور بولی جانے والی زبانوں کو وہ عزت دی جو ان کا حق تھا۔

پہلے سرکاری دفاتر‘ بیوروکریسی اور حاکم طبقات کے طرز حیات میں انگریزی کے غیر معمولی غلبے اور اس کے بعد نظام تعلیم میں اس کے غیرضروری اثرونفوذ نے ایک ایسی فضا پیدا کر دی کہ ملک واضح طور پر دو طبقوں میں تقسیم ہو گیا اور اس کے ساتھ ساتھ مذہبی عقائد‘ فرقہ بندی‘ مقامی تہذیبوں کی ایک دوسرے سے مغائرت‘ لسانی اور طبقاتی تقسیم اور سماجی بے انصافیوں کی وجہ سے تقسیم در تقسیم کا ایک  ایسا سلسلہ شروع ہو گیا کہ اب قومی تو کیا علاقائی سطح پر بھی ہمارے کلچر کے خدوخال دھندلا گئے ہیں۔

گزشتہ چالیس برسوں میں مختلف حکومتوں اور مارشل لائی ادوار کے دوران قومی کلچر کی تلاش اور تعین کے لیے کچھ کوششیں اور اقدامات کیے تو گئے ہیں مگر انصاف‘ فراخ دلی اور افہام و تفہیم کی کمی کے ساتھ ساتھ حاکم طبقوں کی نیت کی خرابی کی وجہ سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہو سکا، جہاں تک اس مضمون کے ماہر اہل علم و دانش اور سماجی ماہرین کی کاوشوں کا تعلق ہے انھوں نے اپنا کام خاصی محنت‘ ایمانداری اور سلیقے سے سرانجام دیا مگر ہر بار حاکم طبقوں کی خود غرضی اور حقائق کو توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کی شکل دینے کی ظالمانہ خواہش نے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور یوں نہ قوم‘ قوم بن سکی اور نہ ہی ہمارے کلچر کی کوئی شکل واضح اور متعین ہو سکی بلاشبہ مذہبی طور پر ہمارا تعلق عالم اسلام سے ہے۔ لیکن اگر دنیا بھر کے مسلمان اکثریت والے ممالک اپنے اپنے انفرادی کلچر‘ زبان‘ تہذیب‘ ثقافتی تاریخ‘ ملبوسات‘ طرز فکر‘ معاشی رشتوں اور تاریخ کی پیدا کردہ تبدیلیوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر اپنی کوئی مشترکہ پہچان بنا سکتے ہیں تو ہمیں ایسا کرنے سے کیا چیز روک رہی ہے؟

یہ ایک امر واقعہ ہے کہ سندھ‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا‘ بلوچستان اور اب گلگت بلتستان سمیت آزاد کشمیر کے لوگ کئی دیگر مذاہب بالخصوص ہندومت کے ماننے والوں کے ساتھ نہ صرف صدیوں تک رہے ہیں بلکہ ہم میں سے بیشتر کے آباؤ اجداد بھی دوچار دس نسلیں پیچھے انھی کے ہم مذہب ہوا کرتے تھے، سو مذہب کی سطح پر پاکستان کی 95% آبادی کا اشتراک کلچر کی پوری تصویر کا ایک حصہ تو ہو سکتا ہے مگر مرکز اور بنیاد نہیں۔ کلچر کا ہر وہ تصور جس میں اس کے ممبران کی زبان‘ ادب‘ معیشت‘ تاریخ‘ رسم و رواج‘ رویوں اور بنیادی حقوق کی بھرپور شمولیت اور حفاظت نہیں ہو گی وہ کبھی عملی طور پر رائج اور نافذ نہیں ہو سکے گا۔

گزشتہ روز یونیسکو نے کلچر کے حوالے سے اپنی 2005ء کی سفارشات کی روشنی میں حکومت پنجاب کے تعاون سے پاکستانی کلچر کے خدوخال اور مسائل پر ایک ورکشاپ نما تقریب کا اہتمام کیا جس میں بہت سی اچھی اور خیال افروز باتیں کی گئیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یونیورسٹیوں کے متعلقہ شعبوں کے اساتذہ‘ طلبہ‘منتخب شہریوں اور میڈیا کے نمایندوں کو بطور سامع اور مبصر کے بلایا جاتا تاکہ گفتگو میں گہرائی‘ وسعت اور مکالمے کی سی کیفیت پیدا ہو سکتی مگر سو، سوا سو کے قریب حاضرین میں سے گنتی کے چند لوگ ہی اس کسوٹی پر پورا اترتے تھے۔

سرکاری اہلکاروں کی اکثریت کا رویہ بھی نیم سنجیدہ اور ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ قسم کا تھا جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ یونیسکو کے نمایندے تو شاید اس تقریب میں کہی گئی کچھ بہت عمدہ باتوں کو اپنی کسی رپورٹ کا حصہ بنا لیں مگر حکومتی سطح پر اس کا انجام بھی وہی ہو گا جو اس سے پہلے کی گئی کوششوں کا ہوا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی حکمران ہر دور میں کلچر کے مسئلے کو ریاست کے بجائے حکومت اور وہ بھی حکومت وقت کی آنکھوں سے دیکھنے کے عادی ہیں اور چونکہ ان محفلوں میں رائے دینے والے ان کے ذاتی وفادار اور ملازمین نہیں ہوتے اس لیے وہ ہر اپنے لیے ناپسندیدہ بات کو ’’سیاسی مخالفت‘‘ اور کسی ’’نام نہاد سازشی فکر‘‘ کا نتیجہ قرار دے کر ان کی سفارشات کو کوڑے کے ڈبے میں ڈال دیتے ہیں۔ سو دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ کرے اس بار ایسا نہ ہو۔

البتہ ایک اچھی بات جو اس شام ہوئی وہ ایک بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ترتیب دیا گیا پروگرام تھا جسے کچھ مسیحی دوستوں نے ترتیب دیا اور جس میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں اور سکھوں کے نمایندے بھی شامل تھے۔

تقریب کا اہتمام چند دن قبل گزرنے والی عید میلاد النبیؐ اور کچھ روز بعد آنے والی کرسمس کو ایک ساتھ منانے کے حوالے سے کیا گیا تھا جو میرے خیال میں پاکستانی کلچر کی صحیح تفہیم کا ایک مظہر تھا کہ اس میں مذہب کو کلچر کی بنیاد کے بجائے ایک رکن اور حصے کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ امید کرنی چاہیے کہ اسی اصول کے تحت ہم وطن عزیز کے تمام باشندوں کے تہذیبی حقوق کو بھی یکساں اور جائز اہمیت دیں گے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو آیندہ پاکستانی کلچر کی تلاش اور تفہیم کے لیے ہمیں کسی کانفرنس یا ورکشاپ کی ضرورت نہیں رہے گی۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website